Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Kya Pakistani Bache Barbaad Ho Chuke?

Kya Pakistani Bache Barbaad Ho Chuke?

کیا پاکستانی بچے برباد ہو چکے؟

ان بچوں کا داخلہ نہیں بھجوایا جا سکتا، یہ بچے اِس قابل نہیں ہیں کہ ان کا داخلہ بھیجا جائے، یہ بچے معاشرے کے لیے ناسور بن چکے، انھیں اپنی عزت کی پروا ہے اور نہ اپنے والدین کی۔ آپ اس قدر جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟ میں جذباتی نہیں ہو رہا، میں تورو رہا ہوں، چیخ رہا ہوں اور بول بول کر تھک گیا ہوں۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میرے اس سوال پر پرنسپل صاحب نے پاکستانی بچوں کی بگڑتی اخلاقی صورتحال اور ذہنی خلجان کی ارزانی کیفیت اپنی رائے کا مفصل احوال میرے سامنے رکھا اور موصوف کے خیالات سُن کر میں تو جیسے ششدر سا رگیا۔

انھوں نے اپنے احساسات میں بظاہر اپنے ادارے میں پڑھنے والے بچوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے متصل ہوش ربا انکشافات کا پنڈورا باکس کھولا تھا جسے سُن کر بطور اُستاد مجھےاپنی کارکردگی پر شرمسار ی ہوئی تاہم یہ لاینحل نکتہ سمجھ میں آگیا کہ بچے اب بچے نہیں رہے۔

گذشتہ چند برس سے پاکستانی بچوں کی شخصیت کی بربادی کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ہمارے بچے ہم سے یعنی والدین، اساتذہ اور بزرگوں سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں کے ذہن میں کُلبلا رہا ہے لیکن اس کا تشفی بخش جواب نئی نسل یعنی ٹین ایج بچوں سے نہیں مل رہا۔ والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو گرم ہوا کا جھونکا بھی چھونے نہ دیں اور ان کے لیے دُنیا بھر کی آسایشیں بہم پہنچائیں اور ان کی پرورش میں کوئی کمی نہ رہے۔ یہ اہتمام اپنی جگہ درست ہے، والدین کو اسی طرح اپنی اُولاد کا خیال رکھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کے لیے پرورش کی حد تک تو سب کچھ کیا، ذرا سوچیے! کیا یہ پرورش آپ کے بچوں کی ذہن سازی، مثبت روی اور تعمیری سوچ کے لیے بھی کچھ کارگر ثابت ہوئی یا نہیں۔

پاکستانی والدین کا پچانوے فیصد زور صرف پرورش پر ہے۔ اچھا کھانا، بڑھیا پہناوا اور بے فکری سے حلال و حرام طریقے سے کمایا ہوا پیسہ اُڑانے کے لیے وافر مقدار میں بچوں کو دینا، ان کے سکول، کالج اور یونی ورسٹی کے معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں ہر طرح کی برانڈڈ سہولیات سے آراستہ کرنا اور ان کی مشکوک حرکات و سکنات کو بچہ سمجھ کر مسلسل نظر انداز کرنا پاکستانی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صاحبانِ ذی وقار یعنی والدینِ گرامی اس رویے پر تکبر کی حد تک نازاں بھی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں اور انھیں ہر وہ چیز بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ان کی تعلیم میں دلچسپی بڑھے گی اور ان کا مستقبل روشن ہوگا۔ یہ صاحبانِ ذی وقار اپنے اصل فرض کو بھول چکے ہیں اور غفلت میں ڈوب چکے ہیں۔ انھیں خود ساختہ فرائض کی عمل داری کے آگے یہ نظر ہی نہیں آرہا کہ آپ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اُولاد کو تباہ کر رہے ہیں، آپ انھیں گرم ہوا کا جھونکا نہیں چھوانا چاہتے اور یہ آپ کو دُنیا کے جہنمی گڑھے میں دھکیلنے کی پوری تیاری کر چکے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی حوصلہ کرکے ان کی ذاتی یعنی نجی یعنی پرائیویسی حرکات و سکنات سے معمور زندگی اور روزمرہ معمولات کو دیکھا ہے۔ ان کے بیگ میں کتابوں کے علاوہ اور کیا کچھ ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے۔ ان کے دوست احباب میں کس طرح کے لونڈے لپاڑے شامل ہیں۔ ان کے سونے جاگنے اور پڑھنے لکھنے کے اوقات میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ان کے سکول، کالج، یونی ورسٹی اور کوچنگ سنٹر میں پڑھائی کے علاوہ اور کیا کچھ پڑھایا، سکھایا، بتلایا، سمجھایا اور دکھایا جا رہا ہے۔ تعلیم کے نام پر بچوں کو دئیے ہوئے لاکھوں روپے والے موبائل میں کبھی آپ نےجھانک کر دیکھا ہے کہ اس میں غلاظت کے کتنے ڈھیر آپ کی اُولاد پر بھیانک منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

کیا آپ نے ان سے کبھی یہ پوچھا ہے کہ تم نے زندگی میں جو بھی بننا پسند کیا ہے، کیا وہ تم واقعتاً بن بھی رہے ہیں یا صرف ہمیں سبز باغ دکھا کر مطمئن کرکے صرف دُھوکا دے رہو ہو۔ ستانوے فیصد والدین اپنے بچوں کی روزمرہ حرکات و سکنات سے غافل ہیں اور دن رات اسی کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طرح بچوں کو سیٹل ہونے کے لیے اتنا کما لیں، جمع کر لیں، لوٹ لیں اور کھسوٹ لیں کہ انھیں ہمارے مرنے کے بعد کسی کی محتاجی نہ رہے۔ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ دراصل ایک گونگی، بہری، اندھی اور ناقابلِ برداشت ناہنجار افراد پیدا کر رہے ہیں جن کا اپنا کوئی نظریہ حیات، مستقبل کی منصوبہ بندی اورمعاشرے کی فلاح کے لیے کوئی تعمیری ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ بس وہی کر رہے ہیں جو آپ زبردستی ان سے کروانا چاہتے ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ یہ چاہتے ہیں کہ میرے بچے دُنیا بھر کی دولت، شہرت، عزت، رُعب، دبدبہ اور شان و شوکت دُنیا سے چھین کر میری جھولی میں ڈال دے۔

پاکستانی والدین میں نوے فیصد اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، بھائی اتنے ڈاکٹر بنا کر کیا کرو گے، اگر یہ ڈاکٹر نہ بن سکا تو پھر زبردستی کمپیوٹر فیلڈ میں بھیجا جائے گا یہاں بھی نہ چلا تو پیسہ بنانے والے عہدوں پر رشوت دے کر بھرتی کروایا جائے گا جو راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھے گا اور ملک کو لوٹ کر خاندان غربت و عسرت سے نکال گھر کو اے ٹی ایم مشین بنا دے گا۔ یہ ایک رُخ ہے۔ ایک اور رُخ ہے اور وہ بچوں کی کمرہ جماعت میں ہونے والی بت میزی اور نفرت و حقارت بھری اساتذہ سے گفتگو ہے۔

پاکستانی بچوں کے ذہن میں جانے یہ ناسور کس نے بھر دیا ہے کہ اساتذہ ایک معمولی، بے کار اور فالتو کی مخلوق ہیں۔ ان کی عزت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے، انھیں منہ نہیں لگانا چاہیے، ان کی بات کو توجہ اور سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ آپ کے بچوں کے ذہن میں نوٹس، گیس، امتحانی عملہ تک رسائی، نمبروں میں ہیر پھیر سے کام چلانا چل رہاہے۔ ان میں سے اکثریت کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ دادا کی کمائی کے پلاٹ، اماں کی زمینیں، نانی کی بینک میں سوینگ چچا کی خلائی کمائی، تایا کی بے نامی جائیداد اور بڑے بھائی کے کاروبار میں زبردستی کا ہتھا یا ہوا حصہ کافی ہے زندگی گزرانے اور چِل کرنے کے لیے، مجھے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔

اللہ بھلا کرے، انگریز وں کا جنھوں نے ہمیں معمولی قیمت پر سوشل میڈیاکی سہولت مستعار دے رکھی ہے۔ گویا پاکستانی معاشرت کی تباہی اور پاکستانی اذہان کی انتہائی سطح تک ارزانی کے لیے موبائل فون ہی کافی ہے۔ یہ ایسا مہلک ہتھیار ہے جس نے صدیوں میں ہونے والی تباہی کو دنوں میں ممکن بنا دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بچہ جوان ہوتا تھا تو بت میز ہوتا تھا۔ اب وہ دور ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے بت میز، بے مرورت، سڑا ہوا اور بے تکی ہانکے والا دکھائی دیتا ہے۔ اَعضا پھوٹنے اور تنوع پکڑنے سے پہلے مضمحل ہو چکے ہیں۔ پورن کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لڑکے لڑکیاں باہم ہوس بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو یوں تاکتے ہیں جیسے آٹھ دن کا بھوکا روٹی کے ٹکڑے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتاہے۔

گالی دینا، بُرا کہنا، ٹھڈا مار کر گزرنا، کتابیں پھاڑنا، بستہ غائب کرنا، واش روم میں گھنٹوں بیٹھے رہنا، سگریٹ پینا، شیشہ پیتے ہیں تو جیتے ہیں، دُنیا سے کیا لینا گویا ان کی گفتگو کا روزمرہ ہے، امی کو پیاری امی، ابا کو فضول انسان، بڑے بھائی کو ناسور اور چھوٹے بھائی کو بُھولا کہنا، چچا کو دُشمن اور ماموں کو قصوروار سمجھنا، نانی کو کمینی اور دادا کو ظالم سمجھنا ان کی سوچ کا وتیرہ ہے۔ جو سمجھ میں آئے وہی کرنا، اکڑنا، ضد کرنا، بدمعاشی پر اُتر آنا، ماں کے سامنے سیدھا ہوجانا، چھوٹے بہن بھائیوں کو مارنا پیٹنا، ہفتہ میں ایک دن گلی محلے کے لونڈوں سے پِٹنا، ہمسائی کے عشق میں جعلی زہر کی گولیاں نگل کر ڈراما رچانا، کزن کو اپنے جال میں پھانسنا، مکر اور فریب سے پیسے اینٹھنا وغیرہ سے لے مزید سیکڑوں قسم کی قباحتیں پانچ برس سے پچیس برس کے بچوں میں یکسا ں دکھائی دینا سرِعام مشاہدے میں آیا ہے۔

پاکستانی بچوں کی اس حالتِ زار اور تباہ ہوتی صورتحال پر کوئی بات کرنے اور اور اس کو سنجیدہ مسئلہ سمجھ کر اس کو میڈیا پر اُچھالنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ والدین کے بعد اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کا ذمہ لیں۔ امی نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ بچے پر بچہ پیدا کرنا ہے اور ابا نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ بچے جوان ہونے سے ان کے نام کا ایک ایک پلاٹ اور شادی کا پورا خرچہ جمع کر لینا ہے تاکہ میرے بچے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ بزرگ جو گھر میں پڑے سڑ رہے ہیں، ان کے پاس سوائے کُڑھنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ پانچ نمازوں کے علاوہ سیکڑوں قسم کے وظائف پڑھتے ہیں اور دُعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ! ہمیں اُٹھا لے، لیکن رب نے موت کا وقت متعین کر رکھا ہے وہ کیسے ان کی خواہش پورا کردے۔

اساتذہ نے یہ سوچ رکھا ہے کہ میں نے اپنی تنخواہ کے پیکج کے حساب سے پڑھانا ہے اور میری طرف سے یہ بچے جائیں بھاڑ میں، مجھے ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کاروبار کرنے والی کمپنیاں ہر طرح کا گند، مُزّین تھال میں ڈھانپ کر بیچ رہی ہیں اور ہم کمال شوق سے لے، لے کر بچوں کو دے رہے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ اور پاکستان کے بچوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ نہیں، آپ یقیناً زیادتی کر رہے ہی۔ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ آپ صر ف اپنی کوکھ سے جنمے بچوں کو دیکھ رہے ہیں، ان کے مستقبل کی فکر میں گُھل رہے ہیں۔ آپ جو بھی کر رہے ہیں وہ مزید بہتر اندازمیں کیا جاسکتا ہے۔

سیاست دانوں نے گذشتہ دس برس میں جس قدر ہمارے معاشرے کی جملہ مثبت اقدار، روایات اور ادب و آداب کی تہذیب کو برباد کیا ہے، یہ خسارہ تو کئی صدیوں میں پورا نہ ہوگا۔ پاکستانی سیاست نے ہمارے بچوں کو گالی دینا، کُتا، کُتا اور چور، چور کہنا سکھادیا ہے، سیاست کے اس مکروہ فعل نے ہمارے بچوں کے ذہن میں یہ ناسور بھر دیا ہے کہ جب آپ کے ووٹ سے بننے والے وزیر اعظم کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو آپ کی اس ملک میں کیا حیثیت ہے۔ آپ سب ہماری طرح کٹھ پُتلی ہیں اور غلام در غلام ہیں۔ اس ملک کے وڈیروں، جاگیرداروں، بدمعاشوں، ڈاکوؤں اورہزنوں کے ساتھ مِلے ہوئے رہبروں اور فرزانوں نے ہمارے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ اس ملک میں جو جتنا لُچا ہوگا وہ اُتنا ہی اونچا اور بلند مقام پر بٹھایا جائے گا۔ اس ملک میں چور اور ڈاکو کو مسند ملتی ہے اور حق اور سچ کا پرچار کرنے والے کو دار پر لٹکایا جاتا ہے۔ اس ملک میں گنگا اُلٹی بہتی ہے۔

والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں او رہم نے جان بوجھ کر معاشرتی اقدار کو پامال کیا ہے اور اپنے آپ کو طاقتور بنانے اور اپنے گھر کو دُنیا کی آسائشوں سے بھرنے کے لیے جائز، ناجائز، اچھے برے، کالے، گورے اور ادنی اعلیٰ کی تمیز کو بُھلا دیا تھا لیکن اب ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ اگر یہ عمل ممکن ہو جائے تو آپ کے بچے یعنی پاکستانی ملک کے بچے مزید تباہ ہونے سے بچ جائیں گے۔

اگر یہ حوصلہ اور اعتراف والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بطور تحریک سامنے نہ آیا تو عنقریب یہ ملک جنگل کے بدترین نظام میں داخل ہوگا جہاں جو جتنا طاقتور ہوگا، وہ اُتنا ہی دلیر، بہادر، جری اور مسند و اقتدار کے لائق سمجھا جائے گا اور مظلوم و مقہور کو مستقل اسیری و رزالت میں مقید رکھا جائے گا۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے اور وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ہوش کے ناخن لیجیے، ضد چھوڑ دیجیے، مل بیٹھیئے، آگے بڑھئیے اور ملک کو بھی بڑھنے دیجیے۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat