Taleemi Boards Mein Parchon Ki Marking Ka Amal Naaqis Kyun Hai?
تعلیمی بورڈز میں پرچوں کی مارکنگ کا عمل ناقص کیوں ہے؟
سر جھکائے باپ اور بیٹا کرسی پر بیٹھے تھے، مجھ سے دونوں کی بے بسی دیکھی نہ گئی، میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا، دونوں کو دلاسہ دیا اور کہا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ لڑکا ذہین، سمجھدار اور بالغ نظر تھا، او لیول کرنے کے بعد ایف ایس سی میڈیکل کر رہا تھا، باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا ایم بی بی ایس کر لے، اکلوتی اُولاد ہے، کچھ بن جائے گا۔
میں انھیں مشکل سے یہ سمجھا پایا کہ بورڈ میں ری مارکنگ کا مطلب ری کاؤنٹنگ ہوتا ہے، پیپر کو کسی صورت ری چیک نہیں کیا جاسکتا، صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی سوال میں نمبر کم لگے ہیں یا زیادہ لگے یا لگے ہی نہیں یا نمبرات کے میزان یعنی ٹول میں فرق ہے یا کوئی سوال چیک ہی نہیں کیا گیا یا کسی سوال کے مجموعی نمبر میں کہیں کوئی فرق ہے، اس کے علاوہ سیکرسی میں موجود آفیسر ذاتی طور پر کسی کے نمبر گھٹا سکتا ہے نہ بڑھا سکتا ہے۔
پیسے وغیرہ امتحانی سنٹر میں چلنے کی رویت ہے لیکن سیکرسی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، سپر نٹنڈٹ کو پورا اختیار ہے کہ وہ فیل ہونے والے بچے کو پاس کروادے اور پوزیشن والے کو اوریج نمبروں پر لے آئے۔ باپ بیٹا دونوں خاصے نااُمید ہوئے۔ باپ اور بیٹے کی یہ نا اُمیدی دیکھ کر ممتحن یعنی پیپر چیک کرنے والے پر مجھے بھی غصہ آرہا تھا لیکن میں بے بس تھا، جو ہونا تھا، ہوچکا۔ یہ وہ واقعہ ہے جو براہ راست میرے تجربے سے گزرا ہے۔
اسی طرح کی سیکڑوں کہانیوں کا ذکر کنٹرولر امتحانا ت لاہور بورڈ نے ایک ورکشاپ کے دوران کیا ہے، اُن کا کہنا تھا کہ جب بچے ہمارے پاس آتے ہیں، پرچوں کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے جوابات بالکل درست ہیں جبکہ ممتحن نے ایورج نمبر دیے ہیں اور جان بوجھ کر بغیر کمنٹ لکھے اور وجہ ظاہر کیے نمبر کاٹے ہیں تو ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے جب بچہ جھولی اُٹھا کر ہمیں بددُعائیں دیتے ہیں اور بُرا بُرا کہتے ہیں۔
میٹرک کے امتحانات پنجاب بھر میں جاری ہیں، اس کے بعد انٹر کے امتحان ہوں گے، امتحان کے فوراً بعد مارکنگ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ پنجاب کے نو، تعلیمی بورڈز ہیں جن میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات ہوتے ہیں، امتحانات کے فوراً بعد سیکرسی برانچ پرچوں کو اس طرح شفل کرتی ہے کہ سائنس کے پرچے مختلف بورڈ ز میں کراس چیکنگ کے لیے پنجاب بھر میں بھجوائے جاتے ہیں۔ تمام رول نمبر فرضی لگائے جاتے ہیں، پرچے پر بچے کا نام اور دیگر معلومات حذف کر دی جاتی ہیں، صرف فرضی رول نمبر رہ جاتا ہے، یہ احتیاط اس لیےکی جاتی ہے تاکہ غیر قانونی طریقے سے پرچوں تک رسائی نہ ہوسکے اور زیادہ نمبر لگوانے کے جملہ ذرائع کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ اس معاملے میں سبھی بورڈز کا سسٹم انتہائی فعال ہے اور داد کے لائق ہے۔
پنجاب بھر میں مختلف ہائی سکولز اور کالجز میں مارکنگ سنٹر بنائے جاتے ہیں جہاں ایگزامینزز اور ہیڈ ایگزامینزز کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے، پرچوں کی پڑتال یعنی مارکنگ کا عمل بورڈز کی طرف سے بنائے گئے مارکنگ سنٹر پر صبح نو سے شام آٹھ بجے تک بلا تعطل جاری رہتا ہے۔ مارکنگ سنٹر میں ممتحین کے لیے سہولیات نہ ہونے کےبرابر ہیں، اکثر و بیشتر سنٹر میں بیٹھنے کے لیے کرسی اور میز بھی نہیں ہوتے، شدید گرمی کے موسم میں مارکنگ کا یہ عمل اوائل مئی سے اواخر ستمبر تک جاری رہتا ہے، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی میں بیٹھ کر ممتحن پیپر چیک کرتے ہیں اور برائے نام سہولیات کا مسلسل شکوہ کرتے رہتے ہیں، اس معاملے میں کہیں کہیں البتہ سکول اور کالجز کے سربراہان اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں کہ مارکنگ سنٹر میں بجلی، پانی اور پنکھے وغیرہ کی سہولت دی جائے لیکن یہ مثال نہ ہونے برابر ہے، اس معاملے میں بورڈ کی انتظامیہ خاموش رہ کر اپنی بے بسی اور سہولیات کے پیشِ نظر محدود وسائل کا ماتم کرتی ہے البتہ بورڈ کے اندر بنے ہوئے مارکنگ سنٹر میں مناسب کرسیاں میز اور ٹھنڈے پنکھوں کا انتظام ہوتا ہے۔
مارکنگ کا عمل شروع اس طرح ہوتا ہے کہ بورڈز کا نمائندہ مارکنگ کرنے والے صاحبان کو کال کرکے آگاہ کرتا ہے اور ممتحین کمال شوق سے مارکنگ سنٹر میں دوڑے آتے ہیں، پہلے دن ایک بنڈل (50 پیپر سے200) ممتحن کو مل جاتا ہے۔ ممتحن اس بنڈل کو گن کر چیک کرتا ہے کہ اس میں کوئی پیپر مطلوبہ تعداد سےکم تو نہیں ہے، اس کے بعد وہ معروضی چیک کرتا ہے جس کے جوابات بورڈ خود مہیا کرتا ہے، ممتحن مل کر سٹنسل یعنی معروضی جوابات کا ٹرانسپیرٹ پیج بنا لیتے ہیں جس سے معروضی چیک کرنے میں آسانی رہتی ہے، معروضی چیک کرنے کے بعد ہر پیکٹ (25 پیپر) میں ایگزامینر پانچ پیپر چیک کرتا ہے اور ان پرچوں کو بورڈ کی طرف سے لگائے گئے ہیڈ ایگزامینر کو دکھاتا ہے، ہیڈ ایگزامینر، ایگزامینرکے چیک کیے ہوئے پرچہ جات کے معیار کو دیکھتا ہے اور جہاں کمی بیشی ہوتی ہے، اُسے دور کرنے اور مارکنگ کا معیار مزید بہتر کرنے کی ہدایات جاری کرتا ہے، ایگزامینر جب پورا بنڈل چیک کر لیتا ہے، اس کے بعد بورڈ کی طرف سے لگائے گئے سیکشن آفیسر کے پاس بنڈل جاتا ہے۔
یہ سیکشن آفیسرز عارضی طور پر مارکنگ کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر فی کس اُجرت کے تحت رکھے جاتے ہیں، سیکشن آفیسر ایک دن میں تین سو پیپر چیک کرتا ہے، یہ تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے، سیکشن آفیسر پورے بنڈل کے پرچہ جات کو دیکھتا ہے، ایک ایک پرچے کا ایک ایک سوال دیکھتا ہے، ایگزامینر کی طرف سے لگائے گئے نمبرات کو چیک کرتا ہے، پھر تمام جوابات کا میزان یعنی ٹوٹل نمبر چیک کرتا ہے، اگر کوئی کمی بیشی ہے تو اُس پرچہ کو فولڈ کر دیتا ہے اور آخر میں درستی اور نظرِ ثانی کے لیے ایگزامینر کو واپس کرتا ہے۔
اس عمل کے بعد بنڈل کی ایوارڈ لسٹیں بنتی ہیں، جسے سیکشن آفیسر ایگزامینر کے ساتھ مل کر فرداً، فرداً چیک کرتا ہے، ہر طرح سے درست اور کسی قسم کی کمی بیشی اور غلطی نہ ہونے کی صورت میں ایوارڈ لسٹیں بورڈ کے کلرک کے پاس بھجوائی جاتی ہیں جسے ہیڈ ایگزامیز کے دستخط کے ساتھ کمپیوٹر میں فیڈ کر دیا جاتا ہے، اس طرح ایک بنڈل کی مارکنگ کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ مارکنگ سنٹر کے تمام مضامین کے پرچہ جات کی مارکنگ کاعمل مکمل ہونے کے بعد حتمی ایوراڈ لسٹیں بورڈ میں بھجوا دی جاتی ہیں جہاں کمپیوٹر برانچ میں رزلٹ بن کر تیار ہو جاتا ہے اور نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
مذکورہ بیان کیا گیا عمل بالکل اسی طرح سے ہے اور اس میں فی الحال کوئی قباحت اور کمی بیشی سامنے نہیں آتی۔ اگر یہ عمل بالکل درست ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے جنابِ عالی! ایگزامینر کو ایک بنڈل جو اوسطاً 50 پرچوں سے 200 پرچوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک دن میں 50 پرچوں سے زیادہ پرچے ایگزامینر چیک نہیں کرسکتا اور نہ ہی اِسے مطلوبہ تعداد سے زیادہ دئیے جاسکتے ہیں۔
ہوتا یہ ہےکہ ممتحن بہت چالاک، ہوشیار اور تجربہ کار ہوتا ہے، وہ ایک دن آتا ہے اور دوسرے دن آکر پھر بنڈل ایشو کرواکے گھر چلا جاتا ہے، اس طرح تین چار دن میں دو ارڈھائی سو پرچے یعنی تین چار بنڈل جو ایشو ہو چکے ہوتے ہیں، انھیں لے کر کمرے کے کونے میں بیٹھ جاتا ہے، ایک سو بیس کی رفتار سے قلم چلاتا ہے اور تین چار گھنٹے میں تین چار بنڈل پھڑکا کر یہ جا وہ جا ہو جاتا ہے۔ یہ صاحب مارکنگ سنٹر میں ٹوکا کے نام سے مشہور ہے، اس صاحب کی رسائی اوپر تک ہوتی ہے، کسی ایگزامینر کو بنڈل ایشو ہو یا نہ ہو، اس صاحب کا بنڈل اس کے آنے سے پہلے ایشو ہو جاتا ہے اور اس کی میز پر رکھا ہوتا ہے، اس کا کام بس حصہ انشائی چیک کرنا ہے، معروضی کوئی اور چیک کرے گا، ایوارڈ لسٹیں بھی کوئی اور بنائے گا اور سیکشن آفیسر کو پرچے بھی کوئی اور دکھائے گا۔
یہ کوئی اور نامی مخلوق صرف ٹوکا قسم کے ایگزامینرز کے پاس ہوتی ہے جو ایک خاص وقت میں نمودار ہوتی ہے اور کام ڈالنے کے بعد غائب غلہ ہو جاتی ہے۔ جن بچوں کے پرچے ان ٹوکا، چھرا، درانتی، کلہاڑی قسم کے ایگزامینرز کے ہاتھ لگ گئے، ان کا تو ستیاناس ہوگیا اور ان پر جو ظلم ہوتا ہے اُس کی داد رسی دُنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ یہ صاحب ایورج مارکنگ کرتا ہے یعنی اس کے ذہن میں پانچ چھے قسم کی نمبرز کی تعداد گھومتی رہتی ہے، برق رفتاری سے یہ صاحب جوابات پڑھے بغیر اور کمنٹ لکھے بغیر صرف نمبر لگائے جاتا ہے۔ ایک پرچہ فی کس پانچ سے دس سیکنڈ میں چیک کرتا ہے، ان ٹوکا، چھرا کلہاڑی اور درانتی قسم کے ایگزامینرز کی رسائی بورڈ کے اعلیٰ حُکام تک ہوتی ہے اور انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا، ان کا مارکنگ کا بِل چار لاکھ سے سات لاکھ روپے بنتا ہے، گویا یہ ایک شخص ایک مارکنگ سنٹر کے لیے کافی ہے۔
اُستاد کے نام پر یہ وہ جلاد ہیں جو لائق، ذہین اور محنتی بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں، احساسِ ذمہ داری اور فرض شناسی سے نا آشنا یہ جاہل ہزاروں بچوں کے مستقبل کے قاتل ہیں۔ بورڈ کا عملہ ایسے جلادوں سے واقف ہونے کے باوجود ان کی شکایت نہیں کرتا بلکہ ان کے آگے بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور یہ سیاسی اثرورسوخ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
ہیڈ ایگزامینزر کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس دستخط کرنے کا وقت بھی نہیں ہوتا، یہ صاحبان انتہائی کروفر اور رعونت کے ساتھ مارکنگ سنٹر میں آتے ہیں، 25 فیصد پرچہ جات پر آدھ گھنٹے میں دستخط نما لکیریں ڈال کر چلے جاتے ہیں، بورڈ کی طرف سے آنے والی ٹیم بھی اسی طرح کی کارگردگی دکھاتی ہے البتہ آٹے میں نمک کے برابر ہیڈ ایگزامینرز ایماندار، فرض شناس اور تجربہ کار ہوتے ہیں جو جانچ پڑتال کا حق ادا کرتے ہیں۔ مارکنگ سنٹر میں یہ ٹوکے، درانتی اور چھریاں ایسے القاب سے مشہور ایگزامینرز سالہا سال الٹی چھری سے بےگناہ اور معصوم بچوں کےمستقبل کو ذبح کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی، انھیں مطلوبہ تعداد سے زیادہ پرچے ایشو ہی کیوں کیے جاتے ہیں۔
انھیں پکڑنے اور ٹریس کرنے کا بہت آسان طریقہ ہے، جب رزلٹ بن جاتا ہے اور ایگزامینر کے چیک کیے ہوئے پرچہ جات کی مکمل تفصیل معاوضہ کے بِل کی صورت کنٹرولر صاحب کے پاس پہنچتی ہے تو کنٹرولر صاحب یہ دیکھیں کہ ایک ایگزامینرنے تیس دن میں کتنے پرچے اوسطاً چیک کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایگزامینر تیس دن میں پانچ سو پرچے چیک کر رہا ہے اور ایک ایگزامینر چار ہزار پرچے چیک کر گیا ہے، ان دونوں ایگزامینرز میں سے کس نے بہتر انداز میں پرچوں کی پڑتال کی ہوگی۔
ہر سال دس سے سترہ فیصد بچے مختلف مضمون کی ری چیکنگ کرواتے ہیں، ری چیکنگ کے نتیجے میں انھیں مایوسی اور نا اُمیدی ملتی ہے۔ پنجاب کے جملہ تعلیمی بورڈز کے پاس ہائی کورٹ کی طرف سے یہ قانونی تحفظ حاصل ہے کہ کسی مضمون کا پڑتال شُدہ پرچہ امیدوار کی طرف سے نمبرات میں کمی کی صورت میں دوبارہ چیک نہیں کیا جائے گا، صرف ری کاونٹ کیا جائے گا۔ اس قانون کی آڑ میں بورڈز کی انتظامیہ اور ایگزامینرز دونوں قانوی تعزیر سے بچے رہتے ہیں۔ انھیں ماتم کرنے اور زمین پر لیٹ لیٹ کر بد دُعائیں دینے پر مجبور بچوں پر رحم نہیں آتا۔
بورڈز کی انتظامیہ اپنی طرف سے ہرممکن کوشش کرتی ہےکہ اپنے ادارہ میں موجود کالی بھیڑوں کو نکالا جائے جو ان ٹوکا، چھرا، درانتی اور کلہاڑی القاب سے متصف ایگزامینرز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، کس کو قصور وار اور کس کو بے گناہ کہا جائے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ ری کاؤنٹنگ کے قانون پر نظرِ ثانی کرے تاکہ جلاد قسم کے ایگزامینر کا قلع قلمع ہو سکے اور ان کے ظلم و جور سے معصوم و مستحق طلبا کا روشن مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے۔