Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Darpok Maaon Ke Buzdil Bache

Darpok Maaon Ke Buzdil Bache

ڈرپوک ماؤں کے بُزدل بچے

مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتا، اِسے کہو کہ میں میرا گھر چھوڑ دے، میں اسے ایک منٹ مزید برداشت نہیں کر سکتا، دونوں ماں بیٹا میرے سامنے خاموش بیٹھے تھے، میں حیران تھا، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس صورتحال میں بچے اور اِس کی والدہ پر دُکھ اور رنج سے برسنے والے باپ کو کیا کہوں۔ وہ غصہ میں آگ بگولہ ہو رہا تھا، میں نے محترم کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کسی طرح میری باتوں سےقائل نہ ہوا۔

محترم نے ایک لمبی کہانی اپنے دُکھوں، پریشانیوں اور مصائب کی اپنے اکلوتے بچے اور اس کی والدہ کے سامنے سنائی مجھے سنائی اور پھر اس کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ اذیت سے کراہتا ہوا باپ بار بار یہی کہ رہا تھا کہ ان دونوں نے مجھے بے عزت کروا دیا ہے، مجھے آج تک بتایا ہی نہیں گیا کہ میرا بیٹا گھر اور باہر کیا تماشتہ کرتا پھرتا ہے۔ میں جب گھر آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ نورِ چشم کمرے میں موبائل لے کر بیٹھا ہے اور پوچھنے پر بتاتا ہےکہ پاپا! سبق یاد کر رہا ہوں، اب مجھے کیا پتہ کہ موبائل میں کون سا سبق یاد ہوتا ہے، بیگم صاحبہ سے پوچھتا ہوں کہ کچھ پڑھتا بھی ہے یا ہر وقت موبائل دیکھتا رہتا ہے۔

بیگم صاحبہ کا ایک ہی جواب ہوتا کہ آپ کو گھر میں آتے ہی اور کوئی کام نہیں، ننھی جان کے پیچھے پڑ جاتے ہو، ایک سوال بار بار کیوں پوچھتے ہو کہ بیٹا کیا کر رہا ہے، آپ بے فکر رہیں، بچہ ہے، پڑھ رہا ہے، اس عمر کے بچے ایسے ہی پڑھتے ہیں، ہمارا زمانہ اور دور ختم ہوگیا ہے، اب وقت بدل چکا ہے اور بچے بھی بدل گئے ہیں، انھیں اپنی مرضی کرنی ہے۔ اتنا کہہ لینے کے بعد محترم خاموش ہو گئے، پانی کا گلاس پیا، پھر مجھے متوجہ کرکے کہنے لگے۔

اُستاد جی! میں چِٹّا ان پڑھ بندہ ہوں، ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، ماں باپ غریب تھے، حالات اتنےخراب تھےکہ ہم بہن بھائیوں کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی تھی، باپ نے دو چار جماعتیں پڑھا ئیں، حالات سے تنگ آکرایک دن کہا کہ بچوں! مجھ سے آپ کی روٹی پوری نہیں ہوتی، کتابیں، فیس، تعلیم کا خرچہ کیسے اُٹھاؤں گا، سکول چھوڑ دو اور میرے ساتھ کام پر چلو تاکہ ہم پیٹ بھر کھانا کھا سکیں۔

اُستادجی! تب سے اب تک محنت مزدوری کرتا رہا، بہن بھائیوں کو بیاہا، پھر اپنی شادی کی، اپنے لیے گھر بنانے کی نوبت نہیں آئی، کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، اس خبیث کے علاوہ تین بیٹیاں بھی ہیں، وہ بھی اس کی حرکات دیکھ کر بدتمیز ہوتی جارہی ہیں۔ مجھے لگتا تھا کہ اللہ نے ایک بیٹا دیا ہے تو چلو کوئی بات نہیں، اس کے لاڈ لڈاتے ہیں لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ہمیں بے عزت اور بدنام کرے گا۔

آج مجھے پتہ چلا کہ یہ کمرہ جماعت میں ننگی وڈیو دیکھتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اور مجھے لگا کہ میری ساری ایمانداری اور دیانت داری مٹی میں مل گئی ہے۔ میں نے اپنی بیوی کو گھر میں فری ہینڈ دیا ہوا ہے اور اسے ایک ہی بات سمجھائی ہے کہ اولاد کو پڑھانا ہے، میں خود کو قربان کردوں گا، ذبح ہو جاؤں گا لیکن تم نے انھیں ہر حال میں پڑھانا ہے تاکہ یہ کچھ بن جائیں۔ میری عمر تو گدھے کی طرح وزن ڈھوتے گزر گئی ہے لیکن یہ تو کسی اچھی جگہ پر پہنچ جائیں۔

آج مجھے اپنی بیوی پر بیٹے سے زیادہ غصہ آرہا ہے، اس نتیجے کی ذمہ دار میری بیوی ہے جس نے بیٹے کو لاڈ پیار میں اتنا بگاڑ دیا کہ یہ مجھے آنکھیں دکھاتا ہے اور میری ٹکے کی عزت نہیں کرتا، میں ان دونوں کو گھر سے نکال دوں گا اور اس کو تو سیدھی طلاق دوں گا کہ یہ اب میرے ساتھ نہیں رہ سکتی، اتنا کہنے کے بعد وہ صاحب پھر رونے لگے، صورتحال کو سنبھالنا میرے لیے ناممکن ہوگیا، میں مصنوی کھانسی کا بہانہ کرکے آفس سے باہر نکلا، لمبی سانس لی اور دل میں کہا، اس بے چارے کو کیا علم کہ یہ قصے روزمرہ کے ہیں، سیکڑوں کیس اس نوعیت کے روزنہ سکول، کالجز اور اکیڈمیز میں سننے، دیکھنے اور بھگتنے کو ملتے ہیں۔

پانچ منٹ بعد میں واپس آیا اور سیدھا خاتون سے مخاطب ہوا، بہن! دیکھیں، غلطی آپ کی ہے، آپ نے اولاد کو اتنا سر پر چڑھایا ہے کہ اب یہ رسوائی کا سبب بن رہی ہے، آپ نے بچے کو کیوں اتنی ڈھیل دی کہ آج آپ سب کو پالنے والا میرے سامنے شرمساری میں غرق ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا کرے۔ خاتون خاموش رہی اور اُس نے کچھ نہیں کہا، اس کی خاموشی میں کیا راز تھا، یہ میں پوری طرح سمجھ رہا تھا لیکن میں کوئی رائے قائم کرنے اور اپنی طرف سے کچھ کہنے سے گریزاں رہا۔ خیر جیسے تیسے محترم کو تسلی دی اور اُسے یقین دلایا کہ آپ کا بچہ آج کے بعد ہمارے ادارے میں نہیں آئے گا، آپ اس کی ہوم ٹیویشن ارینج کر لیں، داخلہ ہم بھجوا دیں گے، اس سے آگے ہمارے ادارے کے قانون کی حد حائل ہے، میں معذرت خوا ہ ہوں۔

یہ ایک قصہ ہے جو تمہید کے طور پر بیان کیا ہے، کرونا وبا کے اوائل دنوں میں حکومتِ پاکستان نے ہوم سکولنگ کے پیشِ نظر تعلیمی اداروں کو حکم صادر کیا تھا کہ تمام بچوں کو اساتذہ موبائل پر گھر سے ایجوکیٹ کریں گے۔ محنت کش مزدروں، مِل ملازمین، خوانچہ فروش، بھیگ مانگنے والے اور قرض لے کر گزارہ کرنے والے ہزاروں گھروں کے وارثان یعنی والدِ محترم نے اپنے بچوں کو جیسے تیسے موبائل خرید کر دئیے، موبائل کے ساتھ انٹر نیٹ پیکج بھی دیا۔

بچوں کی تو چاندی ہوگئی، اس وبا نے جہاں کڑوروں انسان کو موت کے گھاٹ اُتارا اور اربوں انسانوں کی زندگی کو متاثر کیا وہاں پاکستانی تباہ حال معاشرے کو یہ وبا، جونک کی طرح چپک گئی ہے، اس وبا کی ایک شکل پورنوگرافی ہے جس کی لامحدود فری ایکسس نے ہمارے بچوں کی معصوم جوانی اور تعمیری صلاحیتوں کو زنگ آلودہ کر ڈالا ہے۔ سکول، کالجز، یونیورسٹیز، کوچنگ سنٹر زاور اکیڈمیز وغیرہ میں بچے موبائل کے اس قدر ایڈکٹڈ ہیں کہ موبائل کے بغیر ان کا سانس بند ہو جاتا ہے۔ بچے سے موبائل چھیننے کا مطلب اپنی بے عزتی کو دعوت دینا ہے۔

حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پورن دیکھنے والے افراد کی عمر نو برس سے پچیس برس تک 80 فیصد بتائی گئی ہے، یہ شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ یہ عمر ایک بچے کی سیکھنے سے ملازمت میں جانے کی کل مدت ہوتی ہے۔ پاکستان میں بچوں کی ذہنی، اخلاقی، سماجی اور تہذیبی تباہی کی ذمہ دار ی، سیاست دانوں کی ایک دوسرے کو لعن طعن، دین سے بیزار مساجد کے امامین، سوشل میڈیا کی حرام اُولاد اور گھر میں قید ہاوس وائف یعنی ماں ہے جس کے اختیار میں اس کے خاوند نے پوری اُولاد کی نوکیل دی ہوتی ہے۔

مرد پیسہ کمانے کی مشین ہے جسے ہر وقت پیسہ کمانا ہے، اس کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ اپنا منہ دُھو سکے، کسی دن اپنی مرضی سے کام کی چھٹی کرے اور اپنے بچپن کے دوستوں اور عہدِجوانی کے ہم نشینوں سے ملاقات کر سکے۔ صبح، دوپہر، شام اور رات گئے تک یہ کام کرتا ہے اور جیسے تیسے گھر کو چلا رہا ہے۔ سکول کی فیس، اکیڈمی کی فیس، ہوم ٹیوشن کی فیس، کتابوں کا خرچ، بچوں کے موبائل کا خرچ، پک ڈراپ کا خرچ، بچوں کی پاکٹ منی، سیر و تفریح سمیت جوتوں کپڑوں کا خرچ، گھر کا کرایہ، بجلی، پانی، سوئی گیس کا بل، اعزا کی وفات پر جانے اور خوشی میں شرکت کرنے کا خرچ، بچوں کی بیماری اور حادثاتی و اتفاقی خرچ، گویا خرچ ہی خرچ، ایک شادی شُدہ مرد کی زندگی دو کمروں میں پلنے والے تین چار بچوں کی پرورش میں خرچ بن کر رہ جاتی ہے۔

پاکستانی بچوں کو تباہ کرنے میں جہاں دیگر عوامل پیش پیش ہیں وہاں پاکستان کی مائیں اس معاملے میں انتہائی ڈرپوک اور غفلت کا شکارپائی گئیں ہیں، ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکات و سکنات نے بچوں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ کو میری باتوں پر غصہ آرہا ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے، ماں کے پاس اپنی ساس، سُسر، نند کے جھگڑوں کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے، اس کی باتیں سُنیں تو معلوم ہوگا کہ پورا گھر اسی کے کندھوں پر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرےمیں کام کاج اور ذمہ داریوں میں مرد و عورت میں مصنوعی تفریق کو روا رکھا جاتا ہے، عورتوں کو گھروں میں قید رکھاجاتا ہے، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے، ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے، ان کی زندگی دوزخ کا نقشہ پیش کرتی ہے، یہ خوشی، چین اور آرام کو ترس جاتی ہیں۔

یہ سبھی باتیں اپنی جگہ درست ہی، اس زیادتی کا قلع قمع ہو نا چاہیے، معاشرتی قوانین اور دستور سے بالاتر ہو کر فطرت کے اصول پر مر داور عورت کو ٹٹولنا، پرکھنا اور آنکنا چاہیے، دونوں کے کام، ذمہ داری اور فرض کو متعین کرنا چاہیے، اسی کے مطابق ان کی باز پُرس ہونی چاہیے اور انھیں ذمہ دار اور قصور ٹھہرایا جانا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ ایک مرد جس نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم وتربیت اور پرورش کی ذمہ داری اپنی بیوی پر ڈالی ہے اور خود بیوی بچوں کے ممکنہ اخراجات کے لیے رزق کمانے کا ذمہ لیا ہے تو پھر عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرض کو ممکنہ حد نبھاہنے اور ادا کرنے کی کوشش کرے۔ بچے ہر وقت کسی نہ کسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں، انھیں گھر سے باہر کی دُنیا کا علم نہیں ہوتا، روپے کی قدر اور دولت کو کمانے کی اذیت سے یہ ناواقف ہوتے ہیں، ایک کامیاب گھر وہی ہے جہاں میاں اور بیوی دونوں گھر کےمجموعی ماحول کو مثبت، تعمیری اور سازگار رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی کی پاکستانی ڈرپوک ماؤں نے بزدل بچوں کو جنم دیا ہے، یہ ڈرپوک مائیں خاص طور سے بیٹوں کو سینے سے چپکائے ہوئے ہیں، انھیں لڑکی بنا کر گھر میں رکھا ہوا ہے اور ان کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کرتی ہیں اور خاوند کو اس کی جملہ حرکات و سکنات اور معاملات کی خبر نہیں ہونے دیتی اور ہر بات پر پردہ ڈالتی ہیں اور جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اور چاند چڑھ جاتا ہے تو صاف پتلی گلی نکل جاتی ہے اور سارا قصور شریکوں، ہمسایوں، اعزا اور دیگر عناصر پر ڈال دیتی ہیں اور خود معصوم بن جاتی ہیں اور رو دُھو کر سچی ہو جاتی ہیں۔ جب ماں یہ کہتی ہے کہ بیٹا، باہر نہیں جانا، حالات خراب ہیں، گھر میں بیٹھو اور جو چاہیے مجھ سے مانگو، میں دوں گی، تو یہ جان لیجیے کہ وہ لونڈا کبھی باہر نہیں جائے گا، آپ کا لہو پیے گا، آپ کا جسم کاٹ کاٹ کر کھائے گا کہ اس ناسور کوآپ نے خود گھر میں پالا ہے اور خراب کیا ہے۔

لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں خراب ہونے کے مواقع دستیاب ہونے کے باجود انھیں بُری عادات و حرکات میں مبتلا ہوتے کم دیکھا گیا ہے، جبکہ لڑکوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں اور باپ دونوں کو اپنی اولاد کی پرورش، تربیت اور تعلیم کی تمام تر ذمہ داری خودلینا ہوگی۔ آپ دولت کمانے کے چکر میں پڑے ہیں، دُنیاوی دولت کی فراوانی سے اُولاد کبھی خوش نہیں ہوگی۔ انھیں تعلیم کی دولت سے مالامال کریں تاکہ یہ اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کے لائق ہو سکیں، ان کے اخلاق درست کریں، انھیں وطن سے محبت اور دین سے رغبت سکھائیں انھیں ایک اچھا انسان بننے پر محنت کریں، ان کی زبان اور ہاتھ سے دوسروں کی عزت اور گریبان محفوظ ہونے کی پوزیشن میں انھیں لائیں۔

بطور والدین آپ کی کامیابی اُس دن تسلیم کی جائے گی جس دن آپ کی پشت پیچھے آپ کی اولاد آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کرے اور آپ کے اعزا و اقارب اور دوست احباب اس بات کے گواہ ہوں۔ یادرکھیے! آپ نے جو بویا ہے، وہی کاٹنا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ گندم کاشت کریں اور مکی کی فصل اُگ آئے۔ اُولاد کی کامیابی آپ کی کامیابی ہے اور اُولاد کی ناکامی آپ کی ناکامی ہے، کامیابی کا انعام ہے اور ناکامی کی سزا ہے جو یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra