Target Ke Hasool Mein Dua Ka Kirdar
ٹارگٹ کے حصول میں دعا کا کردار
آپ نےکوئی ٹارگٹ سیٹ کیا، اسےحاصل کرنےکے لیےتمام اسباب ترتیب دے لیےمگردعا کاہتھیار اس ترتیب میں شامل نہیں کیا یا آپ نےحصولِ مقصد کے لیےتمام تر انحصار اپنی دعاؤں پرہی کرلیا اور مطلوبہ وسائل واسباب کی تکمیل پرکوئی توجہ ہی نہیں دی، توان دونوں صورتوں میں آپ افراط وتفریط کےمرتکب ٹھہریں گے۔ راہ اعتدال یہی ہےکہ جب بھی آپ کوئی ٹارگٹ سیٹ کریں، اس کےحصول کے لیے سب سے پہلےایک جامع منصوبہ بندی کریں، تمام اسباب و وسائل یکجا کریں، اور پھر دعاؤں کے ذریعے اپنا مقدمہ مالک لم یزل کےحضور پیش کریں، پھر ان اسباب پر نتائج کے مرتب ہونے یا نہ ہونےکو اللہ کے حوالہ کرکے اسی پر توکل اور بھروسہ رکھیں۔
دعا کا محرک انسان کا اندرونی احساس ہوتا ہے، کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کورفع کرنےیا کسی حاجت کو پورا کرنے میں کافی نہیں ہیں یاکافی ثابت نہیں ہو رہے، اس لیےکسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع ناگزیر ہے، انسان ہرحال میں، خلوت کی تنہائیوں میں، چپکےچپکے، بلکہ دل ہی دل میں اس ہستی سے مدد کی کئی التجائیں کرتا ہے۔ یہی دعاکی حقیقت ہے، سورہ مومن کی آیت 60 میں دعا اور عبادت مترادف الفاظ کے طور پر استعمال ہوئےہیں۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
ترجمہ: (اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں، عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے)
اس آیت کے پہلے فقرے میں جس چیز کو دعا کے لفظ سےتعبیر کیا گیا دوسرے فقرے میں اسی چیز کوعبادت کانام دیاگیاہے، اس سےیہ بات واضح ہوئی کہ دعاعینِ عبادت ہے۔ ترمذی، نسائی، ابوداؤدمیں مذکورنعمان بن بشیر کی روایت میں بھی کہاگیاہے"ان الدعاء ھوالعبادۃ" ترجمہ: (دعاعبادت ہی کانام ہے)، اور دعا نہ مانگنے والوں کے لیےاس آیت میں"وہ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سےمنہ موڑتےہیں"، کےالفاظ سےبھی معلوم ہوتاہےکہ دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے اور اس سے منہ موڑنےکےمعنی یہ ہیں کہ آدمی تکبرمیں مبتلا ہے، اسی لیےاپنےمالک سےاعترافِ عبودیت کرنےسےکتراتا ہے۔ (تفہیم القرآن)
سب سے پہلے اسباب و وسائل بروئےکار لانا اس کے بعد فوق الفطرت اقتدار کی مالک ہستی پر توکل کرنا ہی عالم اسباب کا دستور ہے اور یہی اسلام کےتصورِ دعا کا فلسفہ بھی۔ خوب سمجھ لیجئےکہ اسلام نےجس دعا کاتصور دیا ہے، وہ دعا بذاتِ خود نہ صرف یہ کہ کامیابی کا ایک سبب ہےبلکہ دیگراسباب و وسائل اختیار کرنےکاذریعہ بھی ہے، وہ کلمات دعانہیں ہیں، جودعا کرنے والی کے زبان سے ادا ہوتےہیں، بلکہ دعا تو درحقیقت اللہ کی طرف طلب اور تڑپ کےساتھ متوجہ ہونےکانام ہے، اور کسی مقصد یا ٹارگٹ کی طلب و تڑپ اورسوچ بھی اس کےحصول کا اک راز اور سبب ہے۔
یوں دعا بطور طلب بذاتِ خود کامیابی کا اک سبب بن جاتی ہے، یہ بات سمجھنے کے ساتھ ہی ایک عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے جو کہ اکثر ذہنوں میں الجھن کاباعث بنتا ہےکہ جب تقدیر ایزدی میں انسان کی قسمت کےفیصلے ہوچکے ہیں توپھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیاہے؟ کیونکہ دعا کےبیان میں اللہ کےفرمان"مجھےپکارومیں تمہاری دعائیں قبول کرونگا"سےمعلوم ہوگیا کہ اللہ کی ذات کسی بندےکی دعائیں اور التجائیں سن کراپنافیصلہ بدلنےکی پوری طاقت رکھتی ہے، اسی لیےاسلامی تعلیمات میں کہا گیا ہے کہ دعا ہمیشہ حزم اور یقین کےساتھ کی جانی چاہیے۔
قبولیت سے متعلق تشکیک کےساتھ دعاکرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جس طرح دیگر اسباب کی تکمیل کے بعد بھی ان پراکثر نتیجہ مرتب ہوجاتاہے مگر کبھی نہیں بھی ہوتا، اسی طرح دعا والا سبب اختیار کرنے پر بھی کبھی نتیجہ کےنہ مرتب ہونےکا امکان ہوتا ہے، احادیث میں نتیجہ نہ مرتب ہونےکی وجہ دعا مانگنے والوں میں دیگر احکامات(جیسےحلال وحرام کاقانون) کی عدمِ پابندی بتایا گیا ہے، بعض احادیث میں دعا پر نتائج مرتب ہونےکی رینکنگ بھی کی گئی ہے، مطلوبہ شےکابعینہ حصول، اس کا نعم البدل ملنا یاکسی مصیبت کاٹل جانا ان تین میں سےایک نتیجہ ضرورمرتب ہوتاہے۔
تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو متعدد بار ایسے ہوا کہ آنے والی افتاد سے پوری امت مسلمہ متاثرہوئی، ان مواقع پرامت مسلمہ میں اجتماعی دعائیں ہوئیں، بعض مواقع پرختمِ قرآن، ختمِ بخاری شریف، ختمِ خواجگان کی مجالس کے بعد دعائیں ہوئیں، سقوطِ بغداد، سقوطِ غرناطہ، سقوطِ خلافت عثمانیہ، 1857ء کی جنگ آزادی کےبعد سقوط دہلی اورعرب اسرائیل جنگ سمیت بیسیوں مواقع ایسےآئے، جب پوری امت مسلمہ کےہاتھ مسلمانوں کےحق میں بلندہوئے، اس زمانہ کےاولیاء، صلحاء، علماء ومشائخ سب ہی ان دعاؤں میں شامل ہوئے، مگریہ تمام تر واقعات ہوکر رہے، سوال یہ ہےکہ یہ دعائیں کیوں بارآورثابت نہ ہوئیں؟ اس پرکچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ دعاؤں کادنیاوی امورسےکوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، دنیاوی امور صرف دنیاوی اسباب کےمطابق چلتےہیں، مگرحقیقت یہ ہےکہ دعابھی کامیابی کےاسباب میں سےایک سبب ہے، اور دیگر اسباب کی طرح اس سبب پربھی نتیجہ کامرتب نہ ہونےکاامکان ہوتاہے، اگرٹارگٹ کےحصول کے لیے مطلوب تمام اسباب اختیار کیےجائیں، دعابھی کی جائے، تب نتائج مرتب ہونےکےامکانات زیادہ ہوتےہیں، دعا میں مانگا جانے والا مقصد بیشک حاصل نہ ہو، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دعا کسی صورت فائدہ سےخالی پھر بھی نہیں ہوتی، جیسےکہ ابتدا میں بیان ہوا، دعا قبولیت کی تین میں سے کسی ایک صورت میں لازمی قبول ہوتی ہے، اس کے علاوہ دعا میں بندہ اللہ کے سامنے عبودیت اور بندگی کااظہار کرتا ہے، اوریہ بجائےخوداک عبادت ہے۔
دعا دیگر اسباب اختیار کرنےکا ذریعہ بھی ہے، وہ اس طرح کہ دعا سے اللہ کی نسبتِ حضوری یا نسبتِ یادداشت پیدا ہوتی ہے، کہ ہروقت اللہ کی ذات کاذہن میں استحضار رہنے لگتا ہے، اسی لیےحدیث شریف میں حکم دیا گیا ہےکہ اپنی تمام حاجتیں اللہ تعالیٰ سےمانگو، حتی کہ چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ سےمانگو اور نمک ختم ہوجائے تو وہ بھی اللہ سےمانگو(مشکوۃ المصابیح)، کسی شخص کے لیےجو شئے انتہائی اہمیت کی حامل ہو وہ اس کی تکمیل کے لیےآلارم یا ریمائنڈرز کا اہتمام کرتا ہے، عملی طور پر دعا بھی انسان کے لیےایک ذاکر(ریمائینڈر)کے طور پر کام کرتی ہے، کیونکہ انسان جس شے کے حصول کا خواستگار ہوگا، وہ اپنی دعاؤں میں اسےکثرت سے شامل کرےگا، اس طرح وہ مقصد یا ٹارگٹ اس کے ذہن میں ہر وقت مستحضر اور سامنے رہےگا، جس چیز کا انسان طلبگار بھی ہو اور وہ ہرآن اس کےسامنے بھی ہو تو ظاہر ہےکہ وہ اس کےحصول کے لیے ممکنہ وسائل واسباب بھی اختیار کرتا ہے، اور یوں دعا کامیابی کے لیے دیگر اسباب و وسائل اختیار کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
مختصریہ کہ دعا کسی ٹارگٹ کےحصول کے لیے اختیار کیے جانے والے ممکنہ اسباب میں سے انتہائی اہم اور سب سےبڑا سبب ہے، جونہ صرف اپنے مقصد کو سامنے رکھنے میں مدد دیتا ہے، اور دیگر اسباب اختیار کرنےکاذریعہ بنتا ہے بلکہ قسمت میں لکھے فیصلے تبدیل کرنے اور مادی اسباب و وسائل کوانسان کےحق میں کردینےکی طاقت بھی رکھتاہے۔ اس لیےٹارگٹ سیٹ کرتے وقت سب سے پہلے دعاؤں کا ہتھیار منصوبہ میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ ہتھیار ذہنی سکون کے علاوہ مقصد کے حصول کو آپ کے قریب تر کر دیتا ہے۔