Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Yaraan e Shehr e Daska

Yaraan e Shehr e Daska

یارانِ شہرِ ڈسکہ

ابا جان کا خط موصول ہوا، پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بڑی آپا نے خط کے حفاظتی مجلّد حصے کو پیار سے دھیرے دھیرے چاک کیا اور تہ کئے ہوئے خط کو باہر نکالا اور وارفتگی کے عالم میں پڑھنے لگی۔ السلام علیکم! پیاری امی جان، بیگم صاحبہ اور بچوں۔۔ پورا خط بڑے شوق سے پڑھا گیا اور سب نے مِل کر سُنا۔ ابا جان کے خطوط پہلے بڑی آپا پڑھا کرتی تھیں، بعدازاں اماں جان ہم پانچوں بہن بھائیوں سے پڑھوایا کرتی تھیں۔ دوسرا خط آنے تک پہلا خط روزانہ پڑھا جاتا۔

بیسویوں مرتبہ سُنے ہوئے خط کو دوبارہ سُن کر ایک نیا لطف اور سکون ملتا۔ کیا خوبصورت دور تھا اور کتنا لطیف احساس تھا، اب وہ دور گزر چکا اور خط لکھنے والے بھی رخصت ہو گئے۔ ان دنوں ابا جان دادی جان کی آشوبِ چشم کے حوالے سے فکر مند تھے۔ مسلسل تین خطوں میں ابا جان سے دادی جان کی روز بروز کم ہوتی بینائی اور آشوبِ چشم کی وجہ سے فکر کا اظہار سے مجھے یہ احساس ہوا کہ ابا جان کو اگر چُھٹی مِل جائے تو وہ خود آکر دادی جان کی آنکھوں کا آپریشن کروائیں تاکہ خط کا ایک تہائی حصہ دادی جان کی بیماری پر صرف ہونے کی بجائے ہمارے بارے میں لکھا جائے۔

ابا جان نے خط میں ذکر کیا تھا کہ دادی جان کو ڈسکہ شہر کے مشہور آنکھوں والے ہسپتال میں لے جائیں اور وہاں سے آپریشن کروا لیں۔ ڈسکہ کا ذکر بار بار سُن کر میں سوچتا تھا کہ ڈسکہ کیسا شہر ہے جہاں جو مریض جاتا ہے وہ آنکھیں لے کر واپس آتا ہے۔ ڈسکہ شہر سے ایک گُونہ محبت کا بیج انھیں دنوں میرے شعور کی زرخیز زمین میں کہیں دب گیا تھا جس نے مرورِ وقت کے ساتھ جڑ پکڑی اور نمود کی منازل طے کرتا ہوا ایک چھتنار درخت کی صورت میرے تخیل پر سایہ فگن ہوا۔

2004 میں دادی جان کا انتقال ہوگیا، آپریشن کا معاملہ یونہی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ابا جان چھٹی لے کر گھر آئے، خوب رونا دھونا ہوا، آہ و بکا کا سلسلہ کچھ دن جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا۔ ابا جان واپس کینٹ جہلم چلے گئے، گھر والے اس سانحہ رحلت کو بھول بھال گئے۔ ایم اے کرنے کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے شہرِ لاہور وارد ہوا۔ یہاں کی بو باس طبیعت کے مخالف پا کر جی گھبرایا تاہم حوصلہ کرکے یہی مقیم رہنے پر خود کو قائل کر لیا۔

شہرِ لاہور نے ہماری خوب آزمائش لے کر ہمیں سرفراز کیا کہ 2018 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سےہم لیکچرر منتخب ہو گئے۔ پہلا اسٹیشن کہاں ملے گا؟ میرا تو لاہور میں دل لگ گیا تھا اور رسم و راہِ اُلفت کے سبھی تقاضوں کی انجام دہی کے لیے سامانِ فراواں موجود تھا، لاہور چھوڑ کر کہیں اور جانے کو ہرگز جی نہ چاہتا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تعیناتی کے لیے بلوایا اور ہم ناک کی سیدھ سول سیکرٹریٹ سے ملحق گرلز کالج، اسلام پورہ میں جا پہنچے۔ میرٹ میں ہمارا نمبر 24واں ہونے کی وجہ سے لاہور سے ملحق کالجز پہلے منتخب کر لیے گئے تھے۔

ہمارے سامنے کالجز کی فہرست رکھی گئی تو لاہور سے شیخورہ پورہ، گجرانوالہ سیالکوٹ سے ڈسکہ کے کالج میں خالی سیٹ پر نظر پڑی تو جیسے دل نے مہر لگا دی کہ یہی جانا ہے۔ متفرق خیالات کے ہجوم میں ڈسکہ سے زور پکڑا اور پھر ڈسکہ کو منتخب کر لیا۔ اگلے روز سامانِ مختصر باندھ براہ راستہ جی ٹی روز ڈسکہ کے لیے روانہ ہوا۔ ڈسکہ میں ڈاکٹر ساجد محمود ڈار سے ایک دیرنہ تعلق ہونے کی وجہ سے اُن کے آستانے پر دستک دی، انھوں نے کمال شوق سے خوش آمدید کہا، ڈاکٹر انجم خان صاحب کو اطلاع دی گئی اور وہ فوراً ملاقات کی غرض سے دوڑے آئے۔

دونوں دوستوں کے ہمراہ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج ڈسکہ کی زیارتِ اول سے نگاہوں کو ٹھنڈا کیا۔ کچھ دن ہمیں یہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ہم لیکچرر ہو گئے ہیں اور گورنمنٹ کے مستقل ملازم ہیں۔ اس ملازمت کے حصول سے میرے اِرد گرد کا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا تھا، اجنبی و شناسا نگاہوں میں عقیدت، محبت اور احترام کا از خود عنصر جانے کہاں سے عود کر آگیا اور ہمارے لیے تحسین و دلجوئی کی راہ ہموار کر گیا۔ اس عزت افزائی اور معاشرتی تحسین کو ذہنی طور پر قبول کرتے ہوئے جھجھک بھی ہوتی تھی اور خوشی بھی۔

ڈسکہ شہر کو دل کی نگاہ سے بچپن میں دیکھا تھا اور آج سر کی آنکھوں سے دیکھا تو زیادہ خوبصورت پایا۔ یہاں کے باسیوں میں محبت، پیار، خلوص اور مہمان نوازی کا شوق بہت بڑا ہوا ہے۔ محض ایک سڑک پر پھیلے اس شہر کو ہر لحاظ سے مکمل پایا۔ لوگوں میں فراخی دل کے ساتھ اعلیٰ مزاجی بھی دیکھی۔ دوستوں کے ساتھ وقت گزاری اور بات بات پر کھابے اور کھانے کا ذکر سُن کر مسرت ہوئی کہ مفاد پرستی اور نفسانفسی کے عالمِ ہنگام کے باوجود ایک اعتدال بہرحال یہاں طور اطوار اور نشت و برخاست میں موجود ہے۔

لیکچرر کی حیثیت سے ڈاکٹر انجم خان، ڈاکٹر ساجد محمود اور مبشر انجینئرکے ساتھ کالج میں داخل ہوا تو پروفیسر انور صاحب نے پُر تپاک استقبال کیا اور گلے لگا کر خوش آمدید کہا اور یہ یقین دلایا کہ فکر کی ضرورت نہیں ہم آپ کے لیے ہر وقت حاضر ہیں۔ پہلی ملاقات میں ایک اجنبی شخص کو یہ محبت اور اپنائیت ملنا کسی اعزاز سے کم نہیں تھا، حیرت اور مسرت کا ایک مِلا جُلا سا احساس دل سے روح میں اُتر گیا۔ یوں لگا جیسے دادی کی روح ڈسکہ کے باسیوں میں حلول کر گئی ہے۔

کالج کے سبھی اساتذہ نے نہایت خوش اُسلوبی سے مجھے یہ احساس دلایا کہ آپ ہمارے لیے مہمان ہیں اور ہم آپ سے استفادہ کریں گے۔ پرنسپل صاحب نے خوش آمدید کہا اور ایک ہفتہ کی مزید چھٹی دی تاکہ میں اپنی رہائش کا بندوبست کر سکوں۔ کالج میں جوائننگ دینے کے بعد ڈاکٹر انجم خان مجھے اپنے گھر لے آئے اور ایک کمرہ میری رہائش کے لیے مخصوص کر دیا۔ ڈاکٹر انجم خان ایک خاص شخصیت کے مالک ہیں، ان کی میزبانی نے ہمیں ایسا محسور کیے رکھا کہ عمر بھر اِن کی محبت کی اسیری سے رہائی ممکن نہ ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ جب تک چاہیں یہاں رہیں اور فکر کی ضرورت نہیں۔ میں نے اِن سے کہا کہ مجھے تنہا رہنا زیاد ہ پسند ہے کہ تنہائی کی عادت ہوگئی ہے، آپ میرے لیے کوئی مناسب مکان تلاش کر دیں جو کالج اور آپ دوستوں کے قریب ہوتاکہ باہم ملاقات کا سلسلہ جاری رہے۔

قریباً ایک ماہ ڈاکٹر انجم کے ہاں گزار کر ڈاکٹر ساجد محمود کی وساطت سے چونگی نمبر 8 سے ملحق ایک مکان مل گیا جہاں لاہور تبادلہ ہونے تک وقت گزارا۔ اس مالک مکان نے نہایت شفقت سے ہمیں وقت گزارنے کے سبھی لوازم عطا کیے۔ بر لبِ سڑک شاہین ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا کرتا تھا اور شام کو مین بازار میں کاشی دال چاول سے ایک پلیٹ چاول سے بھوک مٹایا کرتا تھا۔ دو برس کے اس عرصہ میں ڈسکہ میں سیکڑوں افراد سے سابقہ پڑا اور تعلق ہموار ہوا۔ سبھی دوستوں کے ہاں محبت، پیار اور فراخیِ قلب کا ایک سا احساس ملا۔

ڈاکٹر انجم خان، مبشر انجینئر، ڈاکٹر ساجد محمود، ماجد علی، کاشف، شعیب (ہر دل عزیز طالب علم)کے ہاں اکثر و بیشتر دوست جمع ہوتے اور ادب و تاریخ و سیاست پر ہر زاویے سے گفتگو ہوتی جس میں اختلاف و تضاد سے لے کر بات مجادلے تک پہنچ جاتی اور پھر چائے کی پیالی میں یہ طوفان سمٹ جاتا۔ ڈسکہ میں ادبی ذوق کی آبیاری کرنے والے دوست کا تذکرہ میں کیسے بھول سکتا ہوں، یہ صاحب ماجد علی ہیں جنھوں نے اہلِ ڈسکہ کو اُردو ادب سے روشنا س کروایا۔ یہ صاحب اردو ادب کا لائبریری طرز پر کتب خانہ رکھتے ہیں جہاں کتاب پڑھنے والا کتاب خرید سکتا ہے اور خرید نہ سکنے کی صورت میں دُکان میں بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ بھی کر سکتا ہے۔

میں روزانہ شام پانچ سے رات گیارہ بجے تک اس دُکان میں جایا کرتا تھا اور دُکان میں موجود ہر نوع کی کتاب سے تعارف حاصل کرتا تھا۔ آج میرے پاس اردو ادب سے متعلق جو قلیل شعور ہے وہ سب اِس صاحب کی دین ہے، اگر یہ صاحب مجھے ڈسکہ میں یہ موقع فراہم نہ کرتے تو آج میں اردو ادب کے دو تہائی زاویوں سے کے گیان سے محروم رہتا۔

پروفیسر اسحاق مرحوم پورے ڈسکہ علمی و ادبی شخصیت کے طور پر مشہور تھے، ان صاحب سے میں نے علم و شعور کا وہ فیض اُٹھایا ہے جو شاید اہلِ ڈسکہ کو بھی نہ مل سکا۔ پروفیسر صاحب سے گھنٹوں طویل نشستیں ہوتیں اور ہر موضوع پر کُھل کر اظہارِ خیال کرنے کاموقع ملتا۔ کالج کے لائبریرین پروفیسر مجید بھٹی صاحب سے جو تعلق رہا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ خالی پرئیڈ میں ان کے پاس جانا معمول تھا۔ بھٹی صاحب کہا کرتے تھے کہ بیس سال پرانی کتب کی گرد آپ نے آکر صاف کی ہے اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے مجھے یہ موقع دیا اور مجھے پتہ چلا کہ میری لائبریری میں کتنی کتابیں ایسی تھیں جنھیں شاید پہلی مرتبہ کسی نے کُھول کر دیکھا ہے۔

ڈسکہ کے قیام میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس دن کسی نئے دوست سے تعارف نہ ہوا ہو، دوستوں کے دوست بھی میرے دوست بنے، ان کی خوشی غمی انھی کی طرح میری بھی برابر شرکت رہی۔ ڈسکہ کے دوستوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا تذکرہ اس مختصر کالم میں کیسے سما سکتا ہے۔ پروفیسر عارف لاوی، پروفیسر شاز، پروفیسر اختر اور پروفیسر بینامین، پروفیسر وقار شاہ کے ساتھ اکثر و بہشتر کالج کے وسیع دلادن کے بوسیدہ بنچوں میں بیٹھ کر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔

شہرِ قصور سے متصل پروفیسر وقار، پروفیسر شہزاد اور پروفیسر ارشد کے ہاں اکثر علمی و ادبی اور تاریخی موضوعات پر تکرار رہتی اور بات دست و گریبان تک پہنچ جاتی۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج ڈسکہ کے جملہ اسٹاف سے جو محبت، پیار، شفقت اور احترام ملا وہ میرے لیے سرمایہ حیات ہے۔ ہو سکتا ہے میرے علاوہ جن احباب کو ڈسکہ کا تجربہ کسی اور نوعیت کا رہا ہو، وہ مجھ سے اختلاف کریں، یہ بات درست ہے، انسان کے ساتھ انسانوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، جہاں سے خیر ملی ہو، وہاں کا شر بھی انسان کو خیر ہی دکھائی دیتا ہے۔

اہلِ ڈسکہ کے لیے میرے دل میں محبت بچپن سے تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ شہر علم و ادب کا مرکز ہے اور یہاں ایسے ایسے نگینے موجود ہیں جن کو اگر موقع ملے تو وہ زندگی کے ہر میدان میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک اُستاد معمارِقوم ہوتا ہے، اس کا یہی فریضہ ہے کہ وہ عمارت کو اُستوار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اپنے فرض کی انجام دہی میں ہر گز کوتاہی نہ کرے۔ یارانِ ڈسکہ اور شہرِ ڈسکہ کے لیے دُعا گو ہوں کہ یہ شہر پھلتا پھولتا رہے اور یہاں کے باسی زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے تمغے لیے تفاخرِ معظمات کا اظہار کرتے رہیں۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra