Amran Ko Aashiqi Ne Nahi Mara
امرن کو عاشقی نے نہیں مارا
گاؤں میں سردیوں کی راتیں بڑی بھیانک ہوتی ہیں۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔ آٹھ بجے کے بعد کوئی باسی یا راہ گیر بازار میں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ رات معمول کے مطابق نہ تھی۔ ہر شخص دوسرے سے پوچھ رہا تھا، کیا واقعی نصیبے نے اپنی بہن کو مار ڈالا ہے؟ ہُو کا عالم تھا، کوئی زبان کھولنے کو تیار نہ تھا۔ سبھی جانتے تھے کہ نصیبے نے ہی اپنی بہن کو مارا ہے لیکن زبان پر یہ بات لانے کو کوئی تیار نہ تھا۔ نصیبے نے اپنی بہن کو کیوں مارا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں آتے ہی خوف سے بدن میں سنسنیاں آنے لگتی تھیں۔ میں کوئی پانچ چھے برس کا ہوں گا جب یہ واقعہ گاؤں میں پیش آیا تھا۔
اماں سے پوچھا کہ نصیبے نے اپنی بہن کو کیوں مار ڈالا؟ اماں نے پہلے تو جھڑک دیا پھر میرے بار بار اصرار کرنے پر بتایا کہ جو بہنیں گندی ہوتی ہیں اور ماں باپ کا کہنا نہیں مانتی، اُن کے بھائی اُنھیں مار ڈالتے ہیں۔ میں نے کہا، اماں! میری بہنیں بھی تو گندی ہیں، وہ صاف سُتھری نہیں ہیں، اُن کے ہاتھ پاؤں میلے کُچلیے اور بال بکھرے رہتے ہیں، پندرہ دن کے بعد بھی نہیں نہاتیں، اماں نے طمانچے دار تھپڑ میرے منہ پر رسید کیا۔ میں ہکا بکا اماں کی طرف دیکھنے لگا اور رونے لگا۔ اماں نے جی بھر کر مجھے لعن طعن کی اور کہا کہ دفعہ ہو جا، گندی اُولاد پیدا کر لی ہے وغیرہ وغیرہ۔
میرے ذہن سے یہ سوال غائب ہی نہیں ہو رہا تھا، دادی کو ساری بات معلوم تھی، انھوں نے مجھے پُچکارا اور کہا کہ میرے پاس آو میں تمہیں بتاتی ہوں کہ نصیبے نے اپنی بہن کو کیوں مارا ہے۔ دادی نے مجھے اپنے پلنگ پر چڑھا کر گود میں لیا اور کہنے لگی۔ بات یہ ہے کہ نصیبے کی ایک بہن تھی جو اِس کی مرحوم والدہ نے مزاروں پر دُعائیں مانگ مانگ کر اللہ تعالیٰ سے لی تھی۔ میں نے کہا: مزاروں پر دُعائیں کرنے سے بہن مل جاتی ہیں تو ہم بھی صبح جا کر لے آتے ہیں۔
دادی نے کہا، ایسے نہیں ملتی، اس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مجھے سوال کرنے کی عادت تھی جو دادی اماں نے ہی ڈالی تھی اور وہ خود میری اس عادت سے تنگ بھی تھی۔ دادی نے کہا، پہلے سوال کا جواب تو سن لو پھر دوسرا سوال کرنا۔ بات کرتے ہوئے بیچ میں ٹوکتے نہیں ہیں بلکہ پوری توجہ سے جواب سنتے ہیں پھر سوال کرتے ہیں۔ دادی اماں نے کہا، نصیبے گھر کا بڑا بیٹا تھا، جس کی ایک ہی بہن تھی جس کی پیدائش پر اس کی ماں زچگی کی حالت میں چل بسی تھی، نصیبے نے بہن کو ماں بن کر پالا پوسا تھا۔ دونوں بہن بھائی گھر میں رہتے اور رشیدا (نصیبے کا ابا) چھوٹی موٹی ملازمت کرکے ان کا پیٹ پالتا تھا۔
چند سال یہ سلسلہ چلا، رشیدا پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر دُنیا سے منہ موڑ گیا۔ نصیبے اور اس کی اکلوتی بہن کے علاوہ کوئی اور ان کا سہارا نہ تھا۔ نصیبے نے بہن کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا، اس نے سفر و حضر میں بہن کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا، اسی طرح دن گزرتے چلے گئے۔ امرن یعنی نصیبے کی بہن جب سولہویں سال میں داخل ہوئی تو حُسن و شباب نے مل کر ایسا الاؤ روشن کیا کہ چہار عالم کے بھنوروں نے اس کی تپش کو محسوس کیا۔
نصیبے کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ میری بہن ماں پر گئی ہے اور نین نقش میں اپنی مثال آپ ہے۔ نصیبہ بہن کو اپنے گھر بار والی کرنے کا سوچتا رہتا۔ گاؤں کے لونڈے لپاڑے آئے روز بہانے بہانے سے نصیبے سے یاری کا دم بھرنے لگے اور ساتھ جینے مرنے کی قسموں سے اس کا جی بہلا کر گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتے لیکن نصیبہ سمجھ دار تھا، کسی کی باتوں میں نہیں آتا تھا۔
ایک روز نصیبے کو شہر میں جائیداد کے تنازع میں عدالت جانا پڑا۔ اس نے امرن کو سخت تاکید کہ خبردار کسی کو گھر میں نہیں آنے دینا اور کوئی کچھ بھی کہے، کسی کے گھر نہیں جانا، ریشماں بوا کو میں نے کہہ دیا ہے وہ سارا دن تمہارے ساتھ گھر میں رہے گی۔ تم جانتی ہو، تمہارے سِوا میرا کوئی نہیں ہے، اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا۔
امرن نے بھائی کو اس وعدے کے ساتھ رخصت کیا کہ آپ کی عزت پر حرف نہیں آئے گا اور میں گھر میں ہی رہوں گی اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو میں ریشماں بوا کو بلوا لوں گی۔ نصیبے کو جب بہن کی طرف سے اطمینان ہوگیا تو شہر جانے والی بس کے انتظار میں پگڈنڈی پر پیدل چلتا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
امرن ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ میں ریشماں بوا کو جا کر بلوا لاتی ہوں تاکہ بے فکر ہو کر گھر کا کام وام کر سکوں۔ امرن نے جب عاشقی کو دیوار پھلانگتے دیکھا تو اس کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے زور سے چیخ ماری اور خوف سے اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔ عاشقی نے آن کی آن میں امرن کو بھیڑیے کی طرح دبوچ کر چارے والے بوسیدہ کمرے میں گھسیٹ کر لے۔ یا، امرن کی چیخ و پکار سُن کر اِرد گرد کے دو چار لوگ مدد کو دوڑے مگر عاشقی کا نام سُن کر اُلٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔
کسی کی جرات نہیں تھی کہ عاشقی کے سامنے ٹھہر سکے۔ عاشقی گاؤں کا بدمعاش تھا جس کے تایا نے ان کے حصے کی زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا، اس قبضہ کو چھڑانے میں عاشقی کے دو سگے بھائی تایا کے بیٹوں کے ہاتھوں دن دیہاڑے قتل ہوئے تھے۔ اس کی بہن کو شریکے کے سامنے بے آبرو کیا گیا تھا، عاشقی کی والدہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی، اس دن گاؤں میں پانچ جنازے ایک ساتھ اُٹھے تھے، قہر ہی قہر تھا، آسمان سارا دن سُرخ رہا اور شام کے وقت زور دار آندھی آئی، یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے انگارے برس رہے ہوں اور خون کی بارش نے غیرت کو شرابور کر دیا ہو۔
یہ دن کسی کو نہیں بھولتا، عاشقی کو جنازہ کی نماز کے دوران پولیس والوں نے پکڑ لیا اور تھانے میں لے جا کر جھوٹ موٹ کے کیس بنا کر عدالت سے بیس سال کی قیدِ بامشقت کروا دی۔ عاشقی کے دوستوں نے اس کی مدد کرنا چاہی لیکن عاشقی کو قید سے کوئی نہ بچا سکا۔ نصیبہ عاشقی کا بچپن کا دوست تھا، نصیبہ کا والد عاشقی کے والد کے ہاں مزارع تھا، عاشقی نے نصیبے کو کہا کہ میری مدد کرو اور میرے حق میں گواہی دو، نصیبے کے والد نے عاشقی کے تایا کے بیٹوں کے خوف اور جان سے مارے جانے کی دھمکی سے ڈر کر عدالت میں گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عاشقی نے جیل سے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ تم لوگ نمک حرام نکلے ہو، میں تم لوگوں کو کبھی نہیں چھوڑوں گا، پہلے میں تایا کا پورا خاندان قتل کروں گا پھر تمہارا صفایا کروں گا۔ عاشقی جو کسی زمانے میں معصوم بچہ تھا، اس کی شرافت اور نیک نامی پورے گاؤں میں مشہور تھی، آج وہ گاؤں کا سب سے بڑا بدمعاش مشہور ہو چکا تھا۔ عاشقی نے دو سال جیل میں کاٹے، جب معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا تو جیل میں موجود دیگر قیدیوں کے ساتھ مل کر جیل سے بھاگنے کا منصوبہ بنایا۔
عاشقی کی قسمت اچھی تھی، ایک رات جب موسم خراب تھا اور شدید آندھی چل رہی تھی، عاشقی نے موسم کی خرابی سے فائدہ اُٹھا کر جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی، جیل پولیس کو عاشقی کی حرکات پر پہلے سے شک تھا لیکن وہ بھی موقع کی تاک میں تھی کہ اسے ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیں گے۔ فرار کے دوران عاشقی کی ٹانگ میں گولی لگی اور باقی چھے لوگ جو اس کے ساتھ بھاگے تھے وہ سبھی مارے گئے۔
پانچ سال تک کسی کو کچھ علم نہ تھا کہ عاشقی مر گیا ہے یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے۔ گاؤں میں عاشقی کے نام کی اس قدر دہشت تھی کہ لوگ شام ہوتے ہی اپنے بچوں اور مال و اموال کو مقفل کرکے سوتے تھے، ایک بندہ رات بھر جاگ کر اپنے گھر، بچوں اور بیٹیوں کی حفاظت کرتا تھا۔ گاؤں میں مشہور ہو چکا تھا کہ عاشقی نے ایک جھتہ تیار کیا ہے اور یہ رات کے پچھلے پہر چودھیریوں، وڈیروں اور امیروں کے گھروں کو لوٹتا ہے، جوان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور جاتے ہوئے سونا زیورات جو کچھ ہاتھ لگتا ہے، لے جاتا ہے۔
گاؤں میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ عاشقی نے اپنے تایا کے تین بیٹوں کو جو گاؤں چھوڑ کر خفیہ ٹھکانے میں پناہ لیے ہوئے تھے، انھیں ڈھونڈ کر دن دیہاڑے ملتانی نہر کے کنارے مار ڈالا ہے اور نعشوں کو اوندھا کرکے نہر میں لٹکا دیا ہے۔ پولیس کُتوں کی طرح گھر گھر تلاشی لے رہی ہے اور معمولی شک پر گاؤں سے پچاسوں لڑکوں کو اُٹھا کر لے گئی ہے اور مار پیٹ کر رہی ہے کہ عاشقی کے ٹھکانے کا پتہ بتلاؤ۔
عاشقی کو اِس بات کا پتہ ہے کہ اب اسے کسی وقت بھی مارا جاسکتا ہے، اس کی ہر سانس موت کے حصار میں کھنچتی چلی جاتی ہے، عاشقی نے نصیبے کو جو دھمکی دی تھی اُس پر کیسے نہ پورا اُترتا، یہ خون کی ہولی عاشقی نے کل سہ پہر اُس وقت کھیلی جب نصیبہ عدالت کی پیشی پر گیا ہوا تھا۔ عاشقی جس وقت امرن کو تنہا پر کر کمرے میں گھسیٹ کر لے جار ہا تھا، اُس کی چیخ وپکار سے پاس پڑوس والے دوڑ کر آئے ضرور تھے لیکن کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ امرن کو عاشقی سے بچا سکیں۔
عاشقی نے نصیبے کی بہن کو بے آبرو کرنے کی بجائے اِسے بہت سا سونا، نقدی روپے اور قیمتی جوہرات دے کر گھوڑی پر بیٹھا اور جھتے کے ہمراہ ہوا ہوگیا۔ پاس پڑوس والوں نے امرن کو کمرے میں رونے پیٹنے کی بجائے خاموشی سے باہر نکلتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ عاشقی نے اسے کچھ نہیں کہا، آس پڑوس والوں نے امرن سے پوچھا کہ عاشقی نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ امرن نے کہا کہ اُس نے مجھے بہن کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میری فاتحہ دلوانا اور نصیبے کو یہ کہنا کہ بے شک تو نے میری مدد نہیں کی لیکن میں آج بھی تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہوں اور تمہاری عزت میری عزت ہے۔
محلے والوں نے امرن کی با ت پر یقین نہیں کیا اور اسے کہا کہ ہم نہیں مانتے کہ عاشقی نے تمہیں کچھ نہیں کہا اور تمہیں بخش دیا ہے۔ امرن نے اپنی بے گناہی ثابت و ظاہر کرنے کے لیے عاشقی کے دیے ہوئے قیمتی جواہرات اور نقدی روپے کی پوٹلی کھول کر دکھادی، جواہرات اور نقدی روپے کے نئے نوٹ دیکھ کر بھوکے گیڈر کی طرح لوگ امرن پر جھپٹ پڑے اور سب کچھ اس سے چھین لیا۔ امرن رونے لگی اور چیخنے چلانے لگی، امرن کی چیخ وپکار سُن کر گاؤں کے سیکڑوں لوگ اکھٹے ہوگئے، بات پر بات چلی تو پتہ چلا کہ امرن کا عاشقی سے چکر ہے اور رات کے پچھلے پہر عاشقی امرن کے پاس آتا ہے اور جو کچھ لوٹ کر لاتا ہے وہ امرن کو دے جاتا ہے اور یہ میسنی چپ چاپ سارا مال ہضم کر رہی ہے۔
لوگوں نے امرن کو بہت مارا پیٹا اور ادھ مُوا کرکے گھروں کو رخصت ہوگئے، نصیبہ جب دن ڈھلے گھر واپس آیا تو اس نے بہن کو پھٹے حال دیکھا، اس کے کان میں ہر طرف سے یہی آواز پڑتی تھی کہ اس کا عاشقی سے چکر ہے اور اس نے تمہیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، تمہاری غیر موجودگی میں یہ عاشقی سے پیار کی پینگیں بیلتی ہے، اسے جینے کا کوئی حق نہیں، اسے مار ڈالو، نصیبے نے غصے کے عالم میں امرن کی بات سُنے بغیر اُسے تیز دھار خنجر سے سب کے سامنے مار ڈالا، پولیس کو عاشقی کی واردات کے اس وقوعہ کی اطلاع پہلے سے ہوچکی تھی، پولیس نے بر وقت کارروائی کرکے نصیبے کو گرفتار کر لیا اور نامعلوم مقام پر لے جا کر اسے غائب کر دیا ہے۔
امرن کو مرے کئی پہر گزر چکے، کوئی دفنانے کو راضی نہیں ہے۔ نصیبے کا پتہ نہیں کہ پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ عاشقی کو جب اس بات کا پتہ چلے گا تو گاؤں پر کیا قیامت ٹوٹے گی، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ سارا گاؤں خوف کے عالم میں گھروں میں دُبکا پڑا ہے۔ ہنستے بستے گھر زمین کے لیے زمین میں دفن ہوئے جاتے ہیں۔ موت برحق ہے لیکن ایسی برحق موت کو حق مت کیسے کہا جاسکتا ہے!