Insan Ki Pareshanian Aur Masail
انسان کی پریشانیاں اور مسائل
انسان جونہی ہوش سنبھالتا ہے، پریشانیوں اور مصیبتوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہو جاتا ہے۔ کبھی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا، تو کبھی اپنی قسمت کو روتا ہے۔ کبھی غم روزگار، تو کبھی اپنی محبت کے چھن جانے پر گریہ و زاری۔ لیکن کبھی انسان نے ان اسباب کے پیچھے چھپی حقیقت پر غور کیا کہ یہ سب واقعی حقیقت ہے یا اس کی تعفن زدہ سوچ کی وجہ سے اس کو وہی نظر آ رہا ہے جو وہ ایک لوپ کی صورت میں تسلسل کے ساتھ سوچتا چلا جا رہا ہے۔
اول تو ہمارے معاشرے میں چیزوں کو صحیح یا غلط کے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور غلطی کو ایک گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ غلطی کو ایک عمومی سی چیز سمجھ کر اس کو قبول نہیں کیا جاتا بلکہ غلطی پر اس شخص کو ایسی ندامت سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ سو، نتیجتاً ایک شخص کوئی قدم اٹھاتے ہوئے بار بار یہ سوچتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو جائے۔ اگر غلطی نامی چیز کا معاشرے میں اتنا گلا گھونٹا جائے گا تو لوگ قدم (Step) کیسے اٹھائیں گے؟ سوائے چند ایک بے باک لوگوں کے ایک عام شخص کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے بیسیوں مرتبہ سوچے گا۔
دوم یہ کہ ہم لوگ آپرٹیونٹیز (مواقعے) کو تخلیق نہیں کرتے۔ ہم بذات خود موقعوں کے پاس چل کر نہیں جانا چاہتے ہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ چل کر ہمارے پاس آئیں۔ اور اگر آپ کے پاس آپرٹیونٹی چل کر نہ آئے تو اس کا نتیجہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ آپ اپنی قسمت کو کوستے ہیں اور آپ کو اپنے گردونواح میں گھٹا ٹوپ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مثلاََ آپ جاب کرنا چاہ رہے ہیں آپ کو ایک دو مقامات کا آپ کے دوست احباب نے مطلع کر دیا۔
عمومی ہم صرف انہں دو چار مقامات پر اپنی سی وی جمع کروا کر ان پر تقیہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہاں سے کوئی ہری بتی (Green Signal) نظر نہیں آتی تو ہم لال بتی (Red Signal) پر بوریا بسترا لگائے اپنی قسمت اور حکومتی نظام پر ملامت کر رہے ہوتے ہیں۔ روش تو یہ اختیار کرنی چاہیے کہ "All is Well" ہے۔ اور دیکھو کہاں کہاں پر آپرٹیونٹیز اور سپیس ہے اور جا کر مختلف جگہوں پر جہاں آپ کی جان پہچان ہو یا نہ ہو جاؤ اور جا کر اپنی سی وی جمع کروا کر آؤ اور ایک نہیں بیسیوں جگہوں پر جمع کرواؤ۔ ایک نہ ایک سے تو گرین سگنل ملے گا اور نہ بھی ملا تو نقصان کیا ہے آپ کا تو ایکسپوژر (Exposure) ہی بڑھے گا نہ۔
سوم یہ کہ اپنے ذہن سے شخصی خوف کو نکال دیں۔ کسی کے خوف کی وجہ سے کسی بھی اوپرٹیونٹی کو کھونا صرف اس خوف سے کہ وہ کیا سوچے گا تو اپنے مستقبل سے کھیل رہے ہو۔ اگر وہ آپ کے بارے میں سوچے گا یا آپ کا تمسخر اڑائے گا، یہ آپ کے اوپر ہنسے گا تو زیادہ سے زیادہ کتنی دیر؟ 1-2 منٹ یا زیادہ سے زیادہ 5-10 منٹ اور وہ بھی صرف ایک دن۔
محض ان 1-2 منٹ کی ہنسی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے آپ غالباً ایک ایسی اوپرٹیونٹی مِس کر رہے ہوں جو آپ کی زندگی کو یکسر پلٹ کر رکھ سکتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ یہ موقع اب آپ کی زندگی میں کبھی نہ آئے۔ اگر کوئی ہنستا بھی ہے خود کو یہ جواب دو کہ ٹھیک ہے "It's Okay" کیونکہ آپ اکیلے نہیں جو اس کا سامنے کر رہے ہیں، ہر کوئی اس سے گزرتا ہے بس آپ کی نظر اُس مذاق کے بعد حاصل ہونے والے اپنے فائنل رزلٹ (مقصد جو آپ چاہتے ہیں) کی طرف ہونا چاہئے۔
جناب، آپ بڑے سے بڑے بندے کے پاس چلے جائیں، خواہ وہ بلا کا موٹیویشنل اسپیکر ہی کیوں نہ ہو، جب وہ بھی پہلی مرتبہ اسٹیج پر جاتا ہے تو اس کا ذہن خالی (Blank) ہو جاتا ہے، وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس کی بھی ہارٹ بیٹ تیز ہوتی ہے، اس کے جسم میں بھی کپکپاہٹ ہوتی ہے، وہ بھی ایک دو مرتبہ اپنا مذاق اڑواتا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اپنے ڈر پر قابو پاتا ہے اور جب وہ بارہویں مرتبہ (12th Time) سٹیج پر چڑھ کر مخاطب ہوتا ہے تو وہ بلاخوف بہترین انداز میں گفت و شنید کر رہا ہوتا ہے۔ جب آپ اس کو سنتے ہیں تو آپ بیک اینڈ (Backend) پر جانے کی کوشش نہیں کرتے، آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اوائل سے اسی اعتماد کے ساتھ بولتا چلا آ رہا ہے، جب کہ حقیقت آپ کی سوچ کے برعکس ہوتی ہے۔
میں یہاں پر آپ کی توجہ بھارت کے ایک مایاناز موٹیویشنل اسپیکر سندیپ مہیشوری کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا۔ وہ جس انداز سے بولتے ہیں، بات سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے اور بہترین انداز سے بات کو سمجھاتے ہیں۔ آج بھی ان کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ جس میں وہ پہلی مرتبہ ایک سپیچ کرتے ہیں۔ جونہی وہ ڈائس پر کھڑے ہو کر کو لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو بلینک ہو جاتے ہیں، ان سے مارے خوف و ڈر کے کچھ بولا ہی نہیں جاتا اور ہال (Hall) قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے، لیکن آج اُسی سندیپ کو لوگ لاکھوں کی تعداد میں سنتے ہیں اگر وہ شخص اُس دن ہار مان جاتا تو آج اُس شخص کے لاکھوں چاہنے والے نہ ہوتے۔
آخر میں یہی گزارش کروں گا کہ سوچیں کم اور عمل زیادہ کریں اور لوگوں سے ڈر کر آوپرٹیونٹیز کو ضائع نہ کریں۔ اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اپنے دماغ سے یہی تکرار کریں کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور بس جانے دیں اور اپنی زندگی کو پر لطف بنائیں۔
یہاں پر اپنے الفاظ کے بہاؤ کو روکتے ہوئے آپ سے اجازت چاہوں گا۔