Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Hassan
  4. Social Media Aur Reels, Haqeeqat Ke Aeine Mein

Social Media Aur Reels, Haqeeqat Ke Aeine Mein

سوشل میڈیا اور ریلز، حقیقت کے آئینے میں

گھر میں فارغ ہیں! تو ریلز

سفر کر رہے ہیں! تو ریلز کی سکرولنگ

کسی محفل میں دو منٹ فراغت کے میسر آجائیں تو ریلز!

بلکہ اب تو معدہ بہتر ہاضمے کے لئے جنس اور عمر کی تمیز کئے بغیر روڑی کے ساتھ ساتھ کونٹینٹ کا بھی متقاضی ہوتا ہے ہوئے تاکہ نظام انہضام اپنی بہترین ممکنہ کارکردگی پر کام کرسکے کیونکہ اس کے بغیر روٹی ٹھیک سے ہضم نہی ہوتی۔

دو دو، چار چار تو کوئی چھے چھے گھنٹوں بلکہ اقبال کے کچھ شاہین تو اس سے بھی ذیادہ کا وقت شارٹس(Shorts) یا ریلز (Reels) کے گوش گزار کرتے ہے۔

پہلے پہل کونٹینٹ موویز کی شکل میں نشر ہوتا تھا جو گھنٹوں پر محیط ہوتا تھا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ڈیلی موشن اور یو ٹیوب آیا جس میں کونٹینٹ گھنٹوں سے سمٹ کر منٹوں میں منتقل ہوگیا۔ معاشرے میں مزید جدت آئی تو پھر وائن (Vine) نامی پلیٹ فارم کی سہولت میسر آئی جس میں لوگ 6 سیکنڈ تک کی ویڈیوز بنایا کرتے تھے اور یوں لوگوں کے اٹینشن سپین (Attention Span) سکڑنا شروع ہو گئے۔ ستم بالا ستم یہ کہ پھر آئے میوزک-لی (Music.ly) اور ڈب-سمیش (DubSmash) جیسے پلیٹ فارمز جن میں میوزک کے اوپر لپسنگ (lips-syncing) اور رقص جیسی سہولت میسر آئی۔ چونکہ انٹرٹینمنٹ کچھ سیکنڈز میں ہی میسر آجاتی تھی اس لیے ان پلیٹفارمز کو عوام میں بےحد پزیرائی ملی۔

2017 میں ٹک ٹاک (Tiktok)کی موجد اور بانی بائٹ ڈانس (Byte Dance) نامی ایک کمپنی نے میوزک۔ لی (Music.ly) کو خرید کر اسے ٹک ٹاک (Tiktok) میں ضم کر دیا اور یوں TikTok کا طوطی بولنے لگا۔ فلوقت TikTok کے صارفین ایک بلین سے بھی تجاوز کر چکے ہیں۔ TikTok کی اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی ایپلیکیشن کے صارفین کے بھی اس پلیٹفارم پر منتقل ہونے کے خطرہ کے پیش نظر اور مستقبل کو بھانپتے ہوئے انسٹگرام، فیسبک اور اب تو یو ٹیوب میں بھی یہ فیچر ریلز اور یوٹیوب شارٹس کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

آج ایک شخص کا اوسط اٹینشن سپین (Attention Span) 8 سیکنڈز تک محدود ہوگیا ہے۔ سن 2001-2000ء کے موازنے میں یہ 25% سے بھی ذیادہ گر چکا ہے۔ اسی اٹینشن سپین کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ان پلیٹفارمز کے الگریتھم (Algorithm)کو ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

آخر کیوں ہم ریلز دیکھتے ہوئے بوریت کو محسوس نہیں کرتے؟ اور کیسے سکرولنگ کرتے کرتے گھنٹوں بیت جاتے ییں اور ہمیں وقت کا ادراک ہی نہی ہو پاتا۔

دراصل جب بھی آپ کوئی ریل دیکھتے ہیں تو آپ کے دماغ سے ایک کیمیکل خارج ہوتا ہے جسے ڈوپامین کہا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل آپ کو خوشی محسوس کرواتا ہے۔ یہ وہی کیمیکل ہے جو عموماََ تبھی ریلیز ہوتا ہے جب آپ اپنی پسند کا کھانا کھاتے ہیں، اپنا پسندیدہ میوزک سنتے ہیں یا کوئی آپکے لئے کوئی تعریفی کلمات کہتا ہے تو جو آپ کے اندر خوشی اور اچھے احساسات کی ایک واری لہر دوڑتی ہے وہ اسی کی بدولت ہوتی ہے۔ آپ انہی احساسات کو دوبارہ محسوس کرنے کی غرض سے ڈوپامین کے جال میں پھنس کر انٹرٹینمنٹ کے چکر میں سکرولنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ دوبارہ کوئی اچھی اور انٹرٹیننگ (Entertaining) ریل آئے، ڈوپامین ریلیز ہو اور ہمیں پھر سے وہی احساس اور ریوارڈ (Reward) مل سکے۔

ایک کے بعد ایک ریل اور پھر ان ریلز کا ناختم ہونے والا سلسلہ اس دوران آپ کو نہ تو انفارمیشن کو پرکھنے، جانچنے اور نہ ہی اس کو پروسس (Process) کرکے سٹور (Store) کرنے کا وقت ملتا ہے۔ نتیجتا وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ، غلط خبریں اور جھوٹے بنانیے کا پھیلاؤ بھی جنگل میں آگ کی طرح ہوتا ہے۔

اب تو لوگ اپنے لیڈران کا انتخاب بھی ان کی کارکردگی پر نہی بلکہ ان کی ریلز کی بنا پر کرتے ہیں۔ جس لیڈر کی سوشل میڈیا ٹیم نے جتنی منظم مہم چلا کر ذہن سازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اس کی عوام میں پزیرائی کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے۔ ریلز کے اسی عروج سے تنگ آکر اور لانگ فارم کونٹینٹ (Long-Form Content) کے زوال کے بدولت بہت سے پرانے اور نامی گرامی کریٹرز (Creators) نے بالخصوص وائنز (Vines) اور کمیڈی سکیچز (Comedy Sketches) کے کریٹرز نے کونٹینٹ کرئیشن (Content Creation) کو ہی خیر آباد کہ دیا ہے۔ کیونکہ نا تو اب پہلے جتنے ویوز رہے اور نہ ہی سپونسرز۔ برینڈز بھی اب ان پلیٹفارمز کی چکاچوند کو کو دیکھتے ہوئے ٹک ٹاکرز اور انسٹگرامرز کو اپنی پروڈکٹ کی تشہیر اور کمپینز (Campaigns)کے لئے ترجیح دے رہے ہیں۔

میرے نزدیک ریلز اور شارٹس سے کچھ بھی نہی سیکھا جاسکتا کیونکہ 20-30 سیکنڈ میں آپ اور میں کیا ہی سیکھ سکتے ہیں اور غلطی سے کچھ اچھا آبھی گیا تو آپ کی آنکھوں کی منتظر اگلی ریل آپ کی یادداشت میں موجود اس مواد کو بھی آپ کے ذہن سے محو کروا دے گی۔

اس کے مدمقابل یوٹیوب بہت فائدہ مند پلیٹ فارم ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ پھر چاہے وہ سکلز(Skills) ہوں یا تاریخ کا علم۔ سیاست، صحافت سے کے کر مذہب تک ہر ایک شعبہ ہائے زندگی پر مختلف سوچ اور زاویوں کے ساتھ ہر قسم کا کونٹینٹ موجود ہے۔ ڈاکیومینٹری، پاڈکاسٹ اور ٹریول-ویلاگ آپ کی معلومات میں بےحد اضافہ اور تجربہ مہیا کرسکتے ہیں۔

آخر میں اپنے قلم کی سیاہی سے بہتے الفاظ کو اس امید کے ساتھ روکتا چلوں کہ آپ اپنی زندگی میں سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو جاری رکھیں گے اور معاشرے کے لئے کچھ اچھا کرتے رہے ہیں گے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed