Pakistan Ke Muasir Adbi Rujhanat
پاکستان کے معاصر ادبی رجحانات
پاکستان بھر سے اُردو زبان و ادب سے متصل ادیب، شعرا اور ناقدین و محققین ایک چھت تلے جمع تھے۔ اُردو زبان کے ادبی مباحثے، سیمینار اور کانفرنسز کا سلسلہ تو گذشتہ ایک دہائی سے جاری و ساری ہے۔ البتہ پاکستان کی علاقائی زبانوں پنجابی، سرائیکی، بلوچی، پشتو، بلتی، ہندکو وغیرہ کے لیے بڑے پیمانے پر سیمینارز منعقد کروانے کی روایت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔
اُردو زبان کو یہ وقار حاصل رہاہے کہ اس میں لکھنے والا، دُنیا بھر میں کسی نہ کسی حوالے سے پڑھا جاتا اور حوالہ بنتا ہے۔ علاقائی زبانوں کا کیا کیا حال سُنایا جائے کہ انھیں اپنے مضافاتی علاقہ کے علاوہ کہیں اور پڑھا، سنا اور بحث کا موضوع بنتے نہیں دیکھا جا سکا۔ اقبال صاحب سے میری ادبی دوستی ہے۔ اگرچہ بینک میں ملازمت کرتے ہیں لیکن اُردو ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ ان کی اس طنز آمیز گفتگو سے میں کیا نتیجہ اخذ کرتا۔ خاموش رہنے میں عافیت محسوس کی حالانکہ ڈاکٹر منور مجھے ٹہوکا دے کر کچھ کہنے پر برابر اُکساتے رہے۔
پاکستان میں اُردو کی صورتِ حال کسی حد تک صحت مند اور حوصلہ بخش ہے۔ اُردو زبان کے لیے اشرافیہ کے دل میں اب نرمی پیدا ہو چکی ہے۔ یہ حلقہ اُردو زبان میں اظہارِ خیال کو اب معیوب نہیں سمجھ رہا۔ اُردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ سے وابستہ سرکاری اداروں میں مختلف موضوعات پر سیمینارز، کانفرنسز اور ادبی مباحثوں کا سلسلہ ایک خوش کُن امر ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ امسال اس سلسلے میں قدرے تیزی دیکھنے کو ملی۔
انجمن ترقی اُردو، پاکستان، کراچی، مجلس ترقی ادب، لاہور، اکادمی ادبیات لاہور، ادارہ فروغِ اردو، اسلام آباد، الحمرا، لاہور وغیرہ نے وقفے وقفے سےسال بھر مختلف تنقیدی و تحقیقی اور تہذیبی و ثقافتی موضوعات پر سیمینار کروائے اور کانفرسز منعقد کی ہیں۔ اُردو زبان کو قومی زبان کا درجہ لیے تو برسوں گزر چکے ہیں تاہم اسے عملی طور پر عدالتوں، دفتروں اور ملازمت کے سلیبس میں شامل کرنے کا حوصلہ سیاست دانوں اور بندوق والوں کو نہیں ہوا۔
اُمید کی جاسکتی ہے کہ لسانی سیاست سے گُریز کرتے ہوئے جہاں اُردو زبان کو یہ موقع فراہم کیا جارہا ہے کہ اِس میں بات کی جا سکتی ہے اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے، وہیں پاکستان کی علاقائی زبانوں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندکو وغیرہ کو بھی یہ عزت دی جانی چاہیے کہ انھیں بطور زبان قبول کرتے ہوئے اس میں لکھے جانے والے ادب کو اُردو کے معیار پرگردانا جائے اور اس کی تحسین اور فروغ کے لیے اُردو زبان کی طرح سیمینار اور کانفرنسز منعقد کی جائیں۔ اس نیک کام کے لیے حکومتی سطح پر فنڈ بھی مختص کیا جائے۔
اُردو زبان کے فروغ کے سلسلے میں سرکاری اداروں کی ہمیشہ چپلقش رہی ہے۔ حکومتی فنڈ کو زیادہ تر سطحی قسم کی مدلل مداحی آمیز کُتب کی اشاعت اور کھابوں پر صرف کیا جاتا ہے اور ادبی خدمت کے عوض انعامات کی غرض سے فنڈ کی انجمنِ ستائشِ باہمی میں بندر بانٹ کی جاتی ہے۔ حکومتِ پاکستان ادبی ایوارڈ (تمغہ حسنِ کارکردگی وغیرہ) دینے کے معاملے میں بھی گروپ بندی کے تعصب کا شکار ہو جاتی ہے۔ مستحق شعرا اور ادبا محروم رہتے ہیں جبکہ چاپلوسی کرنے والے بار، بار مستحق قرار دئیے جاتے ہیں اور نوازے جاتے ہیں۔
شعرا اور ادبا میں بھی گروپ بندیاں قیامِ پاکستان سے جاری ہیں۔ ان کے باہمی اختلافات اپنی جگہ کسی حد تک درست ہو سکتے ہیں لیکن زبان و ادب کے فروغ اور اس کی ترویج کے حوالے سے تعصب رکھنا، نیچا دکھانا، تحسین نہ کرنا، سامنے نہ آنے دینا اور نظر انداز کرنا کسی صورت ادبا اور شعرا کو زیب نہیں دیتا۔ یہ کم ظرفی اور گھٹیا پن زبان میں لطیف و منزہ جذبات کے اظہار کے حامل فنکار کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بدقسمتی سے یہ عنصر ہرجگہ برابر دیکھا جاسکتا ہے اور کوئی اس نزاعی صورتحال کے تدارک کے لیے سامنے نہیں آتا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ لمز یونی ورسٹی کے گرمانی سنٹر آف لینگویج اینڈ لٹریچر نے 17 نومبر کو دو روزہ عالمی کانفرس: پاکستان کے معاصر ادبی رجحانات کے حوالے سے منعقد کروائی جس میں شمولیت کا موقع ملا۔ پاکستان بھر کے نمائندہ ادیب، شعرا، نقاد، محقق اور ماہرین السنہ کو ایک جگہ جمع کیا گیا تھا۔ اس عالمی کانفرس میں بھارت سے پروفیسر شائع قدوائی کو آنلائن مدعو کیا گیا تھا۔ سید بابر علی نے صدارت کی اور جان چانڈیو نے کلیدی خطبہ دیا۔ اختتامی کلمات میں میزبان ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اُردو زبان کے ساتھ سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، ہندکو اور دیگر علاقائی زبانوں کے نمائندگان کو اظہارِ خیال کو موقع فراہم کرنا لمز ایسے ادارہ کے حصے میں آیا۔
یہ خشتِ اول ہے جو سید بابر علی کی سربراہی میں ڈاکٹر نضرہ خاں نے رکھی ہے۔ دو دن صبح نو، سے شام چھے بجے تک تین، تین سیشنز میں اس کانفرس کے سپیکرز کو سُنا اور ان کے پُر مغز مقالات کی تحقیدی ریاضت سے متاثر بھی ہوا۔ ایک چھت تلے پاکستان کی نمائندہ علاقائی زبانوں کے بارے میں وہ کچھ سُنا، جانا اور علم میں آیا جس کے بارے میں محض سرسری شُنید ہی تھی۔
میں اُردو زبان کا طالب علم ہوں۔ مجھے پنجابی ہونے کی وجہ سے پنجابی زبان کے ادب کا تھوڑا بہت علم ہے۔ پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی، ہندکو اور بلتی وغیرہ کے بارے میں فقط اِتنا جانتا ہوں کہ یہ پاکستان کے صوبہ جات کے مضافات میں بولی جانے والی زبانیں ہیں جو اپنے اپنے علاقے تک محدود ہیں۔ میں ان زبانوں کے ادب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اپنے تئیں یہ سمجھتا تھا کہ اُردو میں لکھنے والا ہی بڑا شاعر اوربڑا ادیب ہوتا ہے۔ اس دو روزہ کانفرس سے میری یہ رائے تبدیل ہوئی اور شرمساری بھی محسوس ہوئی کہ پاکستانی ہوتے ہوئے میں اپنے علاقے کی زبانوں کے ادب سے واقف نہیں ہوں۔ گویا ایک طرح کا تعصب رکھتا ہوں جو مجھ میں اپنے علاقے کی معاشرت کے چلن کی وجہ سے در آیا ہے۔
لمز یونی ورسٹی نے پاکستانی زبانوں کے فرو غ کے لیے ایک طرح سے اپنے دروازے کھولے ہیں جو نہایت خوش کُن امر ہے۔ پاکستان کی دیگر جامعات کو بھی چاہیے کہ وہ اُردو زبان کے علاوہ ان علاقائی زبانوں کے ادب کے تعارف اور ان کی اہمیت کے بارے میں کانفرنسز اور سیمینار منعقد کروائیں تاکہ اُردو زبان کے طالب علموں، محققین اور ناقدین کو یہ علم ہو سکے کہ لکھنے والا کسی بھی زبان میں بہتر سے بہترین لکھ سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اُردو میں میر تقی میرؔ اور غالبؔ پیدا ہوگا۔
میرے جیسے کندہ ناتراش یہ بھول جاتے ہیں کہ بابا فرید، شاہ حسین، سلطان باہو، بلھے شاہ، خواجہ فرید، رحمان بابا، شاہ عبدالطیف بھٹائی، امیر حمزہ شنواری، شیخ ایاز، سچل سرمت، مست توکلی، تاج محمد تاجل، شیخ نور الدین رِشی، علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی اور سائیں غلام محی الدین قادری وغیرہ انھیں علاقائی زبانوں کے ادب کے ترجمان بنے۔ ان شعرا کی زبان وبیان اور اندازِ نگارش کسی صورت اُردو زبان کے شعرا سے کم نہیں۔ اُردو زبان کی کلاسیکی روایت نے انھیں علاقائی زبانوں کے شعرا و ادبا کے جملہ ادبیات سے استفادہ کیا ہے۔
پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ان زبانوں کے لیے لفظ علاقائی طبیعت پر گِراں گُزر رہا ہے۔ یہ علاقائی زبانیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو وطنِ عزیز پاکستان کی زبانیں ہیں اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان زبانوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ اُردو زبان کی طرح ان علاقائی زبانوں کو بھی اپنی زبانیں سمجھ کر سینے سے لگائیے۔ انگریزی کے خلجان سے نکلیے۔ مغرب پرستی ضرور کیجیے مگر مشرق پرستی پر بھی دھیان دیجیے۔ زبانوں کا ایک دوسرے سے بہنوں ایسا رشتہ ہوتا ہے۔ زبان کسی کی جاگیر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی ایک علاقے یا خطے تک محدود و مقید ہوتی ہے۔ اس کے بولنے والے اس کے ورثہ کے امین ہوتے ہیں۔
پاکستانی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مجھے اُردو کے ساتھ پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندکو، بلتی کی بھی سوجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ تبھی میں ایک سچا، پکا اور اصیل پاکستانی ہوں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مجھے اُردو آتی ہے اور میں پاکستانی ہوں۔ بھیا! آپ کو پاکستان بھر کی زبانوں سے کماحقہ واقفیت ہونی چاہیے اور ان زبانوں میں لکھے جانے والے ادب سے بھی گہری شناسائی ہونی چاہیے۔ یہ شرم کی بات نہیں ہے۔ یہ پاکستانی زبانوں کے بقا کی بات ہے اور پاکستان کے بقا کی بات ہے پیارے!