Pakistan Ki Mojooda Surat e Haal
پاکستان کی موجودہ صورتحال
پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر کچھ عرصہ سے خاموشی اختیار کر لی تھی کہ پاکستان کا بُرا چاہنے اور اس کو تباہ ہوتا دیکھنے والے اذہان کی رائے تبدیل ہو جائے گی تاہم یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میں بسنے والے ذی شعور افراد اگر خاموش ہو جائیں گے اور اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کروائیں گے تو بکواس کرنے والوں اور جھوٹی ترقی و خوشحالی کا دعوٰی کرنے والوں کے منہ ہمیشہ کُھلے رہیں گے اور وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ملک کو چند دنوں میں دُنیا کا سپر پاور بنانے کے خواب دکھاتے رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کو اس کے اپنے باسیوں کی ذہنی نحوست کی نظر لگ گئی ہے۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کا کم و بیش پچاسی فیصد طبقہ ایسا ہے جو کسی نہ کسی ذریعے سے دن رات دو، دو ہاتھوں سے وطنِ عزیز کو لوٹ رہا ہے اور اپنی نسلوں کی زندگی کا سامان کر رہا ہے۔
انھیں صرف اِس بات کی فکر ہے کہ کسی طرح ہمارے بچوں اور پوتوں نواسوں کے لیے اتنا اثاثہ جمع ہو جائے جو اِن کے لیے کافی ہو تبھی چین سے بیٹھیں۔ لوٹ مار کے اس پچاسی فیصد طبقے میں سب سے پہلے نگہبانی پر مامور گروہ ہے، اس کے بعد عدلیہ اور مقننہ کا سرغنہ ٹولہ ہے، اس کے بعد سیاست دانوں کی منڈلی ہے، اس کے بعد بیوروکریسی ہے، اس کے بعد کاروباری افراد ہیں، اس کے بعد زمیندار اور نسلی رئیس زادے ہیں، اس کے بعد مذہبی طبقہ ہے، اس کے بعد چور، ڈاکو، لٹیرے ہیں، اس کے بعد ایلیٹ کلاس اور اپر مڈل کلاس ہے، اس کے بعد کسی کے لیے مزید لوٹنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔
بقیہ پندرہ فیصد افراد کون سے ہیں جو اس ملک کو کوشش کے باوجود لوٹنے سے قاصر ہیں، وہ بھیک مانگنے والے، معمولی تنخواہ لینے والے، مزدوری کرنے والے، دیہات میں رہنے والے اور دو، وقت کی روٹی کو ترسنے والے افراد ہیں۔ یہ پندرہ فیصد افراد ہمیشہ حقوق کی آواز بلند کرتا ہے جنھیں ظالم سماج کا طاقتور نظام چیوٹنی کی طرح مسل دیتا ہے، قصہ ختم اور پیسہ ہضم والی بات یہاں آکر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ ملک کے وسائل کو بے رحمی سے لوٹنے والے ان مخصوص اداروں کے چُنیدہ افراد سے پوچھا جائے کہ آپ ایک طرف خاموشی سے ملک کو دو، دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف ملک کی تباہی اور بربادی کا واویلا بھی کرتے ہیں، اس سوال کا جواب دینے کی بجائے یہ مخصوص طبقہ آپ کی گردن مارنے کی کوشش کرے گا اور کمال ہوشیاری اور چالاکی سے آپ کا پتا، یوں کاٹ ڈالے گا کہ کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔
چھبیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں کیا ہر شخص دن رات اس ملک کو لوٹنے کے درپئے ہے، یہ سوال جتنا تلخ ہے، اِتنا ہی مبنی بر حقیقت بھی ہے۔ جواب ہاں میں ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اس ملک کے باسی دن رات اسے اپنی حیثیت کے مطابق لوٹنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ بھیا! بات یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان اپنی شہ خرچیاں کم کرنے کو تیار نہیں ہے، مقامی اور بین الااقوامی بینکوں سے ناقابلِ برداشت شرح سود پر پیسہ لیتی ہے جسے عیاشی پسند اشغال میں اُڑاتی ہے اور ملک کو گرداب میں پھنسائے جاتی ہے۔
گذشتہ تیس برس سے اس ملک کے صاحبِ اقتدار یہی کچھ کر رہے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جاتا ہے جسے مزید اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن کو مضبوط کرنے سے متعلقہ پالیسوں اور منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جہاں زمین خریدنی ہوتی ہے وہاں سے حکومتی خرچ پر سڑک نکال دی جاتی ہے، جہاں انوسٹ کرنا ہوتا ہے وہاں کے تمام ذرائع آمدن کو خرید لیا جاتا ہے، فصل کی بوائی کے وقت کھاد سپرے مہنگی کرکے بیچی جاتی ہے، جیسے ہی فصل مارکیٹ میں آتی ہے، دام گِرا کر سارا مال قانونی طریقے سے خرید کر گمنام گوداموں میں ذخیرہ کر لیاجاتا ہے اور وقت آنے پر بھاری منافع وصول کرکے نکال دیا جاتا ہے۔
اس ملک کی قسمت خراب نہیں ہے، اس ملک کے لوگوں کی ایمانی اور قلبی نیت خراب ہے۔ اس ملک کی پچاسی فیصد آبادی ملک کو اسی طرح دیوالیہ حالت میں دیکھنا چاہتی ہے اور پوری کوشش کرتی ہے کہ ملک اسی دلدل اور انارکی کی کیفیت میں اُلجھارہے۔ فرض کیجیے، ملک میں قانون کی بالادستی ہو جاتی ہے، جمہوریت کا بول بال ہو جاتا ہے، ادارے اپنی حد میں رہنا سیکھ لیں اور ممکنہ حد تک مہنگائی کم ہوکر عام آدمی کی زندگی کا نظام چل پڑے، اس بدلاؤ کے بعد کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ مذکور پچاسی فیصد طبقہ مر جائے گا، ان کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے، ان کا ذریعہ آمدن بند ہو جائے گا، ان کا لائف اسٹائل بگڑ جائے گا، ان کی اُولادیں باغی ہو جائیں گی، یہ ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے، نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ غربت و افلاس کے ڈر سے خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کے گریبان کو پھاڑ ڈالیں گے، حواس باختہ ہو کر ہر طرف آگ لگا دیں گے، دیکھتے ہی دیکھتے ملک پھر اُسی انارکی اور تنزل کی حالت میں پہنچ جائے گا جہاں سے ترقی، خوشحالی، امن، سلامتی اور بقائے باہمی کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
یوں سمجھ لیجیے کہ دُنیا میں پاکستان سمیت چند ریاستیں ایسی بنائی گئی ہیں جنھیں ہمیشہ تنزل، بدامنی، جہالت، نسلی تعصب، مہنگائی، بے روزگاری، قتل و غارت، لوٹ مار اور نفسانفسی کے عالم میں رکھ کر مجموعی آبادی کا ایک مخصوص طبقہ ریاست کے مجموعی وسائل کو لوٹ کر عیاش پرستانہ زندگی گزارتا ہے۔ طرزِ حکومت کا یہ سلسلہ ہزاروں برس پرانا ہے، فرعون و نمرود ایسے مطلق العنان بادشاہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا، ایک موسیٰؑ بے چارہ کیا کر سکتا تھا کہ رب تعالیٰ کی مدد سے اُس نے آلِ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانا چاہی تو عین نجات کے لمحے بنی اسرائیل نے رعونت سے انکار کر دیا اور جواب میں موسیٰؑ سے فرمایا تھا: موسیٰ! تم اور تمہارا رب فرعون سے لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔
یوں سمجھ لیجیے یہ ملک کے باسیوں کی ذہنی کیفیت آلِ بنی اسرائیل ایسی ہے جس پر فرعون نامی طاقتور گروہ کا قبضہ ہے جس سے نجات کے لیے موسیٰؑ در موسیٰؑ آتے رہے لیکن اس قوم نے فرعون کے ظلم سے نجات کے لیے خود کو کبھی تیار نہیں کیا بلکہ فرعون کے ظلم کو اپنے لیے مسیحائی تصور کیا ہے، یہ قوم فرعون کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی بجائے خود کو آلِ فرعون کی غلامی میں زندگی بسر کرنے کی خواہاں دکھائی دیتی ہے۔ جس قوم میں ظالم حکمران سے ہمدردی اور آزادی کے علمبردار مسیحا سے نفرت کا چلن ہو، وہاں ترقی، خوشحالی، آزادی، جمہوری اقدار کا فروغ اور امن و امان کی صورتحال کیسے پنپ سکتی ہے۔
یہ ملک جب سے قائم ہوا ہے تب سے اس کے جسم پر فرعونی و نمرودی جونکوں کا قبضہ ہے جن کے پیٹ کمزور بدن کا سارا خون چوس کر بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ تاریخ کے اسباق سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ ہجوم نما قوم ظالم آقاؤں کے خلاف کبھی مزاحمت نہ کریں گی، ظالم سماج میں ظالم حکمرانوں کی ہمیشہ ریل پیل رہے گی اور یہ ملک مزید برس ہا برس ظلم و جبر کی دلدل میں دھنسا رہے گا۔ نشہ کرنے والا نشے کی عادت کو چھوڑنے سے قاصر ہوتا ہے، جسے لوٹ مار اور استحصال کا نشہ چڑھ گیا وہ مر کر بھی نہیں اُترے گا۔