Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?
کیا ہم معافی نہیں مانگ سکتے؟
آپ کی ماں مر گئی ہے، آ پ سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا، آپ میرے گھر سے نکل جائیں۔ یہ جملہ ہم بہن بھائیوں نے سُنا تو دل تھام کر رہ گئے، اس کے بعد مزید بات کرنا اور بے گناہی کا ثبوت پیش کرنے کا جواز باقی نہ رہا۔ میں نے بہنوں کو ساتھ لیا اور یہ کہہ کر ماموں کے گھر سے نکل آئے کہ ٹھیک ہے ہماری ماں مر گئی ہے، ماں کے ساتھ ہمارا تعلق بھی مر گیا تو ہم بھی ایک دوسرے کے لیے مر گئے۔ گھر کے باہر ہمسائے بے عزتی اور سر عامِ رُسوائی کا تماشا دیکھ رہے تھے اور زیرِ لب متبسم بھی تھے۔ اِس کے بعد نہ ہم ماموں کی طرف گئے اور نہ اُن کے خاندان کی طرف سے کوئی ہماری طرف آیا، خون کا رشتہ خاندانی شناخت کے رعونت آمیز جذباتی تعصب کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر گیا۔
اس سے آگے بڑھ کر یہ ہوا کہ ایک گھر سے نکلنے والے پورے ننھیال سے نکال دئیے گئے۔ ایک شخص کی منافرت نے سیکڑوں گھروں کے باہمی روابط کو ہمیشہ کے لیے نزع کی حالت میں مبتلا کر دیا۔ بات صرف اِتنی تھی کہ ہم عمر، قد، حیثیت، ذات، شعور اور مال و دولت میں چھوٹے تھے اور ماموں صاحب ہر حوالے سے ہم سے بڑے تھے۔ معاملہ محض ماموں کی غلط فہمی اور اپنے تئیں پالے ہوئے تعصب کا تھا جس کا شکوہ مہینوں میں نے برابر سُنا، تنگ آکر ایک دن وضاحت دینے کے لیے میں اپنی بہنوں کے ہمراہ ماموں کی طرف گیا۔
مجھے بہنوں کے ہمراہ دیکھ کر ماموں صاحب گھبرا گئے، بات ابھی شروع نہ ہوئی تھی کہ ماموں کی بوکھلاہٹ نے ان کی سانس اکھیٹر دی، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے دُھونس جمانے اور اپنی سچائی کا رُعب جمانے کی مصنوعی کوشش میں وہ آگ بگولا ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ پورے خاندان میں کسی چھوٹے بڑے کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ میرے سامنے کوئی اُونچا بول سکے، تم نے جرأت کیسے کی کہ میرے سامنے اُونچی بات میں بات کر سکو۔ اس کے بعد مذکور جملہ دُہرایا اور بات ختم ہوگئی۔
بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی، غلطی کا اِدراک ہونے کے باوجود ماموں نے اپنے خاندان کے علاوہ جملہ اعزا و رُفقا کے ہاں اپنا جعلی تشخص اور مصنوعی رُعب برقرار رکھنے کے لیے میرے بارے میں آناً فاناً یہ مشہور کر دیا کہ میں نے ان کے رشتے کا لحاظ نہیں رکھا، حد درجہ بدتمیزی اور بے ادبی کی ہے، میں ایک پڑھا لکھا جاہل، بت میز اور گھٹیا انسان ہوں جس نے اپنے خاندان کو بے وقوف بنا رکھا ہے اور ہماری عزت اور ناموس کو بٹا لگانے کی نیچ حرکتیں کر رہا ہے۔
اس کے بعد الزام و توہمات کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس نے پورے ننھال میں مجھ سمیت میرے خاندان کے وہ لتے لیے کہ خدا کی پناہ، کبھی بار مجھے اپنے گھر سے شدید قسم کی بدتمیزی دیکھنے کو ملی حتیٰ کہ مجھ سے ہر طرح کا رشتہ توڑنے کی دھمکیاں دی گئیں جن میں بیشتر عملی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ میں نے بغاوت کی اور سچ کے عَلم کو تھامنے کی کوشش کی، اس بغاوت کی سزا یہ ملی کہ مجھے سرِ عام سنگسار کرنے کی پوری کوشش کی گئی، میرے گھر والے یعنی مجھے پیدا کرنے والا باپ اور بڑا بھائی ننھال کا حمایتی نکلا، مرورِ وقت کے ساتھ گاہے گاہے بہنوں نے بھی مجھے غلط اور ننھال کو سچ ثابت کرنا شروع کر دیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آج میں سیکڑوں گھروں کے ہزاروں افراد کے لیے ناسور بن چکا ہوں، ہر شخص مجھے نفرین آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے اور میری کُتے والی کی جاتی ہے، میری ذات کو نشانہ بنا کر ایسے چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں جیسے میں نے ایسا گناہِ کبیرہ کیا ہے جس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ بیسویوں ایسے واقعات ہیں جو اسی قسم کی ذاتی تعصبات سے متصل ہیں۔
انسان چھوٹا، بڑا، ادنیٰ اعلی، کم حیثیت یا بلند مرتبہ نہیں ہوتا، انسان انسان ہوتا ہے اور اس کی واحد شناخت انسانیت کے احساس سے لبریز قلب وذہن ہے جس میں انسان کی عزت کا بنیادی داعیہ موجود ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو کر معاشرے کے معیارات کو فالو کرنے اور احترامِ آدمیت کے اعلیٰ تصور کا پرچار کرنے کا درس دیتا ہے۔ انسانوں کی بستی میں احساسِ آدمیت اگر نہیں ہے تو وہ معاشرہ جنگل کا معاشر ہ ہے جہاں انسان نہیں بستے۔ یہ واقعہ کبھی سانحہ نہ بنتا، اگر چھوٹے، بڑے، ادنیٰ اعلی کی تمیز کو یوں برقرار نہ رکھا جاتا۔
ایک شخص جس نے ساری زندگی، ذات پات، رنگ نسل، اونچ نیچ، کم زیادہ، اچھا بُرا، بہتر، گھٹیا، معیارات، ترجیحات، مفادات اور اس کے قسم کے سیکڑوں تضاداتِ اوہام میں گزاری ہو، اُس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایک نوجوان سے دلائل کی بنیاد پر شکست تسلیم کر لے۔ ایسا انسان اپنی شکست کو ذاتی بے عزتی اور رُسوائی کے مترادف سمجھتا ہے اور یہ تصور رکھتا ہے کہ زمانہ کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور میں بال سفید کرکے جس نتیجے پر پہنچا ہوں، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مجھ سے بحث نہ کی جائے، دلائل سے متاثر نہ کیا جائے، آواز بلند کرنے کی جرأت نہ دکھائی جائے اور سامنے آکر سینہ تان کر بات نہ کی جائے بلکہ میری رائے کو حتمی اور ناقابلِ تردید سمجھ کر مِن و عن اسے تسلیم کیا جائے نیز خواہی نہ خواہی میر ی عزت، شان و شوکت اور مرتبہ کا لحاظ بھی رکھا جائے۔
دوستو! یہ کیسے ممکن ہے، اگر اس رویے کو بڑھاوا دیا جائے گا تو علم، شعور، تدبر، تعقل، فکر، سوچ اور نکتہ نظر کی دولت کو ایک پوٹلی میں لپیٹ کر اس کا جنازہ پڑھ کر جہالت کی قبر میں دفن کرنا ہوگا۔ مذکور واقعے سے میں خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود عمر میں بڑے رشتوں کے نفسیاتی خلجان کی انتہا پسندانہ سوچ کو واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
پاکستانی معاشرے میں اپنی غلطی کا احساس ہو جانے کے باوجود غلطی کو تسلیم نہ کرنے کی ضد نے ہزاروں گھروں کو برباد کیا ہے۔ معصوم، کومل اور نرمل جذبات کو خزان کی نظر کیا ہے۔ ہمت، جرات، سچائی، حکمت، دلیری، بے خوفی اور دلیل سے بات کرنے کو ہمیشہ حوصلہ شکنی کے ڈنڈے سے طبیعت صاف کرنے پر اُکسایا گیا ہے۔ کیا ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ معافی مانگ کر ہم چھوٹے نہیں ہو جائیں گے بلکہ ہمارا قد مزید بڑا ہو جائے گا۔
کیا معافی مانگنے سے انسان کو کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے، کیا اِسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ معافی مانگنے سے معاشرے میں اس کا احترام وعزت کا قصر زمین بو س ہو جاتا ہے۔ اگر اس تصور میں سچائی ہوتی تو دُنیا کی جنگیں کبھی ٹیبل پر آکر باہمی مشاورت و اعتراف سے ختم نہ ہوتی، عرب کے لوگوں کی جاہلیت تاریخ میں محفوظ ہے، ان کی جہالت اپنی جگہ مگر ان کے اوصافِ حمیدہ پڑھ کر دیکھیے، انھیں جب اپنی غلطی کا ادراک ہو جاتا تھا، صدقِ دل سے دُشمن کے گھر جا کر سادہ الفاظ میں معافی مانگ لیتے تھے اور معافی مل جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ وقتِ مصیبت دُشمن سے بچپنے کے لیے ایک شخص ماضی کے دُشمن کے ہاں جا کر امن کی درخواست کرتا تھا اوراسے امان مل جاتی تھی جبکہ مارنے والا امان دینے والے کے آگے سِپر ڈال کر اُس کی جان بخش دیتا تھا۔
پاکستانی معاشرت کے تنزل اور بربادی کی بڑی وجوہ میں ایک بڑی وجہ غلطی کا ادراک ہونے کے باوجود معافی نہ مانگنا ہے۔ انسانی سوچ کی سطح دیکھیے! معمولی غلطی کو چھپانے کے لیے انسان غلطی در غلطی کرتا چلا جاتا ہے، نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ انسان اغلاط کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے لیکن شرم تم کو مگر نہیں آتی کے مِصداق غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ ماموں کو بار ہا یہی پیغام بھجوایا اور تاثر دیا کہ آپ جہاں چاہیں مجھے بٹھا لیں میں آؤں گا، اپنی بات وہی اُسی انداز میں اُنھیں دلائل کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں گا، پنچایت فیصلہ کر ے گی کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ہے لیکن انھوں نے ہنوز مفاہمت کے اس راستے کو منتخب نہیں کیا بلکہ اپنی ضد پر بضد ہیں۔ نزاعات کے ان معاملات میں معافی مانگے بغیر رشتے بحال کرنے کے لیے خوشی کے مواقع اور غم کے سانحات کا انتظار کیا جاتا ہے۔
پاکستانی دیہات میں عموماً یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ دو خاندان کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوا اور بات چیت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ برس ہا برس کولڈ وار کی کیفیت میں گزر جاتے ہیں اور رشتے کا تعطل ہٹ دھرمی کے آگے رینگتا رہتا ہے پھر خوشی کا مُشترک موقع آتا ہے جہاں سبھی اعزا کو مدعو کیا جاتا ہے، انتہائی چالاکی اور محسوس کروائے بغیر سلام و خیریت کے تبادلہ میں نزاعات دبا دی جاتی ہے اور رشتے بحال ہو جاتے ہیں، اسی طرح غم کے موقع یعنی عزیز کی وفات کے موقع پر جب سبھی رنجیدہ ہوتے ہیں، یہ بونے کردار موقع پا کر ہمدردی کی غرض سے قریب آتے ہیں اور کمال ہوشیاری سے رشتوں کے مصنوعی تعطل کو بحال کر لیتے ہیں، میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ہر غلطی کی معافی مانگی جائے اور ہر بار معافی مانگ کر ہی رشتے کے تعطل کو بحال کیا جائے البتہ کچھ غطلیاں اور کوتاہیاں ایسی ہوتی ہیں جو براہ تہمت، ہرزہ سرائی، الزام اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہیں، ان بلنڈر کو احساس دلائے بغیر معاف کرنے سے نقصان ہوتا ہے جو بعض دفعہ ناقابلِ تلافی پچھتاوے کا باعث بن جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم معافی مانگنے کی بجائے خوشی اور غم کے مواقع کا انتظار کرتے رہیں گے یا آگے بڑھ کر ذات پات، رنگ نسل، اونچ نیچ، ادنیٰ اعلیٰ کی تمیز سے ماورا ہو کر جھوٹ اور سچ کے درمیان فرق کو کمال حوصلہ سے اعترافِ معصیت کرکے ایک باشعور اور مذہب انسان ہونے کا ثبوت دیں گے۔
یاد رکھیے! وہ زمانہ گزر چکا جہاں نوجوان نسل اپنے بزرگوں کی ناجائز و ناروا، بات اور سلوک و زیادتی کو خواہی نہ خواہی قبول کرتی تھی، نظر جھکا کر آمناً و صادقاً کہتی تھی اور زبان پر حرفِ شکایت نہ لاتی تھی۔ دُنیا گوبل ولیج بن چکی، تعلیم نے انسانوں کے اذہان کو تعقل کی روشنی سے جلا بخشی ہے، اب بات دلیل اور ثبوت پر ہوتی ہے، آپ چھوٹے ہوں یا بڑے، تعلیم عمر کے فرق کو نہیں دیکھتی، تعلیم اس بات کا شعور دیتی ہے کہ اگر آپ غلطی پر ہیں تو سادہ الفاظ میں معافی مانگ لیں اور آگے بڑھ جائیں، اگر آپ سچے ہیں تو اپنی سچائی پر قائم رہیں خواہ پوری دُنیا آپ کے مخالف ہو جائے۔ پاکستانی معاشرت میں معافی نہ مانگنے اور غلطی کا ادراک ہو جانے کے باوجود غلطی کا ازالہ نہ کرنے کی کہنہ روایت نے پاکستانیوں کے مشترک اخلاق، اقدار، تہذیب، ثقافت اور جملہ طرزِ زیست کے بیانیے کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔
آئیے! ہم یہ عہد کریں کہ آج سے چھوٹے بڑے، ادنیٰ اعلی، اونچ نیچ کے تعصب میں نہیں پڑیں گے، جہاں غلطی کا امکان ہوگا وہاں احتیاط کریں گے، جہاں بدگمانی در آئے گی، وضاحت دے کر اس کی جڑ کاٹیں گے، جہاں بد عہدی کا اندیشہ ہوگا، وہاں اعتبار کا معیار قائم کریں گے، جہاں منافرت کی ہوا چلے گی، وہاں ہم آہنگی کی فضا قائم کریں گے، جہاں جہالت کا غلبہ سر اُٹھائے گا، وہاں شعور کی روشنی کا عَلم تھاماجائےگا اور جہاں رشتوں کے تقدس کی بات ہوگی وہاں ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے رشتوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ دُنیا کا سب سے بڑا مذہب احترامِ انسانیت ہے جو احترامِ آدمیت کے بغیر ممکن نہیں۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے:
بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
شیخ محمد ابراہیم ذوق نے کہا:
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیراں ہی رہا
افتخٓارف عارف نے پاکستانی معاشرت کے ان کھوکھلے اذہان پرٹھیک چوٹ کی:
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں