Pakistani Aurat Pidar Samaj Muashre Ke Bare Mein Kya Sochti Hai?
پاکستانی عورت پِدر سماج معاشرے کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟
زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے دل کا احوال کھول کر بیان کر دیا جائے تو سکون مل جاتا ہے۔ میری زندگی میں ایسے افراد کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے۔ بچپن سے گھر کے حالات خستہ تھے۔ ابا جان سعودی عرب میں کسی نجی فرم میں کام کرتے تھے۔ مہینوں ان کا خط ملتا نہ کوئی رابطہ ہو پاتا۔ اماں جان سارا دن ان کا نام لے لے کر غمزدہ رہتیں اور اُدھار مانگ کر ہمیں پالتی پوستیں۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا پھر ہمارے دن پھرے اور ایسے پھرے کہ گھر جو صحرا کی صورت تھا، گل و گلزار ہوگیا۔ مشکلیں لاکھ کٹھن آئیں لیکن ایک ایک کر ختم ہوگئیں۔
ابا جان نے خوب پیسہ کمایا اور ہم بہن بھائیوں پر خرچ کیا، وقت بڑا بے رحم ہے، اس کی ضَد میں جو آجائے پیس ڈالتا ہے۔ ابا جان اچانک کئی بیماریوں میں مبتلا ہو کر بسترِ مرگ ہوگئے۔ چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ دُکان سے سودا سُلف لانے کی سمجھ سے قاصر تھا۔ میں گھر میں سب سے بڑی تھی، گھر کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آپڑی۔ چارو ناچار اس ذمہ داری کو فرض سمجھ کر اُٹھالیا۔ میٹرک کے بعد ایف اے، بی کیا اور ساتھ ہوم ٹیوشن پڑھا کر گھر کا نظام چلانے کی کوشش کی۔
ایم اے اُردو کرنے کے بعد نجی کالج میں بطور اُستاد سلیکشن ہوگئی۔ سمبڑیال سے سیالکوٹ کا راستہ اگرچہ مختصر ہے لیکن میرے لیے یہ سفر کوفہ کے سفر ایسا ثابت ہوا۔ کہتے ہیں جوانی سب پرآتی ہے اور خوب بہار دکھاتی ہے۔ ہم پر تو جیسے جوانی آئی ہی نہیں ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے والے گدھے بن گئے۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے
ہماری زندگی کے 35 برس یونہی صبح شام کرتے گزر گئے۔ اپنے لیے کبھی سوچا نہ خود پر خرچ کرنے کا خیال آیا۔ ابا جان کی بیماری، بہن بھائیوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات کی مد میں صرف ہونے والی رقم کو جس طرح ماہوار مینج کیا یہ میں ہی جانتی ہوں۔
پاکستانی معاشرے میں مرد سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم کیوں ملازمت کرتے ہو، کہاں جاتے ہو، کیا کرتے ہو، کیوں کرتے ہو، لیکن ہم لڑکیوں سے ہر جگہ ہر شخص ہر لمحے یہی سوال کرتا ہے کہ تم نے یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا؟ مجھ سے بھی اس طرح کے بیسویوں سوالات کیے جاتے تھے جن میں تذلیل کی حد تک منافرت کا عنصر پایا جاتا تھا۔
میں نے ٹھان لیا تھا کہ میں ایک عورت نہیں ہوں، انسان ہوں۔ انسان کو اس بات کا فرق نہیں پڑتا کہ اس کے بارے میں کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ میرے نزدیک میرے فرائض زیادہ اہم تھے، اس لیے میں نے ہمیشہ اپنے فرائض کی انجام دہی تک اپنی سوچ کو محدود رکھا۔
کسی کی جرات نہیں تھی کہ کوئی میری طرف میلی ہاتھ سے دیکھ سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے کسی نے ہراساں نہیں کیا، پیچھا نہیں کیا، تنگ نہیں کیا اور گھر میں قید رہنے پر مجبور نہیں کیا۔ میرے ساتھ بھی وہ سب کچھ ہوا جو پاکستانی معاشرے میں نوجوان لڑکیوں کو فیس کرنا پڑتا ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے پڑھنا ہے اور آگے بڑھنا ہے اور اپنے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اس لیے میں نے دن رات کا فرق کیے بغیر اپنی منزل کے حصول پر توجہ دی۔
ایم اے اُردو کے ساتھ ایم فل اُردو کیا۔ ایک ایک کرکے بہنوں کو اپنے گھر کا کیا، بھائی کو باہر ملازمت کے لیے بھجوایا۔ قرض پر قرض اُٹھایا لیکن خود کو کسی کے آگے کمزور و بے بس ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ پاکستانی معاشرے میں عورت خواہ خود کو کاٹ کر اپنے خاندان کے آگے رکھ دے، اپنی عزت و خودداری کی پروا کیے بغیر خونی رشتوں کی پرورش میں اپنا تن من دھن لٹا دے، خونی رشتے تو دور، اسے انسانی سطح پر پذیرائی نہیں ملتی۔ اس کی قربانیوں اور نیک کاموں کی تحسین کا کبھی موقع ہی نہیں آتا۔ ہم عورتیں دن رات پدر سماج معاشرے کے لیے کٹتی مرتی اور روتی پٹتی، بکتی ہیں لیکن ہماری کسی کو پروا ہی نہیں۔
پدر سماج نظام میں انسانی سطح پر انسانوں سے محبت کرنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کا تصور بھی ناپید ہے۔ مجھ ایسی ہزاروں لڑکیاں پاکستان میں اپنی جوانی اپنا حُسن اپنا وقت اور اپنا پیسہ خونی رشتوں کی پرورش اور پرداخت پر بے دریغ خرچ کر ڈالتی ہیں اور جواب میں تحسین کا ایک جملہ بھی سُننے کو نہیں ملتا۔
میری یونیورسٹی میں ملازمت سے جہاں میرے اپنوں کو مجھ سے خوش ہونا چاہیے وہی میرے لیے عذاب بن گئے۔ عورت کی ترقی، خوشحالی اور کامیابی سے یہ پدر سری معاشرہ اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ ہم کیا جیب میں بم لے کر چلتی ہیں، ہمارے پاس کون سی پستول اور کلانشکوف ہے کہ راہ چلتے راہ گیروں کو مار ڈالیں گی۔ عورتوں کے پاس اپنی عزت کو بچانے کی حتیٰ الاامکان کوشش کے جواب تھپڑ اور گالی کےسِوا کچھ نہیں ہوتا۔
راہ چلتی لڑکی کو اُٹھا کر اسے عصمت دری کرنا کون سا مشکل کام ہے لیکن راہ چلتی عورت کو محفوظ نگاہ سے دیکھ کر اچھا تاثر پیش کرنا اس معاشرے میں ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت ایک خاص عمر تک شادی نہیں کرتی تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، اس کا جنسی تعلق ظاہر کیا جاتا ہے، اس کی کردار کُشی کی جاتی ہے، اسے ہراساں کیا جاتا ہے، اس پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ عورت کے وجود کو کمزور اور پُرکشش پیدا کیا گیا ہے۔ عورت کے وجود کو کمزور اور پُرکشش بنانے والے نے اس کی حفاظت اور نگہبان بھی تو مقرر کیے ہیں۔ مزے کی بات ہے، پدر سری سماج میں میری بہن میری بہن اور تمہاری بہن میرے لیے فاحشہ، طوائف، رنڈی، جسم فروش۔
پاکستانی معاشرے میں یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ میری بہن کو کوئی بُری آنکھ سے دیکھے گا تو میں اس کی آنکھیں نکال لوں گا اور میں کسی کی بہن کو دیکھوں گا تو بہ حیثیت مرد یہ میرا بنیادی حق ہے اور میں اس حق کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتاہوں۔ میری جوانی اور عمر کا دو تہائی حصہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کرفنا ہوگیا۔ عمر کے اس حصے میں شادی کرنا اور نہ کرنا ایک سا ہے۔ شادی کی خواہش ایک خاص عمر تک ہوتی ہے، جب یہ عمر گزر جائے تو پھر کسی مرد کی زندگی میں داخل ہو کر اسے مایوس کرنے سے بہتر ہے کہ اس حرکت سے اجتناب کیا جائے۔
پدر سری سماج میں عورت کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی ضد کیوں ہے؟ اگر کوئی عورت شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس کی اپنی مرضی ہے، اسلام جب اسے اجازت دیتا ہے تو معاشرے کو اس اجازت پر عمل پیرا ہونے میں موت کیوں پڑتی ہے؟ مردوں کو ہر جگہ منہ مارتا دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم یہ غلط کر رہے ہو جبکہ عورت کو گھر سے نکلتا دیکھ کر کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں کہ یہ اکیلی اس وقت گھر سے کہاں، کیوں اور کس لیے جارہی ہے؟ مجھ سے کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ مجھ پر گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے جبکہ میں خود ایک مرد ذمہ داری تھی جس نے مجھے جنم دیا تھا؟ بڑی بہن اپنے بہن بھائیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دے اور بدلے میں اسے لعنت پھٹکار کے سِوا کچھ نہ ملے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، ہر چیز میں بدلاؤ آچکا ہے لیکن عورت کے تصور کو لے آج بھی یہ معاشرہ جہالت کے دور میں سانس لے رہا ہے۔ کیا عورت کو تنہا رہنے اور آزاد پھرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنے کی ضد کیوں دہرائی جاتی ہے؟ عورت کو پانچ لوگوں کے پہرے میں بازاروں میں کیوں لایا جاتا ہے؟ اس کے چہرے اور ہاتھوں کو کیوں چھپایا جاتا ہے؟ عورت کوئی چور ہے، ڈاکو ہے، لُٹیرا ہے جسے اس قدر قید و بند کی صعوبت سے شعوری طور پر گزارا جاتا ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سارا قصور عورت ہی کا ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ مرد کیا دودھ کا دُھلا ہے کہ اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ سوشل کرائم رپورٹ سے لے کر جنسی ریپ تک ہر جگہ مرد کی مردانگی کے چرچے ہیں۔ کتنے کیس ایسے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی عورت نے مرد کو زبردستی اُٹھا لیا اور اس سے جنسی زیادتی کر ڈالی ہے۔ دُنیا بھر کے کرائم رپورٹ کی تفصیل پڑھ جائیے آپ کو سیکڑوں کیا دسیوں ایسے کیس نہیں ملیں گے جس میں عورت نےمرد سے جنسی زیادتی کی ہو۔
عورتیں بھی سیکس کو انجوائے کرتی ہیں، ان کی یہ بنیادی ضرورت ہے اور مردوں سے زیادہ ہے لیکن عورتیں مردوں کی طرح سیکس کو سر پر ہر وقت اُٹھائے نہیں رکھتیں۔ خدا کے لیے اپنی سوچ اور تصور کو درست کیجیے۔
عورت کو ہر دور اور ہر سماج میں کموڈٹی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کوئی عورت یہ نہیں چاہتی کہ اُسے نیم برہنہ کرکے نئی گاڑیوں کے ساتھ کھڑا کیا جائے۔ عورت کو کمرشل اشتہارات میں دکھانے والے آپ مرد حضرات ہیں۔ کیا عورتیں گاڑیاں بناتی ہیں، کیا عورتیں رئیل اسٹیٹ کا فراڈ دھندہ کرتی ہیں، کیا عورتیں ہاوسنگ اسکیم میں کالا پیسہ سفید کرتی ہیں۔ عورت کو ہر جگہ منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا پدر سماج سوچ کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کیا مرد خوبصورت نہیں ہوتا، نئی گاڑی کے ساتھ قبول صورت مرد بھی تو کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سماج میں ہر جگہ صنفی امتیاز کو قائم کررکھنا مرد کی نیچ اور گندی سوچ کا مظہر ہے۔
کسی سیاست دان، وڈیرے، جاگیر دار اور صاحبِ اقتدار کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ صنفی امتیاز کے اس فرق کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ سارا غصہ عورتوں پر نکالا جاتا ہے۔ ہنڈیا میں نمک کم پڑجائے تو طلاق دے دی جاتی ہے، بچہ زور سے چلانے لگے تو طلاق دے دی جاتی ہے، ساس کے گھٹنے میں درد اُٹھنے لگے تو طلاق دے دی جاتی ہے، واش روم میں پانی کھڑا رہ جائے تو طلاق دے دی جاتی ہے۔ عورتوں سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو آپ مرد حضرات مرد ہی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ اب تو پوری دُنیا میں سیم جینڈر سے شادی کے قوانین پاس ہو چکے ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، ویسے بھی آپ نے بھیڑ، بکری، کُتی تک نہیں چھوڑی تو اس میں کیا مضائقہ ہے کہ مدرسوں سے لے یونی ورسٹیوں تک گے سیکس کا گند آپ ہی نہیں ڈالا ہوا ہے۔
بات یہ ہے کہ مرد نے ہمیشہ عورت کو نیچا دکھایا ہے اور یہ اس کی سِرشت میں شامل ہے کہ اس نے جس وجود سے جنم لیا ہے اسے تار تار کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ رب تعالیٰ کے بنائے ہوئے انسانی نظامِ حیات میں کوئی نقص نہیں ہے، خامی، کمی اور اُلجھاؤ کہیں ہے تو مرد کے ذہن و قلب اور نیت میں ہے۔
مختصر یہ کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کو کمرشل کموڈٹی کے طور پر دیکھنا اور استعمال کرنا ترک کر دیں۔ معاشرے میں موجود صنفی امتیاز کے ناسور کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔ عورتیں بُری ہوسکتی ہیں اور بُری ہوتی بھی ہیں، عورتیں ظالم ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے ہر چیز کا الزام اور قصور عورت کے سر منڈھنے کی کوشش کی جائے۔ ہمیں برابری نہیں چاہیے ہمیں صرف انسانی سطح پر رہتے ہوئے بہ حیثیت انسان وہ عزت چاہیے جو مہذب اقوام کے معاشروں میں عورتوں کو دی جاتی ہے۔