Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Pakistani Masajid Ke Jumme Be Asar Kyun?

Pakistani Masajid Ke Jumme Be Asar Kyun?

پاکستانی مساجد کے جمعے بے اثر کیوں؟

پاکستانی مساجد میں قیامِ پاکستان کے بعد سے ہنوز جمعہ کا درس ہورہا ہے۔ درس کے اس تسلسل کو پچھتر برس گزر گئے۔ جمعہ کے اس درس میں علما کیا بیان کرتے ہیں۔ ریاست نے کبھی اس پر تحفظ یا آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں مساجد سے جس مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کی روایت نے جنم لیا۔ آج اس روایت کی اُولاد مساجد کے منبر پر قابض ہے۔

ایک کثیر تعداد اُن علما کی ہے جو درسِ نظامی کی تحصیل سے محروم و ناآشنا ہے۔ ان علما کی تعلیم کسی ثقہ بند مذہبی مدرسے سے نہیں ہوئی۔ ان کے پاس کسی مستند مذہبی مدرسے کی سند بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کو منبر دے دئیے گئے ہیں۔ نیز جو من میں آتا ہے وہ کہنے کی آزادی بھی دی گئی ہے۔ جمعہ کے دن ہر مسجد میں اوسطاً دو سے پانچ سو کے درمیان افراد جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ مسجد کے مولوی یعنی جمعہ کا درس دینے والے خطیب کے پاس اپنے علاقے کے پڑھے لکھے، ان پڑھ، کند ذہن اور شاطر ذہن والے سبھی افراد موجود ہوتے ہیں جو باہم ایک جگہ مودب ہو کر دو زانو بیٹھتے ہیں اور واعظ سنتے ہیں۔ یہ واعظ کس قسم کا ہوتا ہے اور اس میں اول تا آخر کیا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ اسے ریکارڈ کرکے اس کا تجزئیہ کرنے سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے نام پر مبارزت و منافرت کے اسباب کی بنیادی وجوہ عیاں ہو جائیں گی۔

شہری مضافات میں کسی عالم کا جامع مسجد کے خطیب کی حیثیت سے انتخاب کرنے کے لیے درس نظامی کی سند کے ساتھ حافظ ہونے کی شرط کے علاوہ فقہ پر عبور کا اضافی تجربہ سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس خطیب کی ماہوار تنخواہ دس ہزار سے پچاس ہزار تک ہوتی ہے۔ شہر کے مضافات کا علاقہ اگر لوکل آبادی پر مشتمل ہے تو پانچ ہزار سے بیس ہزار تک ماہوار تنخواہ مقرر کی جاتی ہے۔ اگر ہاؤسنگ سوسائٹی ہے تو پچاس ہزار تک (منتخب کردہ کمیٹی کی اپنی دینی قابلیت کے پیشِ نظر) تنخواہ مقرر ہوتی ہے۔ عالم صاحب کو مہینے میں اوسطاً چار جمعہ پڑھانا ہوتے ہیں، نیز پانچ نمازوں کے ساتھ کفن دفن اور شادی و بیاہ کے علاوہ محافل وغیرہ میں بھی شرکت کرنا ہوتی ہے۔

ایک شخص جس نے زندگی کے بیس پچیس برس دین کی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کر دئیے ہیں، اُس کے علم کی جانچ مسجد کے متولین جو دین کے علاوہ سب کچھ جانتے ہیں، کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ معمولی رنجش یا شکایت کی صورت میں صفائی و بے قصوری کا موقع دئیے بغیر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ مساجد کے خطبا کے لیے حکومت کی سطح پر کوئی وظیفہ مقرر نہیں ہے انھیں کوئی اور پروٹوکول یا سہولت بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ اپنی ہمت، محنت اور کوشش سے عمر بھر مختلف علاقوں میں سیکڑوں مساجد میں وقفے وقفے سے خدمات انجام دیتے ہوئے بنیادی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جو انتہائی تکلیف دہ اور لائقِ توجہ ہے۔

دوسرا رُخ وہ ہے جو ان کے بیانیات، واعظ اور تقاریر سے متصل ہے۔ اس رُخ کو سیاسی پُشت پناہی اور عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں بیس کے قریب مختلف مکتبہ ہائے فقہی و مسلکی مکتبہ فکر موجود ہیں جن کی اپنی مساجد ہیں اور دعوت کا اپنا طریق کار ہے۔ مشہور مسالک میں اہل سنت، اہل حدیث، اہل تشیع شامل ہیں۔ دیوبندی مکتبہ فکر بھی انھیں مسالک کی نمایاں شاخ ہے۔ ان چاروں مکتبہ فکر کی مساجد اور مدارس علاحدہ علاحدہ ہیں۔ ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز پڑھنا اور دیگر مذہبی عبادات میں شریک ہونا کفر سمجھتا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کی مسجد میں اپنے مسلک کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ اس خطیب کے واعظ میں اس قدر مسلکی انفرادیت کی شدت ہوتی ہے کہ غلطی سے بھی کسی دوسرےمسلک کی بات یا رجحانِ کار کو بیان کرنا اس کے نزدیک کفرِ عظیم ہوتا ہے۔

یہ حال جہاں ایک خطیب کا ہے وہی اس مسلک کے پیروکار کا بھی ہے۔ گویا ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کے نزدیک بے دین، راستے سے بھٹکا ہوا اور کافر متصور ہے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے قبل اور مابعد سے ہنوز اسی شد و مد سے جاری ہے اور اس کی شدت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر پوڈ کاسٹ، وی لاگز اور انٹرویوز کی وجہ سے مسالک کی باہمی منافرت، چپلقش اور انتہا پسندی میں یہ فرق آیا ہے کہ تشکیک کا ذہن رکھنے والی نوجوان نسل نے ان خطبا کو سننا ترک کر دیا ہے۔

یہ نوجوان نسل اپنے دُنیاوی کاموں میں ایسی مصروف ہے کہ مذہبی عقائد کی انجام دہی کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ جمعہ کا خطبہ فرض ہے اور درس ایک مشرقی ایجاد ہے جو علما نے اپنی سہولت کے لیے گویا فرض کر رکھی ہے۔ جمعہ کا درس ہر مسجد میں ایک گھنٹہ سے دو گھنٹہ دورانیہ پر محیط ہوتا ہے۔ امام صاحب ساڑھے بارہ بجے مسجد میں تیار ہو کر تشریف لاتے ہیں۔ انھیں جو کہنا ہوتا ہے وہ بے لاگ کہتے چلے جاتے ہیں۔ انھیں سننے والے بوڑھے، اپاہج، گونگے اور قریبِ مرگ اذہان و ابدان ہوتے ہیں یا پھر خالی بچھی ہوئی دریاں اور صفحیں۔ جمعہ کا درس ختم ہونے سے پانچ منٹ قبل ایک ہجوم اُمنڈ کر مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ آن کی آن میں مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھر جاتی ہے۔ دس منٹ کے اندر دو رکعت فرض نماز کی ادائیگی کے ساتھ مسجد خالی ہو جاتی ہے۔

یہ عمل جملہ مسالک کی مساجد میں تسلسل سے جاری ہے اور اس روش میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان نمائندہ مسالک کے جید علما نے اس مسئلے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی؟ انھیں کیوں یہ فکر لاحق نہیں ہو رہی کہ ہماری مساجد میں جمعہ کا درس اور خطبہ سننے کے لیے مسلمان وقت بخشوشی و دلچسپی اہتمام سےکیوں نہیں آتے۔ درس کے اختتام اور نماز کی ادائیگی کے درمیان بمشکل دس منٹ کا دورانیہ ہے۔ اس دورانیے میں سیکڑوں نمازی صحیح طرح سے وضو بھی نہیں کر سکتے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ بیشتر نمازی گھر سے وضو کرکے آتے ہیں۔ یہ تاثر میرے لیے انتہائی اذیت کا باعث ہے کہ یہ رویہ نمازیوں کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے یا کہ ان مساجد میں جمعہ کی تقاریر کرنے والے خطبا کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ علما ایسا کیا کہتے ہیں جس سے نمازی متنفر ہو گئے ہیں۔

اس سے یہ واضح ہوچکا کہ مسلمان مسجد میں نماز سے قبل آکر بیٹھنا اور خطیب کا درس سننا ایک فصول، بے سود اور لایعنی عمل کے ساتھ وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ جمعہ کی نماز مسلمانوں کی اجتماعیت کے اتحاد کی علامت ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اجتماعیت کے اس فلسفے کو نقب لگ چکی ہے۔ پاکستانی ریاست کے عہدداران اس امر سے قطعاً نا آشنا ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو اور غدارِ وطن و مخالفِ مذہب قرار دینے کی مبارزت میں اس قدر غرق ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کے فلسفے کے تنزل سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ نمازیوں یعنی مسلمانوں کی مساجد کے دروس و واعظ سے بیزاری اور عدم دلچسپی کی اس وجہ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔

وقت آگیا ہے کہ مذہبی مسالک کو سیاست سے علاحدہ کرنا ہوگا یا پھر مذہبی مسالک کے بیانیے کو سیاست کا بیانیہ قرار دے کر مساجد میں دیگر ممالک کی طرح ایک سرکاری خطبہ کا تحریری مواد بطور نفازِ ریاست کا اعلامیہ جاری کر نا ہوگا تاکہ باہمی منافرت کا مذہبی جنون ختم ہو سکے اور سبھی آرام سے ٹھنڈے ہو کر اپنے اپنے فقہی حجروں اور مسلکی قبروں میں متمکن بے فکری مدام میں مدہوش رہیں اورسب اچھا ہے کہ بانسری بجاتے رہیں۔

حالت یہ ہے کہ پاکستانی سماج سیاست سے متنفر ہو چکا، معیشت سے عاجز آچکا، تہذیب سے علاحدہ ہو چکا۔ ثقافت سے بیزار ہو چکا اور انفرادیت کو کھو چکا۔ ایک مذہب رہ گیا ہے جس کے بارے میں اس سماج کے پرودرہ رعایا کے اذہان میں اتنے سوالات ہیں کہ یہ بھنور لاوا بن چکا ہے جو موزوں وقت پر خود کو باہر نکالنے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب نمازیوں کے ہاتھ اور خطیبوں کے گریبان ہو ں گے۔ سیاست دانوں کے گریبان اور عوام کے ہاتھ ہوں گے۔ خدا کے لیے اس ملک پر رحم کریں۔ اس ملک کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خطرہ اند سے ہے اور اندر موجود انتشارات کی کثیر الجماعتی منافرتو ں اور تعصباتوں سے ہے۔ اب ہم تباہی کے دھانے پر آچکے ہیں۔

ایک سماج جب اپنے مذہب سے بیزاری کا اظہار کر دیتا ہے، اپنے پیروکاروں کی نصحیتوں سے منہ موڑ لیتا ہے، اپنے محافظوں کو شک کی نگاہ دیکھتا ہے اور اپنے مہربانوں کو قاتلوں کی صف میں شمار کرنے لگتا ہے تو اِس کی قسمت میں دائمی شکست اور بربادی لکھ دی جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہ حیثیت قوم ہم پر واپسی کے اعادے اور توبہ کے اختیار کی صلاحیت چھین لی جائے۔ ہمیں اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور جملہ افعالِ مذمومی سے توبہ کر لینی چاہیے۔ اللہ اُس قوم کو معاف کردیتا ہے جو خود کو معاف کرلیتی ہے اور اپنا قبلہ درست کر لیتی ہے۔ اپنا قبلہ درست کر لیجیے ورنہ قبلہ تبدیل کر دیا جائے گا۔ پھر تم حیران دیکھتے رہ جاؤ گے۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad