Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Sharam Tum Ko Magar Nahi Aati

Sharam Tum Ko Magar Nahi Aati

شرم تم کو مگر نہیں آتی

اگست 2021 میں عمران خان نے افغانستان میں طالبان قیادت کو حکومت سنبھالنے کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے جبر سے آزادی حاصل کر لی یعنی امریکہ سے آزادی کر حاصل کر لی۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ایک کال آئی اور بازی پلٹ گئی۔ پاکستانی دیکھتے رہ گئے اور خان صاحب بھی ہکا بکا رہ گئے کہ میرے ساتھ یہ ہاتھ کیسے ہوگیا۔

شبر زیدی کی یہ گفتگو ایک سے زیادہ پوڈ کاسٹ میں سُن کر اس قصے پر یقین ہو نے لگا ہے۔ شبر زیدی عمران خان کے دورِحکومت میں ایف بی آر کے چیرمین رہ چکے ہیں۔ اس عہدے پر فائض رہنے سے انھیں کیامشکلات پیش آئیں اور انھوں نے ایسا کیا کرنے کی کوشش کی جو ممکن نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے بددل اور مایوس ہو کر یہ عہدہ چھوڑ دیا۔ یہ باتیں ان کی ہر پوڈ کاسٹ میں موجود ہیں جنھیں وہ نہایت بےباکی سے کہہ رہے ہیں۔

شبر زیدی پڑھے لکھے بےباک انسان ہیں۔ تاریخ، سیاست اور معیشت کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ پاکستانی معیشت اور پاکستانی سیاست کی جملہ صورتحال کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ہے، وہی نقشہ گذشتہ چھے ماہ سے دیگر پاکستانی شخصیات کھینچ رہی ہیں۔ کافی باتیں ان شخصیات کی علمی، ادبی، سماجی، سیاسی اور معاشی میدان کے مسائل و حقائق کی باہم مماثلت رکھتی ہیں۔

اول یہ کہ پاکستان کا مسئلہ تعلیم سے دوری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ دوم یہ کہ پاک فوج کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ہم سے جانے انجانے میں غلطیاں ہوگئی ہیں۔ سوم یہ کہ سیاست دان یہ کبھی نہیں مانتے کہ انھوں نے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور مسلسل پہنچا رہے ہیں۔ سوم یہ کہ مذہبی انتہاپسندی کی مداخلت سیاست میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کسی کو اس کے تباہ کُن اثرات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ چہارم یہ کہ بیوروکریسی نے اس ملک کی سالمیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

پانچ یہ کہ عدلیہ نے جس طرح کا نظامِ عدل وضع کیا ہے اور کی پریکٹس جاری رکھی ہوئی ہے، بہت جلد یہ نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ چھے، سات، آٹھ اور پھر بیس، تیس اور پچاس تک یہ فہرست بناتے چلے جائیے۔ مسائل کی یہ فہرست کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اس ملک کی بد قسمتی یہی ہے کہ یہاں ہر شخص کو ملک کے مسائل کا پتہ ہے اور اس کے ممکنہ حل کے تمام تر مراحل سے بھی کماحقہ واقفیت ہے اور طریقہ کار کا بھی بخوبی علم ہے۔ یہ سب کچھ ہے لیکن عملی طور پرگذشتہ پچھتر برسوں میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والوں نے اسے جوں کا توں رہنے دیا ہے۔ جو بھی آتا ہے وہ آکر دیکھتا ہے۔ صورتحال کا اندازہ لگاتا ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مجھے تو چلے جانا ہے۔

یہ مسائل تو بیس سال میں حل ہونے والے ہیں۔ مجھے ان سے کیا غرض ہے۔ پتہ نہیں کل کو اقتدار ملے یا نہ ملے۔ میں جو فائدہ اُٹھا سکتا ہوں، وہ اُٹھا لوں۔ باقی سب یونہی جس طرح سے چل رہا ہے۔ اسے چلتے رہنا چاہیے۔ زیادہ چھیڑ چھاڑ سے کرسی کے پائے اُتروا کر اپاہج ضرور ہونا ہے۔ یہ وہ روش ہے جس پر اس ملک کی جملہ حکومت کارفرما ہے۔

28 فروری کو الیکشن کا دن مقرر ہے۔ سولہ ماہ پی ڈی ایم نے باہمی اتفاقِ رائے سے حکومت بنائی اور بھر پور کامیابی سے چلائی۔ ان سولہ ماہ میں اس مفاہمتی حکومت نے کیا کِیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ عمران خان کے دورِحکومت میں اس اتحاد کی باہمی منافرت سب کے سامنے تھی۔ نگران حکومت کیسے بنی اور اس کے بنانے والے کون ہیں۔ یہ بھی سب کو پتہ ہے۔ اب الیکشن کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ سبھی جماعتوں میں توڑ جوڑ اور اتحاد و نفاق کا سلسلہ جاری ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ کی ڈیمانڈ ہو رہی ہے۔ ہر جماعت یہ چاہتی ہے کہ ہمیں موقع فراہم کیا جائے۔ ہم سب سے زیادہ وفادار ثابت ہوں گے۔

اگلی حکومت کس کی بنے گی۔ اگلا وزیر اعظم کون اور کس جماعت سے ہوگا۔ یہ سب پہلے سے طے ہو چکا۔ سب سے بات چیت بھی ہوچکی۔ ایک منطقی لائحہ عمل بھی متعین ہو چکا۔ سوال یہ ہے کہ اس پچیس کروڑ عوام کا کیا کرنا ہے۔ ان کو کس طرح یقین دلانا ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں جیت کر بننے والی حکومت ہی دراصل وہ حکومت ہے جو عوام کے مینڈیٹ سے آئی ہے۔ عوام کو ایک ریہرسل کی صورت میں اس عمل سے گزارا جائے گا جسے الیکشن کہا جاتا ہے۔ اربوں روپے اس مد میں خرچ ہوں گے۔ اس کے بعد جو پہلے سے طے ہے وہ عملی شکل میں نافذ العمل ہو جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ پہلے سے طے ہو جاتا ہے تو پھر عوام کا خون نچوڑ کر اربوں روپے ٹیکس کی مد میں اکھٹا کی ہوئی رقم کو الیکشن کے نام پر ضائع کیوں کیا جاتا ہے۔ آج ہمارے خزانے میں کوڑی کوڑی کا حساب دیکھا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی منتیں اور ترلے کیے جا رہے ہیں۔ چوبیس گھنٹے میڈیا پر آکر یہ بھاشن دیا جارہا ہے کہ ہم مر رہے ہیں، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا۔ ہمیں وہ کیا کرنا ہے۔ یہاں سے پیسے کاٹ لو۔ وہاں سے ٹیکس بڑھا دو۔ یہ سبسڈی ختم کر دو۔ وہ الاؤنس منجمد کر دو۔ یہ سب کچھ ملکی سالمیت کی ساکھ بچانے اور ملک کو جیسے تیسے آگے بڑھانے کے لیے کیا جار ہا ہے۔

یہ سب اگر درست ہے اور ملک ڈیفالٹ نہیں کر رہا اور ملکی خزانہ بھی اب نزع کی حالت میں نہیں ہے تو پھر الیکشن کروانے کی ضرورت کیا ہے۔ اچھا بھلا نظام چل رہا ہے۔ ایک بہترین چناؤ کے بعد نگران حکومت بنی ہے اور معاملات دیکھ رہی ہے۔ ابھی اسے چلنے دیں۔ جن کو غدارِ وطن اور ملک دشمن بناکر عبرت بنانا ہے۔ انھیں بنا لیں۔ جنھیں نوازنا ہے، انھیں بھی نواز لیں۔ جنھیں راستہ دینا ہے، دے لیں۔ جنھیں ملک بدر کرنا ہے، کر دیں۔ جنھیں قریب کرنا ہے، کر لیں۔ جنھیں معتوب ٹھہرناہے، ٹھہرا لیں۔ یہ سب کچھ کر لیں۔ اس کے بعد جب ملکی خزانہ جوانی کی ترنگ پکڑ لے گا۔ جب سموگ کی نحوست سے نجات مل جائے گی۔ جب امریکہ بہادر ہماری وفاداری سے خوش ہو جائے گا۔ جب آئی ایم ایف کی ضرورت باقی نہ رہے گا۔ جب انصاف کا نظام سب کے لیے سود مند ہو جائے گا۔ جب اسلام کا جھنڈا ہر سُو لہرا تا ہوا نظر آئے گا۔ پھر الیکشن کروا لیجیے گا۔ ہم سے ووٹ بھی لے لیجیے گا۔ جس کی حکومت بنے گی۔ اُسے عوام بھی تسلیم کریں اور مبنی بر حقیقت گردانے گی۔

سوال یہ ہے کہ جب حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے والے یہ سب جانتے ہیں اور اس کا اختیار بھی رکھتے ہیں تو انھیں اس بات کا کیوں ادراک اور احساس نہیں ہے کہ پاکستانی عوام بھوک سے مر رہی ہے۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آپ کے اس شغل کی وجہ سے عوام کی تو چیخیں نکل گئی ہیں۔ مہنگائی نے عوام سے ہر وہ چیز چھین لی ہے جس کی حسرت اب ان کے دل میں ہے۔ خدا کے لیے اگر آپ کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ملک کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ایک لاغر اور ناتواں وجود ہے جسے بلاناغہ ٹکیہ لگا کر ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا خون تبدیل کرنا ہے۔ اس کا آپریشن بھی کرنا ہے۔

پاکستانی اب یہ جان چکے ہیں کہ آپ ہی اس ملک کے والی، مولا اور آقا ہیں۔ آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس ملک کی حالت پر رحم کریں۔ اسے مزید تجربہ گاہ نہ بنائے۔ کُھل کر سامنے آئیں یا ہمیشہ کے لیے تائب ہو کر گوشہ نشین ہو جائیں۔ آپ کی اس آنکھ مچولی کی وجہ سے ملک اس حالت کو پہنچ چکا کہ بقول شاعر:

یہ تیرگی مرے گھر کا ہی مقدر کیوں

میں تیرے شہر کے سارے دئیے بجھادوں گا

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib