Purnam Allahabadi, Urdu Ghazal Ka Gumnam Qawwal Shaair
پرنمؔ الہ آبادی، اُردو غزل کا گمنام قوال گو شاعر
ادب کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے لکھنے والے شب و روز اپنا قلم تخلیق کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ مرورِ وقت کے ساتھ ان کی لکھت کو کوئی مدیر، پبلشرز، فلم انڈسٹری کا پروڈیوسر میسر آجائے تو ان کا نام تحریر سے تقریر اور تقریر سے اخبارات و رسائل تک پہنچتا ہے پھر مشاعروں سے ہوتے ہوئے سکرین تک پہنچ جاتا ہے بصورتِ دیگر ان کا کہا، زمانے کی گرد میں دب کر رہ جاتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی محقق اور مشاقِ ادب کی نگاہ اس دبے ہوئے کتبے پر پڑجائے تو وہ اس پرکھ ٹٹول کر منظرِ عام پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ خوش نصیبی بہت کم تخلیق کاروں کے حصے میں آتی ہے۔ پچانوے فیصد تخلیق کار اس سہولت سے محروم رہتے ہیں۔
پرنم الہ آبادی ایک ایسے ہی شاعر ہیں جن کا نام 1990 کی دہائی میں چہار سُو گونج رہا تھا۔ ان کی کہی ہوئی غزلیں اور قوالیوں کو اس زمانے کے مشہور قوال اور غزل گائیک آواز دے رہے تھے۔ پرنم کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ ان کا نام مٹتا چلا گیا البتہ ان کا کہا ہوا کلام آج بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔
ان کا قلمی نام پرنم الٰہ آبادی اصل نام محمد موسیٰ ہاشمی، تخلص پرنم تھا، والد کا نام حاجی محمد اسحاق تھا۔ پرنم الہ آبادی 1940ء میں بھارت کے الٰہ آباد میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی آ بسے، بعدازاں لاہور میں انارکلی کو مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ استاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی اور شاعری میں جداگانہ اسلوب اپنایا۔
بھارتی اور پاکستانی فلموں کے لیے بول لکھنے کے علاوہ پرنم نے معروف قوالی "بھر دو جھولی میری یا محمد" اور "او شرابی چھوڑ دے پینا" بھی لکھی جس کو صابری برادران نے پیش کیا۔ پرنم الہ آبادی نے شاہکار غزل "تمہیں دلگی بھول جانی پڑے گی" بھی لکھی ہے جس کو نصرت فتح علی خان نے گایا تھا۔ پرنم نے شاعری میں جداگانہ اسلوب اپنایا اور عشق کے رنگ میں ڈوب کر لازوال کلام تخلیق کیا۔ پُرنمؔ الٰہ آبادی، 29 جون 2009ء کو وفات پائی۔
پُرنم اِلٰہ آبادی درویش صفت انسان تھے جو تمام عمر شہرت اور خود نمائی سے دور بھاگتے رہے۔ پرنم نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی اور درویشی میں سلطانی کی۔ جو شہرت ان کے نعتیہ اور عارفانہ کلام کو ملی وہ بہت کم شعراء کے حصے میں آئی ہے۔ ان کی تصانیف میں: "پھول دیکھے نہ گئے"، "عشق محمدﷺ"، "عشق اولیاء کرام"، "بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے"، "بھردو جھولی مری یا محمدﷺ" قابلِ ذکر ہیں۔
برصغیر میں قوالی کے ذریعے اولیاء کرام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا جو فریضہ انجام دیا پُرنم اِلٰہ آبادی صوفیاء کی اس عظیم روایات کی امین تھے۔ پُرنم اِلٰہ آبادی کو تو ادبی حلقوں میں بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں عوامی سطح پر تو شاید ہی کوئی ان کے نام سے واقف ہو۔ غلام فرید صابری قوال، استاد نصرت فتح علی خان، میڈم نور جہاں، منی بیگم، عزیز میاں قوال، استاد حامد علی خان، امجد فرید صابری سمیت برصغیر کے بہت سے قوالوں اور گلوکاروں نے ان کے کلام کو گا کر عالمی سطح پر شہرت پائی اور یہ کلام ان گلوکاروں اور صداکاروں کی وجہ شہرت بنا۔
پرنم الہ آبادی خالصتاً ایک غزل گو شاعر تھے۔ ان کا رجحان مذہب کی طرف فطری تھا۔ خانگی مسائل اور غمِ دوراں نے طبیعت میں صوفیانہ مزاج کا عنصر دخیل کیا جس سے موت و حیات کے فلسفے کو تجرباتی حوادث کی صورت سمجھا اور پھر اسی دُھن میں قوالی کہنا شروع کی۔
پرنم الہ آبادی نے کلاسیکی روایت سے بھر پور استفادہ کیا تھا۔ ان کے مجموعہ کلام پھول دیکھے نہ گئے، بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے میں غزلیات کا انتخاب اس قدر فنی پختگی اور اُسلوب کی متنوع جہتیں لیے ہوئے ہے کہ ان کے ہم عصر شعرا یعنی فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، باقی صدیقی، محبوب خزاں، جون ایلیا، احمد فراز، جون وفا پوری، انور شعور، محسن بھوپالی اور احسان دانش وغیرہ کے ہاں وہ مضمون کی بندش اور اوزان کی چستی دکھائی نہیں دیتی۔
؎
ہم نے پھولوں کو جو دیکھا لب و رخسار کے بعد
پھول دیکھئے نہ گئے حُسنِ رخِ ریا کے بعد
؎
میں تری ادا کے قربان یہ ادا بھی کیا ادا ہے
کبھی مجھ سے روٹھ جانا کبھی مجھ سے پیار کرنا
؎
اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے
کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا
؎
اچھے دن آئے تو میں نے یہ تماشا دیکھا
میرے دُشمن بھی گلے مجھ کو لگائے آئے
؎
سوچ لے اے تڑپانے والے تُو رُسوا ہوجائے گا
میرا ذکر جہاں بھی ہوگا تیرا نام بھی آئے گا
پرنم الہ آبادی کی غزل میں ہر وہ رنگِ سخن ملتا ہے جو ان کے ہم عصر کے ہاں امتیازی شان لیے ہوئے ہے۔ پرنم نے محبت کے تصور کو آفاقی تناظر میں دیکھا ہے۔ پرنم کے ہاں سماجی شعور کی تہ در تہ پرتیں باہم مدغم دکھائی دیتی ہیں جنھیں پرنم ؔ نہایت آسانی سے وا کرنے کا ہنر جانتاہے۔
؎
دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا
؎
کلیاں بجھی بجھی سی ہیں پھول اُداس اُداس ہیں
روٹھ گئے ہو جب سے تم روٹھی ہوئی بہار ہے
؎
درد و غم اور اُداسی کے سوا کون آتا
جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے
پرنم نے پاکستانی معاشرت کو سیاسی و تہذیبی تنزل کے حوالے سے بھی دیکھا ہے اور اس پر شدید تنقید کی ہے۔ مزاج میں درویشی اور صوفیانہ عقاید سے وابستگی کے باوجود پرنم کے ہاں روایتی مضامین کے بیان کی جدت اور تازگی انفرادی شان لیے کلام میں جلوہ گر ہے۔
؎
گلشن پہ اُداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں
وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے
؎
لُٹنے کا افسوس بجا ہے لیکن اے لُٹنے والو
کس کو خبر تھی قافلہ منزل پہ لُٹ جائے گا
؎
تم نے مرے ٹوٹے دل کی کچھ قدر نہ کی کیا ظلم کیا
تم نے بھی مرا دل ٹوٹا ہو اپیمانہ سمجھ کے چھوڑ دیا
پرنم الہ آبادی ایک عہد ساز اور رجحان ساز شاعر ہے جس پر سِرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ ہمارے نقاد حضرات کا رویہ بھی عجیب و غریب ہے کہ جس شاعر کو اخبارات و سکرین میسر ہوتی ہے، فقط اُس پر مضامین و کُتب لکھتے ہیں اور جو اپنی طبیعت اور باوجوہ کسی سیاسی مصلحت و ادبی چپلقش کے گمنام ہو جائے، اُس پر جملہ کہنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پرنم الہ آبادی کا کلام یقیناً اس لائق ہے کہ اس پر کام کیا جائے اور اس کی ادبی حیثیت کو متعین کیا جائے۔