Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Hassan/
  4. Aik Tehreer Inqilab Ke Naam

Aik Tehreer Inqilab Ke Naam

ایک تحریر انقلاب عمران کے نام

عمران خان کا انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ اُس وقت ناکام ہوتا ہوئے نظر آیا جب 9 مئی کو لوگ اور خود خان صاحب اپنی گرفتاری برداشت نہ کر سکے اور لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا اور پھر اس احتجاج کے نتیجے میں لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنا اور عمران خان سے لا تعلقی کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔

اب آئیے ایک نظر دوڑاتے ہیں کہ انقلاب آتا کیسے ہے؟ اور خان صاحب کا انقلاب کیوں تقریباً ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں پر ایک بات عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ انقلاب کسی بھی ملک میں تب آتا ہے جب اس کی بنیاد کوئی مذہبی، سماجی یا فلاحی بہبود ہو اور اس کی جڑیں عام عوام میں ھوں۔ مثلاً اسلامی ایرانی انقلاب 1979۔

اب جس انقلاب کی بات خان صاحب کرتے ہیں اس کی بنیاد تو کرپشن ہے۔ بلاشبہ بنیاد تو بڑی زبردست تھی اور لوگوں نے اس پر لبّیک بھی کہا جس کے نتیجے میں خان صاحب نے اسلام آباد ڈی چوک میں 126 دن کا دھرنا بھی دیا اور دھرنا کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اور پھر عمران خان رفتہ رفتہ مقبول ہوتے گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ سے خان صاحب کی بھرپور میڈیا معاونت کی گئی جس کی وجہ سے خان صاحب کا بیانیہ پھیلتا گیا اور وہ 2018 تک خاصے مقبول لیڈر بن گئے اور 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی شفقت کے ساۓ میں خان صاحب نے الیکشن جیتا اور یوں وہ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔

اقتدار میں قدم رکھتے ہی خان صاحب کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ چوروں، لٹیروں اور کرپٹ لوگوں کے خلاف احتساب کا شکنجہ کستے لیکن ایسا بالکل بھی نہ ہوا۔ اقتدار آتے ہی ان کی انقلابی تحریک حقیقت کا روپ دھارنے کے برعکس ماند پڑتی گئی اور یوں انہوں نے احتساب کے لئے کوئی خاطر خواہ اقتدام نہ اٹھایا۔ بلکہ ان کے دورِ حکومت میں تو احتساب کے نام پر لوگوں سے انتقام لیا جاتا جیسے رانا ثناء اللہ پر منشیات کا کیس جن کے جھوٹے ھونے کا اقرار بعد ازاں خود ان کے وزراء نے کیا اور شاہد خاقان عباسی اور مفتاح کی گرفتاری جیسے اقدامات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

یہ خان صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر نہ صرف چوروں، لٹیروں کو فری ہینڈ دیا بلکہ خود ہی ان کو باہر جانے کی اجازت بھی دی کیونکہ اب اقتدار سے رخصتی کے بعد خان صاحب کے بقول جنرل باجوہ جو اس وقت آرمی چیف تھے کرپشن کو کوئی جرم ہی نا سمجھتے تھے اور وہ وہ ان لوگوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں اپنے ہی انقلاب اور تبدیلی کے نعروں کو خیر آباد کہنے والے خان صاحب کو جب اقتدار سے عدم اعتماد کے زریعے محروم ھونا پڑا تو خان صاحب کو دوبارہ سے اپنے انقلاب کی یادیں ستانیں لگیں۔ اپنے اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے چوروں کو سزاوں سے استثناء دینے والے خان صاحب نے اقتدار سے نکلتے ہی تمام الزامات اسٹیبلشمنٹ اور باجوہ صاحب کو دے کر خود بڑی الزمہ ہوگئے۔

خان صاحب میرے دو سوالات ہیں پہلا یہ کہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کو پریشرائز کر رہی تھی لیکن تب آپ کیوں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے نہ ہوئے اور اس وقت کیوں نہ لوگوں کو یہ بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ مجھے کام نہیں کرنے دی رہی اور میرے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔ تب آپ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتے ہوئے یہ فرماتے تھے کہ میں تمام فیصلے خود ہی صادر فرماتا ہوں۔ خان صاحب سے دوسرا سوال کہ خان صاحب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ دوبارہ سے اسٹیبلشمنٹ کے بہکاوے میں آکر چوروں اور لٹیروں پر نرمی نہیں برتیں گے۔

خان صاحب لوگوں کو انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ تو سکھا دیا لیکن یہ نہ بتا سکے کہ انقلاب کی راہ میں کون کون سی روکاوٹیں حائل ہوتی ہیں اور کس طرح جان، مال اور آسائشوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ خان صاحب سمجھتے تھے کہ صرف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنانے اور انٹرنیشنل میڈیا کی کوریج سے انقلاب لایا جا سکتا ہے لیکن جب سوشل میڈیا پہ باتیں کرنے والوں کے لئے قربانی کا وقت آیا تو سارے بھاگ اٹھے اور لگے خان صاحب سے لاتعلقی کا اعلان کرنے۔ وہ زمان پارک جو کبھی میلہ کا سا سماں پیش کرتا تھا، آج اس میں پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سنائیں دیتی ہیں۔ تبدیلی اور انقلاب اس وقت آتا ہے جب لیڈرز اور ورکرز ذہنی اور جسمانی طور پر ہر قسم کی تیاری کے لئے تیار ہوں نہ کہ ٹویٹر پر ہیش ٹیگ لگا کر انقلابی ٹویٹس کرنے سے۔

آخر میں اسی بات پر اجازت چاہوں گا کہ انقلاب سوشل میڈیا پر مخالفوں کو گالیاں دینے اور نعروں سے نہیں بلکہ میدانِ عمل میں دی جانے والی قربانیوں سے آتا ہے۔ وقت کے فرعون کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قربانیوں کو اپنے سینوں سے لگا کر مسلسل آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

Check Also

Lebanon, Arab Ki Wahid Esaayi Riyasat

By Mansoor Nadeem