Kon Hai Asal Hukumran?
کون ہے اصل حکمران؟
یہ بات ثابت ہو چکی کہ ملکِ پاکستان کا صاحبِ اختیار و صاحبِ اقتدار ایک ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اس قدر مضبوط اور مستحکم کیوں ہوا۔ اس کے پیچھے ایک طویل داستان ہے جس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ پاکستان کے بانیان نے اس ملک کے نمائندگان کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے اسے بیرونی ممالک کے ہاں رہن رکھوا دیا تھا۔ پاکستان بنانے کے لیے جو مذہبی بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا وہ سِرے سے فضول، لایعنی اور حقیقت کے برعکس تھا جس کے بھیانک نتائج کا علم تحریکِ پاکستان کے علمبرداروں کو اچھی طرح تھا۔
پاکستان بننے کے چھے ماہ کے اندر وہ سبھی اختلافات سامنے آگئے جن کو جزوقتی دبا دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے نمائندگان نے کمال ہوشیاری سے لوگوں کو ان کے نظریئے، بیانیے اور مفاد پرستانہ تصورات پر راضی کرکے یہ ملک بنوالیا۔ ایک سال کے اندر ملک کی حالت نزع کی صورت اختیار کر گئی۔ کچھ کو مار دیا گیا، کچھ مروا دئیے گئے اور جو بچے وہ دیوار میں چُن دئیے گئے۔ امریکہ کی مستقل غلامی ایک سال بعد عملی صورت میں نافذ العمل ہوگئی۔ بھارت کو مستقل دُشمن قرار دے کر آرمی کو ملک کے جملہ اختیارات کا مالکِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔
1948 سے 2023 تک ادارے نے ہی ملک کی کمان سنبھالی اور کمرشل بریک کے طور پر سیاست دانوں کی انٹریاں بھی کروائیں تاکہ فنڈنگ ہوتی رہے اور محلات کی دیواریں آہن زر ہو تیں رہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد دُنیا تبدیل ہوئی۔ انٹر نیٹ کی آمد اور سوشل میڈیا کی ترویج کے نتیجے میں حقائق کو اِخفا میں رکھنا اور اپنی مرضی سے حکومت کے جملہ انتظامات کو کنٹرو ل کرنا، اب ناممکن ہوگیا ہے۔
پی ٹی آئی کے تجربے سے ادارے کی عمل داری عوام پر اس طرح واضح ہوگئی کہ مرکز سے دور ریگستان میں مقیم ان پڑھ شخص بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ادارے کی سیاست میں مداخلت سو فیصدی ہے اور ادارہ ہی سیاست دانوں، سیاسی پارٹیوں اور ملکی وسائل کی تقسیم و تنظیم کی مالکِ واحد ہے۔ 9 مئی کے واقعہ کے بعد بظاہر پی ٹی آئی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا لیکن عوام الناس اس تاثر کو تسلیم نہیں کرتی۔ عمران خان نے جس قدر ادارے کا بیانیہ کھول کر واضح کیا اور جو حقائق و تاثرات اپنی تقاریر اور حرکاتِ اجتماعی سے عوام کے سامنے واضح کیےوہ اس قدر ٹھوس، قطعی اور ناقابلِ تردید ہیں کہ ایک عام انسان یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اس واقعے کی منصوبہ بندی میں کوئی ایک جماعت کا مفاد شامل ہے۔
پاکستان کی جملہ خفیہ ایجنسیوں نے بارہا تجزئیے کروا کے دیکھ لیا کہ عمران خان کا بیانیہ (سچا یا جھوٹا) عوام میں زہر کی طرح پھیل گیا ہے۔ ادارے کی طرف سے سیکڑوں وضاحتی بیانات سامنے آنے کے باوجود جو تشکیک اور تنفر کا تاثر ادارے کے حوالے سے عوام میں سرائیت کر گیا ہے، اسے اب آسانی سے زائل کرنا ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے انٹرویوز، پوڈ کاسٹ، وی لاگز اور فیچرز موویز کے ذریعےیہ بات واضح ہوچکی کہ اس ملک کی سیاست میں کس ادارےکا کیا کردار ہے اور کون سا ادارہ کیا کر رہا ہے اور کون سا ادارہ کیا کر سکتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو تجربہ گاہ بنا لیا گیا۔ دُنیا بھر کے سیاسی نظام اس ملک پر آزمائے گئے۔ ہر طرح کا بیانیہ پنپنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ دُنیا بھر میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب یہاں ہونے کے مواقع بہم پہنچائے گئے۔ اس ملک کو ہر طرح کے وسائل میسر ہونے کے باوجود جان بوجھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا گیا بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے اسے ایک کمزور، اپاہج اور معذور مملک بنے رہنے دیا گیا۔ سیاست دان، مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور ادارے نے مل کر اس ملک کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں ترقی و خوشحالی اور استحکامِ معیشت کی سبک سُرخی تک دکھائی نہیں دیتی۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ان پانچوں اداروں نے مل کر اس ملک کے وسائل کو لوٹا ہے اور اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ہے۔ اس ملک میں سیاسی استحکام اور ترقی و خوشحالی کا دور اُس وقت تک نہیں آسکتا جب تک یہ پانچوں ادارے واپس اپنی اصل ذمہ داری اور حد میں نہیں آجاتے۔ یہ امر ناممکن ہے۔ یہ ملک پاکستان تھا جو اب مسائلستان بن چکا ہے۔ اس ملک کو مسائلستان بنانے میں ہر اُس صاحبِ اختیار اور صاحبِ اقتدار کا ہاتھ ہے جسے یہ اختیار اور اقتدار فراہم کیا گیا۔ اس ملک میں ہر طرح کے استحکام اور عوامی ترقی و خوشحالی اور فلاحی ریاست کے احیا کے لیے ایک ہی ایجنڈا ہے۔ وہ یہ کہ اس ملک کو ایک ادارہ کے حوالے کر دیا جائے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس ملک کی سرحدوں کے محافظ ہی اس ملک کے جملہ معاملات کو احسن انداز میں سنبھال سکتے ہیں۔ اگر اِس ادارہ سے یہ اختیار چھیننے کی کوشش بھی کی جائے تو یہ ناممکن ہے۔ حل یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست کو بین کر دیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو بین کر دیا جائے۔ کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی پر اسلامی حکومت یا بادشاہی حکومت کی طرح سزا دی جائے اور کسی کو ہرگز اس سزا سے ماورا نہ سمجھا جائے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرح ایک کمیشن ادارہ بنایا جائے جہاں css کی طرح امتحان لیا جائے۔ جو شخص ملکی انتظام میں آنا چاہتا ہے وہ اس امتحان کو پاس کرے۔ اس ادارہ کا سربراہ پاک ادارے کے نمائندگان ہوں گے جو امیدوران کا ان کی انتظامی صلاحیت کے مطابق انتخاب کریں۔
یونین کونسل کی سطح تک سیاسی ورکر کو مختلف نوعیت کے امتحانات سے گزار کر منتخب کیا جائے۔ پھر ان کو فنڈ اور اختیارات دئیے جائیں۔ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمالات پر ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ تین سال کے لیے ان امیدواران کو منتخب کیا جائے۔ یہ ایک حل ہے۔ باقی بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے کیا ہوگا؟ اس سے یہ ہوگا کہ ایک MNA کے الیکشن پر خرچ ہونے والے اربوں روپے بچ جائیں گے۔ پاکستان میں اس وقت 30 کے قریب چھوٹی بڑی پاریٹیاں ہیں۔ ان تیس پاریٹیوں کے ایم این اے اور ایم اپی اے کی کل تعداد ہزاروں میں بنتی ہیں۔ ملکی سطح پر ایک سیاسی پارٹی الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو اس کے ہزاروں امیدوار مختلف سیٹوں پر سیکڑوں مدِ مقابل امیدواروں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس مقابلہ بازی میں ایک پارٹی کے امیدواروں کا اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ کیا حکومت ان کو فنڈنگ کرتی ہے؟ یہ سارا پیسہ ان امیدواروں کی جیبوں سے لگتا ہے۔ گویا یہ ایک ملکی سطح پر سب سے بڑی انوسٹمنٹ ہے جو اربوں روپے میں ہوتی ہے اور اس کا حاصل کیا ہے۔ روپے کے بدلے روپے کمانا۔
یہ نظام اپنے اندر کرپشن کا سب سے بڑا نظام ہے۔ ہزاروں خرچ کرنے والا لاکھوں کماتا ہے اور لاکھوں والا کڑوروں ارن کرتا ہے۔ اس کمائی کے دھندے کو ختم کر دیں۔ حکومت الیکشن پر اربوں لگاتی ہے اور نمائیندان منتخب کرتی ہے۔ پاکستان میں سیاست کا جملہ نظام دراصل ایک انوسٹمنٹ کا نظام ہے جس میں وہی آتاہے جس کے پاس پیسہ ہے۔ یہ سارا کام ایک ادارہ کر سکتا ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک ایک ادارہ اس ملک کو چلا رہا۔ جب اس بات کو سیاست دان بھی تسلیم کرتے ہیں اور ماتحت ہر ادارہ بھی تسلیم کرتا ہے تو پھر ملکی وسائل کو تباہ کرنے اور ایک مضبوط نظام کے پیرلل ایک فیک نظام چلانے کی کیا ضرورت ہے۔
پاکستانی عوام کو ہر جگہ ایک ہجوم کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ہجوم میں شعور نہیں ہوتا۔ ہجوم میں اچھے بُری کی تمیز نہیں ہوتی۔ ہجوم سے ہر طرح کی بُرائی توقع کی جاسکتی ہے۔ ہجوم کو قابو کرنے کے لیے مضبوط ڈنڈے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ڈنڈا ہم نے ایک ادارہ کو دیا ہے۔ ڈنڈے کے علاوہ اس ادارہ کے پاس بندوق بھی ہے۔ کووؤں، چیلوں اورگِدھو ں ایسے ہجوم کو بندوق کی نالی سے ڈراتے رہیں اور ڈنڈے کی ضرب سے باڑہ میں قید رکھیں۔ یہ کام بہت آسان ہے۔ اس ملک کی تقدیر کو سنوارنے اور اسے ترقی دینے کے لیے ہر بندہ تیار بیٹھا ہے۔
پاکستان کی جملہ سیاسی پارٹیاں جب یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس ڈنڈے اور بندوق والے کی حمایت کے بغیر اقتدار نہیں ملتا تو یہ ڈنڈے اور بندوق والے ہم عوام پر رحم کریں۔ ہمیں تو ہر کوئی لوٹ رہا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ ہمیں چور بھی کھا رہا ہے اور محافظ بھی کھا رہا ہے۔ ہم عوام کیا کریں۔ ہم کس کی طرف دیکھیں۔ ہمارے باپ دادا نے اپنی جانیں دیں۔ ہمارے والدین نے اپنی ساری عمر اس ملک کو دی۔ اب ہم نوجوان نسل کبھی پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی آگے کی طرف۔ ہم عوام ایک ایسے مکان میں قید ہیں جس میں اتنی حبس ہے کہ دم گھٹنے سے مر رہے ہیں اور باہر اس قدر خطر ہ ہے کہ گولی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ اب ہم تھک چکے ہیں قربانیاں دے دے کر۔
مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ آپ نے ہمارے ساتھ آخر کرنا کیا ہے۔ ہمیں تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ہم بھیڑ بکریاں ہیں جنھیں اس لیے پالا جاتا جاتا ہے کہ ضرورت کے وقت ہمارے گوشت سے، ہماری کھال سے اور ہمارے پُرکشش جسم سے ہر طرح کی لطف و مسرت اور تلذذ حاصل کیا جاسکے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر یوں ہی سہی۔ ایک بے بس، مجبور اور مقہور ذی روح کیا کر سکتی ہے۔