Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Dr. Nasir Abbas Nayyar Ki Naqidana Haisiyat

Dr. Nasir Abbas Nayyar Ki Naqidana Haisiyat

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ناقدانہ حیثیت

کلیم الدین احمد مشہور نقاد گزرے ہیں۔ ان کی دو مشہور کتب "اُردو تنقید پر ایک نظر، اُردو شاعری پر ایک نظر" ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کے ہم عصر ناقدین کو ان کی تنقید کسی صورت ہضم نہیں ہوئی۔ ان کی وجہ شہرت اُردو غزل کو "نیم وحشی صنفِ سخن" قرار دینے سے ہوئی۔ اس جملے کے علاوہ ان کی اور بھی متنازع آرا ہیں جو ان سے منسوب ہیں۔

ان پر یہی طعن کی جاتی رہی کہ یہ ایک بے حِس اور لطائفِ زیست سے عاری انسان ہے۔ غزل جیسی لطیف اور دلآویز صنف کو نیم وحشی قرار دے رہے ہیں۔ ان پر مغربی ادب کا شدید غلبہ ہے، انگریزی دانی نے ان کی عقل کو چاٹ لیا ہے، یہ مغرب کے ایجنٹ ہیں، انھیں مشرقی ادبیات اور مشرقی لسانیات کا کچھ علم نہیں۔ کلیم الدین احمد نے جو کہنا تھا، وہ کہ چکے۔ اب ان کا کہا ہوا چھپا ہوا ہے، چُھپا ہوا نہیں۔

کلیم الدین ایک بڑا نقاد تھا۔ اس نے ناقابلِ تغیرمتعین تنقید کے پیمانوں کو توڑا۔ کہنہ روایات پر مبنی مفروضوں کا قلع قمع کیا۔ ان کی اس کاوش کا بونے نقادوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، انھیں معتوب قرار دے کر یکسر انداز کرتے رہے۔ اُردو ادب کے طلبا جب تنقید کی مبادیات سے شناسا ہوتے ہیں تو انھیں جامعات میں کلیم الدین احمد پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ ان کے بارے میں یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ انگریز نواز تھے۔ انھوں نے انگریزی ادبیات کو جان بوجھ کر اُردو کی مشرقی شعریات میں دخیل کیا۔ ان کے ہاں مشرقیت کا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

کلیم الدین احمد کا قصہ تو، کل کی بات ہے۔ اس سے پیشتر ایک بڑے جیّد شاعر اور نقادگزرے ہیں جن کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے، خواہ وہ ادب سے واقف ہو یا نہ ہو۔ یہ صاحب مولانا الطاف حسین حالی ہیں۔ مولانا حالی نے جب اپنا غزلیات کا دیوان ترتیب دیا تو اس کے دیباچے میں کچھ عرضداشت پیش کیں۔ یہ دیباچہ انھوں نے محض اس خیال سے لکھا تھا کہ وقت بدل چکا ہے، رسم و رواج اور ترجیحاتِ زمانہ تبدیل ہو چکا۔ برصغیر کی مجموعی فض بھی تبدیل ہو چکی۔ ایسے میں تخلیقی فن پاروں کو تنقید کے معمر اور فرسودہ اُصولوں پر جانچنے سے ادب کی ترویج و تفہیم میں جدت اور تازگی کا عنصر تنزلی کا شکار ہے۔

مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری کے موضوع ا ن کے ذہن میں جو کچھ تھا، تفصیلا اُسے لکھ ڈالا۔ یہ دیوان چھپ کر مارکیٹ میں آیا تو ایک طوفان برپا ہوگیا۔ تنقید و تنقیس کا طوفان تھما تو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس دیباچے کو علاحدہ کتابی صورت میں"مقدمہ شعر و شاعری" کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ اس دیباچے میں مولانا حالی نے جو نکتے اُٹھائے، قدیم وضعِ تنقید پر جو اعتراضات کیے، فرس، پامال، جذبے سے نابلد اور مقصدیت سے عاری شاعری پر جو طعن کی، مغرب کی تنقید نگاری سے مشرقی ادبیات کو پرکھنے کی جو مثالیں بطور نمونہ پیش کیں۔ یہ سب ان کے خلاف ایک محاذ کو کھولنے کے لیے کافی دیا۔

مولانا حالی کے متعقدین اور معتصبین نے ہر وہ الزام ان پر مرتسم کیا جس کے مولانا کسی صورت مستحق نہ تھے۔ دُشنام و طعن کے اس معرکہ میں فتح مولانا حالی کی ہوئی۔ آج تنقید کی دُنیا میں مولانا حالی کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، انھیں جدید تنقید کا بانی قرار دے کر عزت دی جاتی ہے۔ مذکور شخصیات کے تعارف سے مقصود یہ عرض کرنا ہے کہ آج اسی دُشنام و طعن کی زَد میں ایک نام، ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کا سرفہرست ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے اپنا ایم فل کا مقالہ جدیدیت اور مابعد جدیدت کے موضوع پر لکھا۔ اس کے بعد انھوں نے اسی موضوع کو وسعت دے کر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جو منظوری کے فوراً بعد شائع ہوا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی، جرمنی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ میں تحقیق کے لیے اسی موضوع سے متصل بحث کو لیا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے تنقیدی رجحانات میں یک طرفہ انفرادیت پائی جاتی ہے۔ ان کے موضوعات میں جدیدیت، مابعد جدیدت، نو آبادیات، پس نو آبادیات، مابعد نو آبادیات، متن، سیاق اور اس کا تناظر، لسانیات، ساختیات، پس ساختیات، تشکیلیت، ردِ تشکیلیت، عالمگیریت، ادب کی تشکیلِ جدید، ثقافتی شناخت اور استعماری شناخت، علمی نثر، جدید نظری مباحث کے رجحانات وغیرہ شامل ہیں۔

یہ تنقیدی موضوعات کلاسیکی تنقید پڑھانے والے جامعات کے اساتذہ کو ہضم نہیں ہو رہے۔ جامعات میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جنھوں نے زندگی میں صرف ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے جو زیادہ تر کسی شخصیت کی علمی و ادبی خدمات اور اس کی شاعری اور نثر میں اُس عنصر کی تلاش پر مبنی ہے جسے سیکڑوں محقق صدیوں پیشتر تحریر کرکے گزر چکے۔ جامعات کے اساتذہ میں نوے فیصد ایسے ہیں جنھوں نے پی ایچ ڈی کے بعد سروس سے سکبدوش ہونے تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے منظورشدہ ریسرچ جنرل کی وائی کیٹگری کے علاوہ کہیں اور کچھ لکھنے اور چھپنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی یہ مہربانی ہے کہ وہ تقرری کے لیے پانچ آرٹیکل گذشتہ پانچ سال کے مانگتی ہے۔ اگر یہ شرط نما قباحت ختم کر دی جائے تو ریسرچ آرٹیکل کا دھندہ ختم ہو جائے، جس نے زحمتی برسات میں خودرَو کھونبیوں کی طرح سر نکال رکھے ہیں۔ یہ ظالم ایک آرٹیکل کا دس ہزار سے ساٹھ ہزار تک معاوضہ لیتے ہیں اور شائع کرنے کا احسان بھی برابر یاد دلاتے ہیں۔ جو ریسرچ جنرل بلامعاوضہ ہیں وہ انجمن ستائشِ باہمی کے اُصول پر، تو میرا چھاپ میں تیرا چھاپتا ہوں کی ڈگر پر اپنی اپنی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے جو کچھ لکھا ہے اور جن موضوعات پر لکھا ہے، اس پر ان سے پہلے بھی چیدہ چیدہ کام ہوا ہے تاہم ڈاکٹر ناصر عباس نے ان موضوعات پر بنیادی نوعیت کا کام کیا ہے۔ یہ کام بالکل نیا، اچھتا اور تازہ نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں زیادہ تربدیسی ادب سے ملتی ہیں۔ ہمارے ملک کے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کا یہ المیہ ہے کہ انھیں انگریزی سرے سے نہیں آتی۔ فقط بول چال کی حد تک گزارا ہے۔ انگریزی کے علاوہ روسی، چینی، لاطینی، ترکی، فارسی، عربی اور معاصر زبانوں سے ان کی واقفیت صفر بٹا صفر ہے۔ آپ جب تک کسی زبان کی جملہ ادبیات سے واقف نہیں ہوں گے، تب تک اُس میں لکھے گئے ادب کے بارے میں صحت مند رائے کیسے قائم کر سکتے ہیں۔

دُنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب یہ بہانہ ختم ہو چکا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی، مجھے روسی زبان کا علم نہیں، مجھے ترکی زبان سے شناسائی نہیں۔ اس لیے میں ان بدیسی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیوں کروں۔ زبانیں کسی قوم، ملک اور معاشرے کی میراث نہیں ہوتیں۔ ان کے بولنے والے اور اس میں لکھنے والے ان کے اصل وراث ہوتےہیں۔ یہ کہہ کر کسی کی تخلیقی ریاضت کو یکسر نظر انداز کر دینا کہ یہ تو انگریزی ادب کا چربہ ہے، یہ تو روسی ادب کا سرکہ ہے، یہ تو ترکی سے مستعار ہے، یہ تو لاطینی سے ماخوذ ہے۔ یہ رویہ پڑھے لکھے اور تفکر و تدبر کرنے والے حلقہ کو زیب نہیں دیتا۔ الزام عائد کرنے سے پہلے خود کو ثابت کریں کہ آپ جس موضوع سے متعلق تحریر پر تنقید کر رہے ہیں، اس کی مبادیات، روایت اور ارتقا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے مذکورہ موضوعات کو اُردو ادب میں متعارف کیوں کروایا ہے، کیا ان کے پاس اور موضوعات نہیں تھے، کیا انھیں مشرقی ادبیات میں دلچسپی نہیں تھی، کیا ان کے ہاں سطحی، روایتی اور رسمی موضوعات کی قلت تھی؟ ایسا نہیں ہے۔ ایک بڑا ذہن بڑا سوچتا ہے، بڑا لکھتا ہے اور بڑے سوال کرتا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نے اپنی عمر کا دو تہائی حصہ آنکھوں کا تیل ٹپکانے میں صرف کیا ہے۔ انھوں نے اُردو ادب کے علاوہ بدیسی ادب کو اول و آخر پڑھا ہے۔ ان کی اپنی ایک رائے ہے۔ انھوں نے اُردو ادب کی مقامیت کو عالمگیریت کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اُردو تنقید کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا ہے۔ انھوں نے تنقید کی کہنہ اور فرسودہ روایت کو فنی و فکری اور تجزیاتی مطالعے سے باہر نکالا ہے۔ ان کے ہاں ہر چیز کا ایک تھسیز موجود ہے اور اس تھییسز کا ایک سنتھیسز ہے۔

جب یہ سوال اُٹھاتے ہیں، حلقہ ادب کی طرف خاموشی دیکھ کر اپنے سوال کی تلاش میں عالمی ادبیات کے بحرِ بیکراں میں غوطہ لگاتے ہیں اور حقائق ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں بھی کلیم الدین احمد اور مولانا الطاف حسین حالی کی طرح آپ رَد کرتے ہوئے سرائیو کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان کے متعارف کروائے ہوئے موضوعات، رجحانات، میلانات اور تصورات کا اتباع کرتے ہیں اور اس کے تتبع میں ان تصورات ومیلانات اور رجحانا ت و تصورات کو مستقل موضوعات کی حیثیت سے قبول کرتے ہوئے مشرقی ادبیات سے متصل جملہ سرمائے کو از سرِ نو نو وارد کسوٹی کے سخت اُصولوں سے گزار کر اُردو ادبیات کو تقابل ادبیات کے معیار کے نزدیک تر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ذاتی دلچسپی اور خانگی معاملات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ملازمت میں ترقی سے بے نیاز ہو نا پڑے گا۔ اس کے لیے عمر کا بقیہ حصہ لائبریری میں گزارنا ہوگا۔ اس کے لیے بدیسی زبانوں کی مبادیات سے متعارف ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے پہلے سے پڑھا ہوا، سمجھا ہوا اور سیکھا ہوا بُھلانا پڑے گا۔ ظاہر ہے، یہ سب کچھ آپ سے نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ یہی کہہ کر پتلی گلی نکل جائیں کہ اس شخص کو پڑھنے کا کیا فائدہ۔ یہ تو مشکل لکھتا ہے، سمجھ میں نہ آنے والا لکھتا ہے۔ پتہ نہیں کیا لکھتا ہے۔ اللہ جانے کیا لکھتا ہے۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat