Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Asif Usman
  4. Main Roza Kyun Rakhta Hoon?

Main Roza Kyun Rakhta Hoon?

میں روزہ کیوں رکھتاہوں؟

کسی بھی روزہ دار سے اگر پوچھا جائے کہ آپ روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو اس کا قدرے مشترک جواب یہی ہوگا کہ روزہ اللہ کا حکم، قرآن میں مذکور اور اسلام کا رکن ہے۔ لیکن میرا معاملہ اس سے ذرا الگ ہے۔ کیونکہ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر روزہ اللہ کا حکم نہ بھی ہوتا تو بھی مجھے یہ عمل کرنا چاہیے تھا۔ ارکانِ اسلام کے باب میں میرے اعتقادات کا حصہ بن جانے سے صرف یہ ہوا کہ روزہ رکھنا بوجہ عبادت میری طبعیت ہی بن گیا۔

اکثر قارئین کی طرح میں نے بھی اسلامی معاشرہ میں آنکھ کھولی، اور بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے سے لیکر اب تک ہر سال ماہِ رمضان میں روزہ رکھتے چلا آ رہا ہوں۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ مجھے لگتا ہے بحیثیت انسان میرے اندر بہیمیت (جانوروں ) والے جذبات اور نفسانی خواہشات موجود ہیں۔ یعنی کھانے پینے اور چلنے پھرنے کی ایسی آزادی کی خواہش، جو کسی بھی طرح کی پابندی سے مبریٰ ہو۔

یہی وہ جذبہ اور خواہش ہے جس کی وجہ سے میرا نفس گناہوں (مذہب میں ممنوع اشیاء) کی طرف مائل ہوتا ہے، لیکن میں اپنے اندر موجود بہیمیت والی صفت کو فالو نہیں کرنا چاہتا، وجہ یہ ہے کہ میں خود کو جانوروں سے اشرف سمجھتا ہوں۔ اور بحالتِ روزہ جب میں کھانے پینے سے اختیاری طور پر گریز کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ روزہ بہیمیت والے جوش کو ٹھنڈا اور کنٹرول کرنے میں میری مدد کر رہا ہے۔ یوں مجھے اپنے اندر شہوت و لذت کی امنگ گھٹتی محسوس ہوتی ہے۔

علم اور عقل کی بنیاد پر انسان کا اشرف المخلوقات ہونا مجھے روزہ پسند ہونے کی دوسری وجہ ہے، وہ اس طرح کہ صحیح معنوں میں وہی انسان اشرف المخلوقات ہے، جو اچھے اور برے، درست اور غلط میں فرق کا علم رکھے اور اپنی طبعیت کو عقل کے تابع کر لے، اور طبعیت کو عقل کے تابع کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ریاضت (یعنی گناہوں کی خواہش کے وقت نفس کی مخالفت) بھی ہے۔ میں اس لیے روزہ رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ روزہ بھی ایک ریاضت ہے۔ جس سے مجھے طبعیت کو عقل کے تابع کرنے کی مشق ہوتی ہے۔

روزہ رکھنا مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کیونکہ روزہ میرے لیے ٹریننگ کا کام کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ کھانے پینے اور نفسانی خواہش کی تکمیل کی تمام وہ چیزیں جو میرے لیے حلال، جائز اور اجازت شدہ ہیں، جب میں ایک مقررہ وقت میں انہی سے احتراز کرتا ہوں، تو اس سے حرام اور ممنوع چیزوں کو چھوڑنے میں میری ٹریننگ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ احساس مجھے قانون کی پابندی کا درس بھی دیتا ہے۔

وہ اس طرح کہ میرے نزدیک مقررہ وقت میں حلال اکل و شرب سے رکنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ میں قانون کا پابند بن جاؤں۔ کیونکہ جب صرف اک طے شدہ قانون اور ضابطہ کی وجہ سے میں حلال چیزوں سے رک جاتا ہوں، تو پھر میرے لیے اپنے مذہب میں حرام اور اپنے ملک کے قانون میں منع شدہ چیزوں سے رکنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

فاقہ (ڈائٹنگ) حفظانِ صحت کا اک اہم اصول ہے۔ روزہ میں روزہ دار کو فاقہ کشی اور ڈائٹنگ کی مشق بھی ہو رہی ہوتی ہے، میرے ساتھی مدرس جن کے پیٹ کا گنبد کچھ عرصہ پہلے نمایاں تھا، مگر وہ اب واضح طور پر اسے کنٹرول کر چکے ہیں، انہوں نے رمضان میں سحری و افطاری کے مینیو میں توازن پیدا کیا اور پھر رمضان کے بعد بھی اسی روٹین کو برقرار رکھا، تو اس مشق نے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی دی۔ روزہ اس کے علاوہ بلغمی مادہ کی زیادتی اور رطوبتوں کے علاج میں بھی فائدہ دیتا ہے۔ گو اس طرح میرے نزدیک روزہ حفظان صحت کا اک اصول بھی ہے۔

ذرا سوچیے! اگر میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوتا ہوں، جو معاشی طور پر درست ہے، تو ممکنہ طور پر مجھے کبھی بھی بھوک اور پیاس کے احساس میں مبتلا ہونے کی نوبت نہیں آئے گی، مگر روزہ میں بالخصوص گرمیوں کے گرم اور لمبے روزے جب میں گھنٹوں بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارتا ہوں، تو اس سے مجھے فقیروں، مسکینوں اور تنگ دست لوگوں کی بھوک، پیاس اور ان کی حالت زار کا احساس پیدا ہوتا ہے اور ان سے ہمدردی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ روزہ سے میرے اندر شدائدِ زمانہ اور بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے میرا دل چاہتا ہے کہ میں روزہ رکھوں۔

قارئین! اگر غور کریں تو اسلام نے بھی انہی سے ملتے جلتے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی ہمیں روزہ کا پابند بنایا ہے۔ قرآن کریم نے روزہ کا مقصد تقویٰ یعنی حرام (مذہب میں منع شدہ) چیزوں سے بچنا قرار دیا ہے۔ یوں قرآنی تعلیم کی روشنی میں روزہ گناہ چھڑانے کا صدیوں پرانا نسخہ ہے۔ قرآن نے روزے کا دوسرا مقصد شکر گزاری بتایا ہے، وہ اس طرح کہ روزہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے، جس سے شکر گزاری کی صفت پیدا ہوتی ہے۔

حدیث مبارکہ میں بھی "الصوم جُنۃ" کے الفاظ میں روزہ کو ڈھال کہا گیا، حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جہنم میں داخل کرانے والی ہے، تو حضورﷺ نے فرمایا کہ "الفم والفرج" منہ اور شرمگاہ۔ اور روزہ میں منہ اور شرمگاہ دونوں پر ہی پابندی ہوتی ہے۔ گویا روزہ ان گناہوں سے بھی اور آتشِ دوزخ سے بھی بچنے کا ذریعہ یعنی ڈھال ہے۔

مادہ بہیمیت کو کمزور کرنے کی وجہ سے ہی روزہ کو نیکی کہا گیا اور نیکی کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا گیا، روزہ سے گناہوں کی معافی کا اعلان بھی مادہ بہیمت کو کمزور کرنے کی مشقت کے بدلہ میں ہی ہوا، "من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ" جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (الحدیث)۔ اسی طرح بہیمیت کمزور ہونے سے انسان کی فرشتوں سے مشابہت مضبوط ہو جاتی ہے، اور روزہ دار فرشتوں کی محبت کا مرکز بن جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ مطلب یہ کہ روزہ دار اللہ کا محبوب بن جاتا ہے، اور جس سے اللہ محبت کرتے ہیں، فرشتے بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اک حدیث میں"صومواتصحوا" روزہ رکھو، صحت پاؤ، کے الفاظ ہیں، جبکہ دوسری حدیث میں اسے کمی شہوت کا علاج قرار دیا گیا ہے، کہ جب نفس کا میلان الی النساء ہو اور نکاح کی قدرت نہ ہو تو روزے رکھے جائیں۔

روزوں کے مہینے میں جب اللہ کے نیک بندے نیکیوں میں منہمک ہوتے ہیں، تو عام بندے بھی راغب ہو جاتے ہیں، اور وہ بھی بہت سارے گناہوں سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ یوں شیاطین انسانوں کو بہکانے سے بےبس ہو جاتے ہیں۔ اسی کو کہا گیا ہے کہ شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب روزے پوری پابندی سے رکھے جائیں، تو اس کے نتیجہ میں نیکی کا جو ماحول پیدا ہوتا ہے، وہ انسان کو بہت ساری رواجی برائیوں سے بچاتا ہے۔ روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کا وصال بھی نصیب ہوتا ہے۔ بمطابق حدیث اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"وانااُجزی بہ" یعنی میں خود روزہ کی جزا ہوں۔ مطلب یہ ہوا کہ روزہ دار کو خود اللہ تعالیٰ مل جاتے ہیں۔ یہی وصل مع اللہ ہے۔

قارئین! یہ ہیں وجوہ جن کی وجہ سے مجھے روزہ رکھنا اچھا لگتا ہے، آپ بھی اگر ان مقاصد کو سامنے رکھیں گے تو آپ کے لیے بھی روزہ رکھنا آسان ہو جائے گا اور روزہ کی روح کو سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari