Taqdeer, Naseeb Aur Qismat Ka Mafhoom Durust Kijiye (1)
تقدیر، نصیب اور قسمت کا مفہوم درست کیجئے (1)
ہمیں اپنے ارد گرد بےشمار لوگ ایسے مل جائیں گے، جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے فردا کے منتظر ہیں، مختلف بیماریوں میں مبتلا ایسے مریضوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو مضرِ صحت اشیاء کا علم ہونے کے باوجود بےپرہیزی کرتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بےروزگار فرد کو محنت یا لاپرواہ مریض کو پرہیز کی نصیحت پر "اللہ مالک ہے"، "اللہ خیر کرے گا" یا اس سے ملتے جلتے الفاظ میں جواب دیتے آپ نے بھی سنا ہوگا۔
کرونا وبا کے دوران کرونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے والے افراد بھی یہی بہانہ کرتے تھے کہ ساری احتیاطیں جب موت کے مقررہ وقت کو ٹال نہیں سکتیں، تو اتنی پابندیوں کی کیا ضرورت؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقدیر کا عقیدہ بھی ترکِ اعمال اور تعطل اسباب کی وجوہ میں سے ایک وجہ بن رہا ہے۔ یہ سب اسلام کے عقیدہ تقدیر سے متعلق کم فہمی یا غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ تقدیر کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کی تنزلی کو قبول کر لینے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے شدید اختلاف کرتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ۔
تقدیر، نصیب، مقدر اور قسمت جیسے مختلف الفاظ ہمارے عرف میں اسلام کے عقیدہ تقدیر کی مختلف تعبیریں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ "تقدیر" اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ چنانچہ ایمان سے متعلق سوال کے جواب میں حضور نبی کریم ﷺ نے ایمانیات یا ارکانِ ایمان کے باب میں توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ و آسمانی کتابوں کے ساتھ تقدیر کو بھی شامل فرمایا، نماز کی ابتدائی کتابوں میں ایمان مفصل کی صفت ہم بچپن سے پڑھتے ہیں، اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
مزید یہ کہ حضور نبی کریم ﷺ نے تقدیر کے منکرین کو اس امت کا مجوسی، عیسائیت کی اک برانچ، جنت میں نہ داخل ہونے والا طبقہ اور قرآن کو نہ ماننے والے قرار دیا ہے اور ایسے لوگوں سے بائیکاٹ کا حکم بھی دیا ہے۔ مسئلہ جبر و قدر تاریخِ اسلام کا اک اہم ترین باب ہے۔ تقدیر کے منکرین قدریہ، جبکہ تقدیر کی وجہ سے انسان کو مجبورِ محض کہنے والے جبریہ کہلاتے تھے۔ قدریہ (منکرین تقدیر) کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ عہدِ صحابہ کے آخر میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کو آگ لگی، جس پر کسی شخص نے بےساختہ کہا، تقدیر الٰہی یونہی ہوگی، دوسرے شخص نے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ بھلا ایسے کیوں مقدر فرمائیں گے؟
تو اس طرح قضاء و قدر کی بحث چل نکلی۔ بعد میں جب حکمران ناانصافیاں کرتے اور رعایا اس کے خلاف عملی جدوجہد کی بجائے اسے اپنا نصیب اور تقدیر قرار دے کر خاموش ہو جاتی، تو یہ بات قدریہ (منکرین تقدیر) کو عوام میں اپنے افکار کو زندہ رکھنے میں آکسیجن فراہم کرتی، کیونکہ وہ اپنا بیانیہ یہ بناتے کہ دیکھیں تقدیر کا عقیدہ عوام الناس پر ظلم کی وجہ بن رہا ہے۔ جبریہ ہوں یا قدریہ، دونوں صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے گروہ تھے، یہی وجہ ہےکہ یہ دونوں گروہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے، اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئے۔
عقیدہ تقدیر سے متعلق وہ غلط فہمی، جو ترک اعمال کی وجہ بن رہی ہے، یہ ہے کہ اس باب میں آیات یا احادیث کی نصوص دو طرح کی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں ایک طرح کی آیات اور احادیث ہی ملحوظ رہتی ہیں، جبکہ وہ روایات جو عام مفہوم سے مختلف معانی رکھتی ہیں، وہ ان کی توجہ سے یکسر اوجھل رہتی ہیں۔
تقدیر سے متعلق کچھ آیات اور احادیث وہ ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر شے اک طے شدہ ضابطہ کے تحت ہو رہی ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر اب ممکن نہیں ہے، انسان کی اپنی کوئی مشیت نہیں ہے، موت اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ ہر انسان کو اس کا لکھا ہوا رزق ہر حال میں مل کر رہتا ہے۔ بطور مثال ایسی کچھ نصوص یہ ہیں۔
"اِنَّا كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقۡنٰهُ بِقَدَرٍ"
ترجمہ: ہم نے ہر چیز کو ناپ تول کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (القمر: 49)۔
"وما تشاءون إلا أن يشاء الله رب العالمين"
ترجمہ: اور تم چاہو گے نہیں جب تک اللہ نہ چاہے۔ (الانسان: 30)۔
"إن أجل الله إذا جاء لا يؤخر"
ترجمہ: بیشک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آ جاتا ہے تو پھر وہ مؤخر نہیں ہوتا (نوح: 4)۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے، "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "فرغ الله إلى كل عبد من خمس، من أجله ومن عمله ورزقه وأثره ومضجعه"
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہر بندے کی پانچ چیزوں سے فارغ ہو چکے ہیں، اس کی موت، اس کا عمل، اس کا رزق، اس کی عمر اور اس کے آرام کی جگہ یعنی قبر سے"۔
واضح رہے کہ جبریہ فرقے کی گمراہی کا سبب بھی یہی بنا کہ انہوں نے تقدیر سے متعلق صرف اسی قسم کی آیات کو سامنے رکھا، اور یہ نظریہ اپنا لیا کہ انسان دنیا میں مجبور محض ہے، ایک بے جان پتھر کی طرح وہ اپنے کسی بھی فعل یا عمل میں تقدیر کا محتاج ہے۔ اور ایسی نصوص کی کم فہمی ہی ترک اعمال کی وجہ بنتی ہے۔ حالانکہ دوسری طرف وہ نصوص بھی ہیں، جن سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ انسان کو بھی اختیار حاصل ہے، دعا تقدیر کو ٹال سکتی ہے، صلہ رحمی عمر اور رزق میں اضافہ کر سکتی ہے، اعمال کی وجہ سے رزق میں کمی یا بیشی ہو جاتی ہے، صدقہ بھی عمر میں اضافہ کرتا ہے اور لکھی ہوئی مصیبت کو ٹال دیتا ہے، اس قسم کی کچھ نصوص یہ ہیں۔
"لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ"
ترجمہ: تم میں سے جو شخص چاہے سیدھا راستہ اختیار کرے۔ (التكوير: 28)۔
"فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلیَکفُر"
ترجمہ (ہر کسی کو اختیار حاصل ہے) چاہے تو ایمان لے آئے اور چاہے تو کفر اختیار کر لے۔
حدیث مبارکہ ہے "لَایَرُدُّ القَضَائَ اِلَّا الدُّعَائ"
ترجمہ: (قضاء کو صرف دعاء ہی ٹال سکتی ہے)۔
"وَ الدُّعَائُ یَنفَعُ مِماَّ نَزلَ وَمِمَّا لَم یَنزِل"
ترجمہ: (دعاء تو نافع و مفید ہے اس مصیبت سے نجات کیلئے بھی جو کہ نازل ہو چکی ہو، اور اس مصیبت کو ٹالنے کیلئے بھی جو کہ ابھی تک نازل نہیں ہوئی)۔