Meri Suhagraat Kesi Guzri
میری سُہاگ رات کیسی گزری؟
جو آیا، اُس نے یہی پوچھا کہ تیاری کیسی ہے؟ کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتاؤ۔ میں حاضر ہوں۔ دیکھنا! بے عزت نہ کروا دینا۔ میں کہتا: بھائی!سب ٹھیک ہے۔ اللہ خیر کرے گا۔ آپ فکر مند نہ ہوں۔ میں نے بھر پور تیاری کر رکھی ہے۔ اس قسم کی ملاقاتوں میں رات کے بارہ بج گئے۔
آج کی رات اس قدر جلد کیوں گزر رہی ہے۔ آج وقت اتنی تیزی سے کیوں بِیت رہا ہے۔ ایک دوست نے ٹہوکا دیتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا: ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میرے جواب پر سبھی طنزیہ مسکرائے۔ گفتگو کا یہ دور اپنے عروج پر تھا۔ سبھی اپنے شبِ زفاف کے تجربے بیان کر رہے تھے۔ ماحصل اس مدلل گفتگو اور مشورت کا یہ تھا کہ مجھے آج رات کے دنگل کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔
مِٹھو بھائی نے کہا: بیٹا! ہمت نہیں ہارنے کا۔ پھٹّے چک دینے ہیں۔ پتہ چل جانا چاہیے کہ کوئی مَرد میدان میں اُترا ہے۔ میں سب کے منہ دیکھ دیکھ حیران یہ سوچتا۔ کیسی کیسی بکواسیات کر رہے ہیں۔ اپنے تئیں مجھے ناسمجھ، معصوم اور ناتجربہ کار تصور کرتے ہوئے کیسے کیسے تباہ کُن مشورے دے رہے ہیں جیسے میں کوئی پانی پت کی لڑائی میں اُترنے والا آخری سورما ہوں جس کی گھن گرج سے دُشمن کے چکے چھوٹ جائیں گے اور میری بہادری کے قصے طلسم ہوش ربا میں لکھے جائیں گے۔
پند و نصائح کا یہ باب مزید کئی پوشیدہ اسَرار وموز کو طشت از بام کرنے کا سامان کیے تھا کہ برآمدے سے بڑی بی کی آواز آئی۔ لڑکو! اِس کو اندر بھیج دو اور تم سب اپنے اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ رات بھیگ چکی۔ دوستوں نے کہا کہ لے بھائی! تیرے امتحان کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ سب نے فرداً فرداً گلے لگایا اور تھپکی دے کر ہمت بندھاتے ہوئے ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔
مُنے بھائی نے کہا: یار! بات سُن۔ موبائل آن رکھا۔ میں کال کروں گا۔ میں نے کہا۔ دفعہ ہو جا۔ آزمودہ مشورت کا ایک گنج ہائے گراں مایہ لیے میں شان سے اُٹھا اور بڑی بی کے پاس جا بیٹھا۔ انھوں نے کہا کہ مہمان لگ بھگ سو چکے ہیں۔ میں بھی نیند سے شرابور ہوں۔ تیری بیگم کمرے میں اکیلی تیرا انتظار کر رہی ہے۔ اب تم اپنی بیگم کے پاس جاؤ۔ صبح ملیں گے۔ یہ کہتے ہوئے وہ شرما رہی تھی اور کن انکھیوں سے میرے چہرے کے متغیر آثار کو دیکھ بھی رہی تھی۔ جی، جی کہتے ہوئے میں ناک کی سیدھ بیگم کی چوکھٹ پر آن پہنچا۔
اِکا دُکا شرارتی کزن نے بازو کھینچنے کی کوشش کی تاہم میدان بالکل صاف تھا۔ گویا میرا ہی انتظار تھا۔ کمرے میں داخل ہوا۔ جھٹ سے دروازے پر اسیرِ قُفل کیا۔ بیگم کو سرنگوں بیٹھے دیکھا۔ ہلکی سی جھرجھری محسوس کی۔ ہمت کرکے سلام کیا۔ جواب اتنا شرمیلا تھا کہ بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ روایتی انداز میں حال احوال دریافت کیا۔ محض پُر تکلف ہونے کی غرض سے لایعنی گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد سب باتیں ہو چکیں۔ اب کیا کِیا جائے؟ لائٹ آف کرنے کا مرحلہ اتنا دُشوار گزار معلوم ہوا جیسے سومنات کامندر فتح کرنا ہو۔ خیر، یہ بھی ہوگیا۔
دوستوں کے مشورے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے، کہاں سے، کس ترتیب سے اس دنگل میں قدم رکھ جائے۔ متذبب و منتشر پراگندگی سے لبریز مشوروں کے سر کاٹ کر ایک طرف پھینک دئیے اور جو سمجھ میں آیا وہ کر گزرے۔ نہ مجھے پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے اور نہ بیگم کو سمجھ آئی۔ شرما شرمی میں رات بیت گئی۔ پوہ پھٹی اور غسل کرکے لیٹ رہے۔ دن چڑھے تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلا۔
سیکڑوں نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں۔ سعیِ بیسار سے مقید کیے ہوئے پرند کی طرح اب میں ان کے درمیان سہما کھڑا تھا۔ پہلے گھورتے تھے پھر مسکراتے تھے۔ اپنے تئیں کچھ اچھا سمجھ کر تھپکی دے کر گزر جاتے۔ بیگم کے ساتھ کیا معاملہ رہا۔ یہ انھوں نے مجھ سے اُس وقت ڈسکس نہیں کیا۔ پہلی رات کا یہ مرحلہ خوبصورتی سے طے ہوا۔ چار ماہ بعد بیگم نے حمل ٹھہر جانے کی خوشخبری سُنا کر خوشی سے نہال کر دیا۔ اللہ نے بیٹی عطا کی۔ زندگی خوبصورت ہوگئی۔ بیٹی آنے سے ہم دونوں کو جیسے کامیاب میاں بیوی ہونے کا سرٹی فی کیٹ میل گیا۔ یہ ازواجی زندگی کے آغاز کا خوبصورت پہلو ہے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ایک صد میں نوے فیصد جوڑے اسی طرح ازواجی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ دس فیصدی ایسے جوڑے ہیں جنھوں نے شادی کو جنسی تلذذ سے متصل کرکے اپنا بیڑا غرق کرنا ہوتا ہے۔ یہ دس فیصدی وہ بونے ہیں جنھوں نے ہزار ہا خوبصورت گھروں کو اپنے بے تُکے، اوٹ پٹانگ اور تباہ کُن مشوروں سے اُجاڑا ہے۔ میں خوش قسمت اس لیے رہا کہ میں نے اِن دس فیصدی بونوں کو سُنا ضرور لیکن ان کی پند و نصائح پر باوجود خواہش کےعمل نہیں کیا۔ اگر میں ان کے مشوروں پر بعینہ عمل کرتا اور پہلی رات مرد ثابت کرنے کی جستجو میں حد سے متجاوز کر جاتا تو ہمیشہ کے لیے اس مقدس رشتے کے روحانی لطائف سے خود کو محروم کر لیتا۔
شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد سب سے پہلا پڑاؤ اگرچہ جنسی ملاقات کا ہے تاہم اس میں سمجھ داری، ہوشیاری اور ہوش بازی سے کام لیتے ہوئے اس حسّاس اور نازک ترین مرحلے سے آسانی سے گزرا جا سکتا ہے۔ مرد، عورت کے درمیان جنسی تسکین و تلذذ کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے روٹی، پانی، ہوا، اور سانس کی طرح دیگر بنیادی ضرورتوں کی ہے۔ جنس کا عمل شادی کے معاملات میں دس فیصد بھی نہیں ہوتا۔ شادی کا معاملہ ہمارے معاشرے کے رائج تصورات سے بالکل متضاد سَمت پر ایستادہ ہے۔
ضرورت اِس مر کی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو شادی کے معاملات و مسائل کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ شرم، جھجھک، لحاظ، مرورت، ادب اور ہچکچاہٹ کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے سہاگ رات اور مابعد کی ذمہ داریوں کو اپنا مذہبی و سماجی فریضہ سمجھ کر لڑکی اور لڑکے کے والدین، بہن بھائی، ورثا (سمجھ دار اور میچور دوست کے ذریعے یا کاونسلنگ ٹرینر کے ذریعے یا خود ہمت کرکے) راہنمائی کریں تاکہ سہاگ رات سے شروع ہونے والے خوبصورت رشتے کو دس فیصدی بونوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جا سکے۔ انھیں یہ بتایا جائے کہ جو کچھ تم پورن سائٹس پر دیکھتے ہو۔ وہ حقیقت نہیں ہے بلکہ کاروبار ہے۔ جو عورت تمہیں وہاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ والی نہیں ہے۔ جو مرد تمہیں وہاں نظر آتا ہے۔ یہ والا ویسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
سائز، قد، جسامت، ٹائمنگ اور تلذذ سے متصل یہ سارا منظر نامہ دراصل کاروبار سے منسلک ہے جس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور اس سے دُگنا کمائے جاتے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کا کاروبار ہے۔ جبکہ یہ آپ کی ذاتی زندگی ہے۔ جس عورت نے اور جس مرد نے آپ کی زندگی میں آنا ہے۔ اِس کے ساتھ آپ کا عمر بھر کا رشتہ ہے۔ یہ سوچ لو کہ یہ عمر بھر کا تعلق ہے اور وہ دس سے پندرہ منٹ کا کھیل۔ یہاں تم ہر چیز کے ذِمہ دارہو اور وہاں کوئی کسی بات کا جوب دہ نہیں۔ یہاں تم جو کرو گے، اُس کا جواب دو گے۔ وہاں وہ جو کچھ کرتے ہیں۔ اُنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ ایک خواب آمیز سراب ہے جبکہ یہ ایک اٹل اور ناقابلِ تغیر حقیقت ہےجو سماجی سچائی کے ساتھ مذہب کے عین مطابق جائز اور حلال۔
یہ ایک ذمہ داری ہے جو مذہبی، سماجی، ثقافتی اور خانگی تقاضوں پر عمل داری کا وفاداری اور پُر خلوص دیانت داری سے انجام دہی کا تقاضا کرتی ہے۔ یقین کیجیے۔ آپ کے دوستوں میں آپ کے دُشمن چُھپے ہیں جو نہیں چاہتے کہ آپ ایک کامیاب اور خوبصورت مثالی زندگی گزار یں۔ کنوار ے پن میں آپ نے جو کچھ کیا ہے وہ سب پیچھے رہ گیا، اُسے بھلا دیجیے اور کسی سے ذکر مت کیجیے۔ ماضی کو حال سے منسوب کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے والے دائمی شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔
انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان بہتر سے بہتر کی تلاش کرتا ہے اور بہترین کے معیار کے حصول میں زندگی کے جملہ معاملات کو بخوبی انجام دیتا ہے۔ بہ حیثیت انسان، آپ جس مذہب، مسلک، نظریے اور بیانیے کے پیرو ہیں۔ آپ پر لازم ہے کہ شادی یعنی میاں بیوی کے مقدس رشتہ کو سنجیدگی، وفا داری اور دیانت داری سے لیں۔ اسلام نے اس رشتے کو لباس قرار دیا ہے۔ لباس میں شگاف ڈالنے سے پیوند لگنے تک کا عمل آپ کی لا غرضی، سُسستی، نالائقی، بے وفائی، بد اعتمادی اور بے یقینی سے مشروط ہے۔
یا درکھئیے! یہ رشتہ جتنا مضبوط دیر پا اور تیقن سے معمورہے۔ اس سے زیادہ کمزور، ناپائیدار اور تنکے کی چوٹ سے کرچیاں ہو کر بکھر جانے والا بھی ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اِس رشتے کی حفاظت خود کرتے ہیں یا کسی اور کو اس کی حفاظت پر بطور نگران مقرر کرکے اسے تباہ کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کو جگ ہنسائی کا مرقع بناتے ہیں اور اپنے مخالفین کو خود پر ہنسنے اور طعن کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔