Zimni Election Ke Tanazur Mein Election Agent Ke Heran Kun Inkishafat
ضمنی الیکشن کے تناظر میں الیکشن ایجنٹ کے حیران کُن انکشافات
میں نے میٹرک اور ایف اے کے امتحان بھی اسی طرح دئیے تھے، میٹرک کے امتحان تو ابا نے دلوائے تھے۔ سپرٹنڈٹ کو پیسہ لگایا تھا اور سارے پیپر کر لیے تھے۔ ابا کی وفات کے بعد گھر کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ ہمارا خاندان سیاست میں ہے اور ہم زمین دار ہیں اور لڑائی جھگڑے والے بندے ہیں، ہم کہاں پڑھنے لکھنے کے چکر میں پڑتے ہیں۔ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب کچھ ممکن ہے، پیسہ ہو تو ہر چیز کو اور ہر بندے کو خریدا جا سکتا ہے۔ وہ بولتا رہا اور ہم الیکشن ایجنٹ کو سُنتے رہے۔
مجھے اِس ایجنٹ کی پوری کہانی سُننے کا اشتیاق ہوا۔ میں نے اُسے بلا کر پوچھا کہ تم اتنی بےخوفی اور بے باکی سے یہ سب کہہ رہے ہو، کیا واقعی تم نے اسی طرح میٹرک، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے ہیں یا ہمیں متاثر کرنے کے لیے لمبی لمبی ہانک رہے ہو۔ اُس نے کہا نہیں صاحبو! یہی سچ ہے اور مجھے آپ کو متاثر کرنے کی کیا ضرورت ہے، تین مربع زمین ہے، ایک ایکڑ کی قیمت دس کڑور روپے ہے۔
ساری زمین مین روڑ پر کمرشل ایریا میں آگئی ہے، ایک زمانہ تھا جب یہاں گھاس بھی نہیں اُگتی تھی اور ابا کہتے تھے کہ ہمارے نصیب سڑ گئے ہیں، عمر بھر بھوک سے نجات نہیں ملی اور اب دن پھرے ہیں تو چار، چار وِگو ڈالے ہیں اور دو، دو کنال کے پانچ گھر ہیں اور اللہ نے سب کچھ دیا ہے، پیسہ اتنا زیادہ آیا ہے کہ چین سے بیٹھا نہیں جاتا، اس لیے سیاست کا شوق چڑھا ہے کہ پانچ دس کڑور اُجڑ جائے گا تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔
میں نے اُس سے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کہ پیپر کیسے پاس کیے تھے؟ وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا: بادشاہوں، آپ بھی بچوں والے سوال کرتے ہیں۔ میں نے پہلے پیپر کے دن سپرٹنڈٹ کو جا کر کہا کہ مجھے کچھ نہیں آتا، میرے سارے پیپر تم نے کروانے ہیں اور جو مانگو گے، وہ ملے گا اور اگر نہیں کرواؤ گے تو پھر بھی میں پیپر کروا لوں گا اور تمہیں بھی لگ پتہ جائے گا کہ کس کے علاقے میں آئے ہو۔ ایک پیپر کا بیس ہزار طے ہوگیا، سوٹ، جوتا، تین وقت کا کھانا اور چار وقت چائے سارے عملہ کو اِس کے علاوہ پیش کی گئی۔ بی اے کا امتحان بھی یونہی دیا اور اب میں ایل ایل بی کا فائنل امتحان دے چکا ہوں، وہ بھی ایسے ہی مینج کیا ہے۔ ابھی اُس کی گفتگو جاری تھی کہ ایک بندہ چائے کا بڑا تھرماس لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ لو، بادشاہوں، چائے پیو، کھانا بھی آرہا ہے، آج، آپ ہمارے مہمان ہیں، ہمارا خیال آپ نے رکھنا ہے، اس علاقہ سے ہماری جیت یقینی ہے۔
ہم دوست ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر خاموشی سے چائے پینے لگے، اکا دُکا ووٹر آرہا تھا، گرمی کی وجہ سے اور ضمنی الیکشن کی وجہ سے اور گندم کی کٹائی کی وجہ سے اور سیاسی شعور کی وجہ سے اور جانے کتنی وجوہات کی بنا پر ووٹر کی آمد توقع سے بھی کم تھی۔ یہ لوگ منت سماجت، ڈرا دھمکا اور ورغلا، بہلا کر کسی نہ کسی طرح ووٹر کو لا رہے تھے۔ ووٹر کا بھی عجیب رویہ تھا، دس میں سے چھے ووٹر ووٹ ڈالتے ہوئے پوچھتے تھے کہ فارم45 آپ نے بنانا ہےیا فارم47۔ ہم ہنسنے لگ جاتے کہ ہم فارم45 والے ہیں اور فارم47 والے ہمارے اوپر بیٹھے ہیں۔
قریباً پچیس فیصد ووٹر نے ہم سے پوچھا کہ فارم 45 کیسا ہوتا ہے کیا ہم اُسے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نےمجبوراً پریذئڈنگ سے ایک خالی فارم 45 لا کر سامنے رکھ لیا اور جو پوچھتا اُسے دکھا دیتے تھے اور وہ غور سے فارم45 کو دیکھتے تھے اور پھر ان کے چہرے پر نا اُمیدی اور مایوسی کی گہری پرچھائی اُبھر آتی جسے محسوس کرتے ہوئے مجھے تکلیف ہوتی کہ یہ ووٹر ووٹ تو ڈال رہا ہے لیکن اس کے ذہن میں ووٹ کی عزت، وقعت، حیثیت اور اہمیت شاید باقی نہ رہی ہے۔
جس علاقہ میں ہماری ڈیوٹی لگی تھی، وہاں صرف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز شریف کا مقابلہ تھا، ووٹر کہتے تھے کہ یہاں سے بلے والا پہلے بھی جیتا تھا، اب بھی جیتے گا لیکن اُسے پہلے بھی فارم 47 والوں نے ہرایا تھا اور اب بھی فارم47 والے ہرا دیں گے۔ الیکشن 2018 اور الیکشن2024 کے بعد ضمنی الیکشن 2024 میں ووٹر کی مجموعی دلچسپی کو دیکھا جائے تو ووٹر کا پورا بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے۔ ووٹر کو اس بات کا شدت سے احساس اور یقین ہو چکا ہے کہ اس کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ کاغذی کارروائی ہے اور فیصلہ کسی اور جگہ سے کسی اور طاقت نے کرنا ہے، ہمارے ووٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔
ووٹر کی اس نا اُمیدی، بے یقینی، بے اعتباری اور عدم دلچسپی نے انتخابات کے جملہ نظام پر اُنگلی اُٹھا دی ہے اور عوام الناس کا اجتماعی شعور ایک بات پر آکر مجتمع ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان میں شفاف الیکشن کروانے میں پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ ایک ایسی طاقت جو یہ نہیں چاہتی کہ عوام کے ووٹ سے جیتنے والا اسمبلی میں بیٹھے، اس لیے وہ اس نظام پر عوام کے اعتماد کو توڑنے اور نا اُمید کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستانی سیاست کے جملہ بیانیے کو عوام الناس کی جمہوری آرا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تاثر کُھل کر سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ملک ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا، یہاں سچ اور جھوٹ میں فرق کے فاصلے کو ہمیشہ ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ رات کو جو اُمیدوار جیت رہا ہے وہ صبح کو ہارا ہوا دکھا یا جاتا ہے اور جس نے کبھی سیاست کا منہ نہیں دیکھا وہ مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ عوام میں رہنے والے عوام کے بارے میں سوچتے ہیں، ایک خاص حلقہ جس کا عوام الناس کے مسائل، ترجیحات، خواہشوں اور ضرورتوں کا سِرے سے علم ہی نہیں ہے وہ عوام کی بہتری، خوشحالی اور ترقی کے لیے کیا کرے گا۔
پاکستان کو بنے پون صدی ہو چکی، یہاں کا ہر الیکشن دھاندلی زدہ ہوتا ہے۔ آج تک متفقہ طور پر جملہ سیاسی جماعتوں نے کبھی کسی ایک الیکشن کو صاف، شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر درست اورٹھیک تسلیم نہیں کیا۔ جو جماعت ہار جاتی ہے وہ دھاندلی کا واویلا کرتی ہے اور جو جیت جاتی ہے وہ شفافیت، انصاف، معیار، اعتبار، یقین، جمہوریت، تعمیر، ترقی، خوشحالی کے راگ الاپتی ہے۔ پاکستان کی قسمت خراب نہیں ہے، یہاں کے سیاسی اذہان سرانڈ زدہ ہیں۔ پاکستان کی زمین بانجھ نہیں ہے، یہاں کے جاگیر داروں کی نیت میں کھوٹ ہے، پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے، اِسے لوٹنے والوں کے اختیارات زیادہ ہیں۔ پاکستان زوال آمادہ نہیں ہے، اسے گھٹنوں پر لانے والے اپنی اکڑ کے غرور میں مست ہیں، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، اس ٹیلنٹ سے فائدہ نہ اُٹھانے کی حماقت ضد بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں سونا، چاندی، تیل، پانی، ہوا، گیس، گندم، موسم سب کچھ ہے لیکن انھیں درست سمت میں استعمال کرکے ملک کی خوشحالی کے لیے ان وسائل سے بھر پور فائدہ نہ اُٹھانے کی چند لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کو اِسی تنزل کی حالت میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہے گی اور اس سوچ کے پیچھے وہ کون سی مجبوری ہے یا ذاتی مفادات کے حصول کی خواہش ہے جس نے اس ملک کو پون صدی سے آزاد ہونے کے باوجود آزادی سے ہمکنار ہونے کی توفیق سے ہنوز محروم رکھا ہوا ہے۔ وہ مجبوری اور ذاتی مفادات کی خواہش سب پر عیاں ہے لیکن ڈر اور خوف کے مارے کوئی بولتا نہیں ہے۔
دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی۔ کل کے دُشمن آج بہترین دوست بن چکے۔ دُنیا نے برس ہا برس جنگوں کی تباہی سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ نزاعات سے نکل کر آگے بڑھ جانا اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو گوارا کر لینا ہی ملک کی ترقی، خوشحالی اور سالمیت کے لیے بہتر فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک پاکستان ہے، جس کے دُشمن ختم نہیں ہوتے، اس کا نازک دور ختم نہیں ہورہا، اس کا قرضہ پون صدی گزرنے کے بعد بھی بڑھ رہا ہے، اس کے مسائل اس کے وسائل کو کھا گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے یہ ملک خود اپنا دُشمن ہے، اسے کسی اور دُشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ ملک اور اس کے باسی نہ خود کو بدلنا چاہتے ہیں اور نظام کو بدلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ فطرت کا اُصول ہے جو قوم خود کو آگے بڑھانے، غلطی کا اعتراف کرنے، دُشمن کو معاف کرنے، اجتماعی شعور و فکر کو فروغ دینے اور اعلیٰ ظرف کے معیار کو قائم رکھنے میں ہچکچاہٹ، بدگمانی اور واہمی اندیشوں کا شکار ہوتی ہے، اُسے کبھی سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی، اس کی رات کا چاند تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے، اس کی زمین بانجھ ہو جاتی ہے، اس کے موسم اُداس رہتے ہیں، اس کی ہوائیں زہر آلود ہوتی ہیں، اس کے چشمے سوکھ جاتے ہیں، اس کی قسمت کھوٹی اور تقدیر اُلٹی ہوتی ہے۔
خدا کے لیے خود کو بدلیے، دُنیا کو دیکھیے، ہوش کیجیے، آگے بڑھیے، ہم بہ حیثیت فرد، معاشرہ، ملک اور قوم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، آثار وقرائن سے یقین کی حد تک یہ سو چ ہر جگہ پنپ رہی ہے کہ بہت جلد یہ ملک ایک بڑی انارکی کی لپیٹ میں آنے والا ہے اور کوئی اس تباہی کو روک نہ سکے گا۔ اللہ نہ کرے کہ وہ دن آجائے اور ہم سوتے ہی رہ جائیں۔ محمود سرحدی نے اس صورتحال کے حوالے سے کہا تھا:
اے ساقیِ گلِ فام بُرا ہو تیرا
تو نے باتوں میں لُبھا کر ہمیں وہ جام پلایا
یہ حال ہے سو سال غلامی میں بسر کی
اور ہوش ہمیں اب بھی مکمل نہیں آیا