Main Shadi Nahi Kar Sakti
میں شادی نہیں کر سکتی
2015 کی بات ہے پہلی بار اُسے دیکھا تھا، نشیلے نین، سُتواں ناک، اُبھرے رخسار، کُشادہ پیشانی اور لمبے گھنیرے بال، جے ڈاٹ کا گھیر کھار والا لمبا کرتہ زیبِ تن تھا، ہتھیلیوں پر تازہ مہندی، ناخنوں پر سُرمئی نیل پالش، کانوں میں سونے کے مہین بُندے، ہاتھوں میں جھالر دار چوڑیاں، بغل میں چمڑے کا برانڈڈ بیگ دابے ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں کتابیں تھامے وہ میرے سامنے سے گزر کر یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں چلی گئی، دل پھینک عاشق مزاج شاعر والی حالت تھی۔
یونیورسٹی میں پہلا تھا، مجھے اپنے شعبہ کے دفتر اور کلاس فیلوز کا بالکل عِلم نہیں تھا۔ یوں ہی سلام و خیریت کا تبادلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انجم خان کو فون کیا، انھوں نے کہا کہ میں چائے کے ڈھابے میں بیٹھا ہوں، یہی آجاؤ، جب میں وہاں پہنچا تو اُس محترمہ کو وہاں موجود پا کر جیسے بوکھلا سا گیا، بال سنوارے اور اپنے تئیں نک سک درست کرکے قریب پڑی کُرسی پر جا بیٹھا، ڈاکٹر انجم خان کے ساتھ ڈاکٹر ساجد محمود ڈار بھی تشریف فرما تھے، یہ دونوں صاحب میرے ایم فل کے کلاس فیلوز تھے اور اب پی ایچ ڈی کے لیے ہم چاروں یہاں جمع ہوگئے تھے۔
نزدیک بیٹھی محترمہ سے میری پہلی ملاقات تھی، ہم شاعروں کے بارے میں مشہور ہے کہ دل پھینک اور حُسن پرست واقع ہوئے ہیں، جہاں کہیں ابرِ رحمت کا ٹکڑا دکھائی دیا، اُس کی آغوش میں سایہ عاطفت کی چاہ میں پاؤں پسار دئیے، میں شاعر نہیں ہوں البتہ متشاعر ضرور ہوں، اِس محترمہ سے ڈاکٹر انجم خان نے تعارف کروایا کہ یہ محترمہ ہماری کلاس فیلو ہیں، یہ ہمارے ساتھ پی ایچ ڈی کریں گی، ہم ایک ساتھ کورس ورک مکمل کریں گے۔ محترمہ خوش مزاج اور ہنس مکھ واقع ہوئی تھیں، بات بات کر کبھی فطری اور کبھی مصنوعی ہنسی ان کے رخساروں کی تمازت کو بڑھاوا دیتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے دل بلیوں اُچھل اُچھل کر بے دم ہو ا جاتا ہے۔ ؎
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرز و تھی ملاقات کی
یہ مختصر ملاقات تھی، اس کے بعد ہفتہ بعد ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا جو کورس ورک کی تکمیل تک جاری رہا، وقت اس قدر تیزی سے گزر گیا کہ گزرنے کا احساس تک نہ ہوا، کورس ورک کی تکمیل کے بعد بظاہر ہونے والی آخری ملاقات ایک طویل یادگار تعلق کی رُوداد کا پیشِ خیمہ ثابت ہوئی۔
محترمہ سے رسمی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا، گاہے گاہےایک دوسرے سے تفصیلاً تعارف ہوا، باہم خیرو عافیت کے رسمی جملوں کے بعد ایک دوسرے کے ذہنی مشاغل اور دُنیاوی ذمہ داریوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، گفتگو کے نتیجے میں ہم پر یہ کُھلا کہ یہ محترمہ بھی ہماری طرح حالات کی ماری ہوئی ہیں اور خود کو جیسے تیسے ظالم سماج کے سامنے بے بس ظاہر کرکے ہمدردری حاصل کرنے کی بجائے سینہ ٹھونک کر حالات کا مقابلہ کرنےکی جستجو میں سرگرداں ہے۔
حالات ایک سے ہوں تو دوستی کی گاڑی خوب رواں رہتی ہے، غیر محسوس طریقے سے ہم دونوں ذہنی طور پر ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ کوئی بُعد حائل نہ رہا، ایک برس بیت گیا، دو برس بیت گئے حتیٰ کہ آٹھ برس یونہی بیت گئے، تعلق کی اُستواری اِیفاداری کا تقاضا کرتی ہے، اِیفا داری کے تقاضے نبھاہنا مشکل ہیں تاہم بطریق احسن ہم نبھاہتے رہے، رنج و مِحن کی برکھا برسنے کے باوجود شکوہ و شکایت کی تپش سے پوتر رشتے کے ننھے نخل کو بچائے رکھا، پی ایچ ڈی کا کورس ورک مکمل ہوگیا، میری پی پی ایس سی کے ذریعے لیکچرار شپ کی ملازمت ہوگئی اور وہ محترمہ اپنے شہر کی سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرر ہوگئی۔
حالات بدل گئے، ذہنی کیفیت بھی تبدیل ہوگئی، کہتے ہیں جب وقت بدل جاتا ہے تو انسان نہ چاہتے ہوئے معیارات اور ترجیحات تبدیل کر لیتا ہے، اس تعلق میں بدلاؤ کا عمل یوں وارد ہوا کہ میرے دل میں محترمہ کے لیے مستقل اقامت کے جذبات نے سر اُٹھایا، ایک مدت کی قلبی ریاضت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے من کی بات اور دل کی خواہش کا اظہار سادہ، عام اور آسان الفاظ میں محترمہ کے روبرو پیش کر دینا چاہیے، ہم نے ایسا ہی کیا، انھوں نےکمال شوق سے سُنا، کھکھلا کر ہنسی اور بات کو مذاق سمجھ کر ہوا میں اُڑا دیا۔ ہمارے دل پر چھریاں وریاں چاقو واقو سب چل گئے۔ ؎
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
ایک مدت اسی بے قراری اور خود ساختہ اذیت میں گزری، اس کےباوجود اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا کہ رات بھر کا جاگا سحر کی پہلی کِرن کا منتظر رہتا ہے۔ گاہے گاہے ہم اپنے دل کی بات محترمہ کے سامنے رکھتے رہے اور وہ کمال ہوشیاری اور سلیقہ شعاری سے ہماری بات کو اپنی خودساختہ ذمہ داریوں کی گٹھڑی کے نیچے دباتی رہیں، محترمہ کی ذمہ داریاں کبھی ختم نہ ہوئی البتہ ہمارے جذبات کی تیز رو گاڑی ہچکولے کھا کھا کر سُست روی کا شکار ضرور ہوگئی، شادی کو لے کر گھر والوں کا اصرار حد درجہ شدت اختیار کر چکا تھا، مڈل کلاس سوسائٹی کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ لڑکا پڑھ لکھ جائے اور سرکاری نوکر ہو جائے تو والدین کو یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں اس کو کوئی آوارہ لڑکی سنہرے بالوں کی لٹ میں لپیٹ کر دریا کے اُس پار نہ لے جائے جہاں ہم رسائی ناممکن ہو اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
شادی، شادی اور شادی، یہ لفظ گویا میرے لیے ناسور بن گیا تھا، محترمہ کے سامنے ایک بار پھر اپنے دل کی بات رکھی اور انھوں نے حسبِ معمول ذمہ داریوں کا بہانہ کیا اور اپنی کسی مصنوعی بیماری کا تذکرہ اس انداز سے روہانسا ہو کر میرے سامنے کیا کہ میں ہمدردی کے سِوا کچھ نہ کرسکا، رشتہ گھر والے دیکھ چکے تھے، میری رضا مندی جانے بغیر آناً فاناً دھوم دھڑکے سے شادی کی تیاری شروع ہوگئی، پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق بہن بھائیوں سمیت دیگر عزیزان بہت شاداں و فرحاں تھے، ہم قرض لے لے کر ان کی خواہشوں اور تقاضوں کو پورا کررہے تھے۔ ذہنی و قلبی طور پر جب انسان کسی پر مر مٹا ہو اور بدن کی حساسیت اُسی کے لیے تڑپتی ہو تو شادی میں کاہے کا مزہ رہ جاتا ہے، انسان جذبات کےآگے بے بس ہوتا ہے، بظاہر خوش اور راضی بر رضا کا پیکر بنا ہوتا ہے لیکن باطن کی کیفیت تو آگ کے دریا میں ڈوب کے فنا ہونے کی صدائیں دیتی ہے۔ ؎
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
شادی کیا چلنی تھی، شادی کیا چلتی، بیگم صاحبہ قانون کی کتابیں پڑھتی اور پینل کوڈ کی پریکٹس گھر میں عدالت لگا کر مجھ پر کرتی، ہم ٹھہرے آوارہ مزاج، دل پھینک بھنورے، جسے اپنی ہوش نہ دُنیاداری کا سلیقہ، مشکل سے دو ماہ کا ساتھ رہا، بیگم چاہتی تھیں کہ ہم دو چار ماہ میں ملک ریاض بن جائیں اور میں چاہتا تھاکہ جون نان روٹی مل رہی ہے اسی پر گزارہ چلتا رہے۔ نصیب کی کھوٹ کو کون اصالت میں بدل سکتا ہے، وہی ہوا، جو لکھاتھا، ہم دونوں کے درمیان دُنیا داری کے تقاضے اور خواہشیں ایسی حائل ہوئیں کہ مستقل علیحدگی کی صورت ہمیں جُدا کرکے خود رُخصت ہوئی۔
علیحدگی کے اس قضیے کے دوران محترمہ نے دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے ہماری ڈھارس بندھائی اور مدد بہم پہنچائی، ان کا یہ رویہ میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا، جب ڈوبنے لگوں تو ہاتھ پکڑ کر بچا لیتی ہے، جب تیرنے لگوں تو ہاتھ چھڑا لیتی ہے، مرنے کی بات کرتا ہوں تو زندگی کا نشاطیہ سبق پڑھاتی ہے، جینے کی دُھن سوار ہو جائے تو موت کے خوف سے ڈراتی ہے، ایک عجیب و غریب شخصیت کی حامل اس لڑکی نے ذہنی وقلبی اورجسمانی و روحی طور پر مجھے اس قدر ادھیڑا اور بھنبھوڑا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ؎
گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
دل بڑا کمینہ ہے، اس کے ہاتھوں لاکھوں خوبصورت جوانِ رعنا برباد ہوئے، جب کسی پر آجاتا ہے تو پھر جو مرضی کر لو، اسے قائل کرنا سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے سے زیادہ مشکل ہے۔ بیگم نے کورٹ کچہری سے مصالحت گاہوں تک ہماری وہ دُرگت بنائی کہ الاامان الحفیظ، قصہ مختصر کہ ہم پوری طرح برباد ہو کر پھر اِسی محترمہ کے در کے سوالی ہو گئے، کیا کریں کہ دل جہاں اٹک جائے وہاں سے خیمہ اکھاڑنا، ناممکن ہو جاتا ہے، انسان بے بس اور مجبور ہوتا ہے۔
محبت کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہوتی، محبت ہوتی ہے اور ہوتی رہتی ہے، یہ ارتقا کا ایک مسلسل عمل ہے جس میں تعطل کا کوئی لمحہ حائل نہیں ہوتا، اس کی شدت اور حِدت میں ایک طرح کی یکسانیت ہے جس کی میزان پر لعل و گہر ہو یا کنکر پتھر ایک سی حیثیت رکھتے ہیں۔ بیگم سے علیحدگی کے بعد محترمہ نے پھر سے جینے کی اُمید دلائی، خواب دکھائے، وعدے کیے اور ایک نئے جہان کی تعمیر کے لیے ایک ساتھ، ساتھ ساتھ چلنے کا عہد بھی کیا، ہم خوش تھے کہ چلو محبت کی نیَا پار لگی لیکن یہ پار لگتی لگتی پھر گرداب میں جا پھنسی۔ ؎
خدا کی اِتنی بڑی کائنات میں مَیں نے
فقط ایک شخص کو مانگا تھا اور وہ بھی نہ مِلا
یارو! ایک بات تو بتاؤ کہ یہ خوبصورت لڑکیاں جن سے بندے کو محبت ہو جاتی ہے، وہ اتنی مغرور، اکڑ خان اور رعونت پرور کیوں ہو تی ہیں، بندہ بھی تو قبول صورت ہوتا ہے، پڑھا لکھا اور سرکاری نوکر ہے، صحت مند اور ایک عدد گھر کا مالک بھی ہے، بندہ کوئی معمولی بندہ تھوڑا ہے۔ شاعر نے نرگسی رویے کا اظہار کیا ہے لیکن ہم تو بھیا، عاجزی میں خوش ہیں۔ ؎
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ مِلا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ مِلا
کہنے کو سیکڑوں لڑکیاں اب بھی بندے پر مرتی ہیں لیکن اس بندے کا دل بڑا کمینہ اور بے ایمان ہے، یہ برس ہا برس سے ایک لڑکی پر مرتا ہے اور دل و جان سے اُس کا ہو جانے کی قسم کھائے بیٹھا ہے، سُنا ہے کہ جھوٹی قسم کا کفارہ ادا کر دینے اللہ جی معاف کر دیتا ہے، یارو! یہ تو بتاؤ کہ سچی قسم کھانے والے کا کفارہ کیا ہوگا، یوں لگتا ہے سچی قسم کھانے کا کفارہ مستقل جدائی اور دائمی بے وفائی کا نصیب ہوجانا ہے۔ شاعر نے تو حوصلہ کرکے کہہ دیا مگر ہم نے نہیں کہہ سکتے۔ ؎
ہم سے کیا ہوسکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی
یارو! یہ کیا بات ہوئی کہ ہر سوال کا جواب ایک ہی ہوتا ہےکہ میں شادی نہیں کرسکتی، میری کوئی مجبوری ہے، آپ یہ نہ کہیے کہ وہ لڑکی آپ کو بے وقوف بنا رہی ہے، اس کے دل میں کوئی اور ہے یا وہ آپ سے شادی نہیں کرے گی اور وہ یہ ہے اور وہ ہے۔
یارو! یہ جو دل کی دُنیا ہے نا! اس میں جذبات، احساسات، اُمید، خواب، آرزوئیں، تمنائیں، خواہشیں، ارمان، محبت، پیار، ایفا، خلوص، اپنائیت، عقیدت، چاہت ایسی خواب گاہیں موجود ہیں جہاں خوبصورت پریاں اور جوانِ رعنا شہزادے بستے ہیں، ان کے درمیان کہیں رہ جانے کی بندےکی تمنا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ دل محلے میں آباد لڑکی دُنیا داری کے تقاضوں، مصلحتوں، مجبوریوں، مقہوریوں اور جملہ آلام کو تج کر دل محلے میں ہمارے ساتھ آباد ہو جائے کہ اس نگر میں اب جگہ بہت کم بچی ہے، سُنا ہے پلاٹ بہت مہنگے ہو گئے ہیں، گورنمنٹ نے ٹیکس بھی لگا دیا ہے، ہم کیا کریں یارو! جون ایلیا خو ب کہہ گیا: ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ہم عجیب مخمصے میں اُلجھ چکے ہیں، عمر بِیت رہی ہے، وقت گزر رہا ہے، دُنیا جوان ہورہی ہے اور ہم بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، اس لڑکی کو کیسے سمجھائیں کہ ایک بندہ حقیر آپ پر مر مٹا ہے سو، اس بے چارے عاشقِ دلگیر پر رحم کھائیے اور مستقل اُس کی ہو جائیے، بندہ دل و جان سے آپ کا مطیع، تابع فرمان اور غلام رہے گا۔ ؎
مجھے منظور گر ترکِ تعلق ہے رضا تیری
مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ