Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mirza Yasin Baig
  4. Radio Ka Baghban

Radio Ka Baghban

ریڈیو کا باغبان

جب میں نے بزم طلبہ کے ذریعے ریڈیو پاکستان کراچی میں پہلی بار قدم رکھا تھا۔ اس وقت تک یاور مہدی صاحب (المعروف یاور بھائ) بزم طلبہ کو عروج تک پہنچاکر، یہ پروگرام اپنے بعد کے پروڈیوسرز کے نام کرچکے تھے۔ ان دنوں یاور بھائی پروگرام "شہرنامہ" کے ذریعے کراچی کی ادبی ثقافتی حلقوں کی جان بن چکے تھے۔ ریڈیو کی باؤنڈری میں بیسیوں پروڈیوسرز مین، جن پروڈیوسرز کا سب سے زیادہ تذکرہ رہتا تھا ان میں سے سب سے ٹاپ پر یاور مہدی تھے۔

میرا ان سے ناتا بس اتنا تھا کہ جب سامنے نظر آتے تھے، میں انھیں ادب سے سلام کردیا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ بزم طلبہ کا جشن تمثیل مشہور تھا۔ بزم طلبہ کے پلیٹ فارم سے انھوں نے نوجوانوں کو نئے نئے آئیڈیاز کے ساتھ ایسے مواقع فراہم کئے تھے کہ بعدازاں ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر میں پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز، رائٹرز، ایکٹرز، ایکٹریسز سب ان کے شاگرد تھے۔ یہی نہیں کراچی شہر کے ڈاکٹرز، انجینئرز، بیوروکریٹس، شاعر، شاعرات کی ایک بڑی کھیپ وہ تھی جو ان کے بزم طلبہ میں شامل رہی تھی۔

ان کے ساتھ تعظیم کا ایک ایسا رشتہ تھا کہ کبھی دل کھول کر بات ہی نہ ہوسکی۔ بس ان کی مسکراہٹ اور چند جملوں کی سوغات سے اپنا دامن بھرلیا کرتے تھے۔ ان کی شفقت کا بس ایک واقعہ یاد ہے کہ ایک بار کسی جلسے جلوس کی وجہ سے میں ریڈیو آکر واپس گھر جانے کی کوئی سبیل نہیں پارہا تھا تو یاور بھائی نے خود سے ریڈیو پاکستان کی گاڑی کے ڈرائیورکو کہہ کر مجھے گھر کے قریب ڈراپ کروایا تھا۔ یاور بھائی بعد ازاں پروگرام منیجر اور اسٹیشن ڈائریکٹر بنے۔ پھر آرٹس کونسل کراچی میں ایسے مستعد ہوۓ کہ آرٹس کونسل کی تاریخ ہی بدل دی۔

میں میڈیا میں اپنے لکھنے لکھانے کی مزدوری میں ہمیشہ سے اتنا بزی رہا کہ پریس کلب کی صحافیا، نہ سیاست میں انولو ہوسکا، نہ آرٹس کونسل کی ایکٹیویٹیز میں حصہ لےسکا۔ شاید یہ سب کچھ میرے مزاج میں بھی نہیں تھا۔ سب سے دوستیاں اور پیار کا رشتہ رہا مگر بندہ مزدور کے اوقات اور ذمےداریاں اتنی سخت تھیں کہ کیرئیر سے آگے کچھ سوچنے کا موقعہ ہی نہ مل سکا۔ یاور بھائی کی تعریفیں ہزاروں منہ سے سنی اور یہی میرے اور یاور کے درمیان ایک عہد کا ناتا بن گیا۔

یاور بھائی کی طویل علالت کی خبر عرصے سے سنی جارہی تھی اور آج ان کے انتقال کے بعد اس سنہری عہد اور لیجنڈ باب کا آخری صفحہ بھی لکھ دیاگیا۔ میری تحریر دو مزید باتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایک تو یہ کہ یاور بھائی کی ایک سگی بہن مس سعیدہ، عباس اسکول شاہ فیصل کالونی میں میری اُستانی تھیں۔ یاور مہدی کا نام پہلی بار ان کی توسط سے میرے کانوں میں اس وقت پڑا تھا، جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔

کینیڈا آنے کے بعد کئی بار سنا کہ یاور بھائی امریکہ اور کینیڈا تشریف لاتے رہتے ہیں۔ ایک بار فیس بک ہی کے ذریعے ان کے ایک صاحبزادے سے مختصر سا تعارف اور فون نمبر کا تبادلہ ہوا تھا اور میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ اگلی بار یاور بھائی ٹورنٹو آئیں تو مجھے ضرور اطلاع دیجئےگا۔ ان دنوں میں یہاں اخبار اور ریڈیو سے منسلک تھا۔ سوچا تھا کہ یاور بھائی سے ملاقات ہوئی تو ان کا تفصیلی انٹرویو کرلوں گا اور یوں ان کی ساری داستان حیات ان ہی کی زبانی سننے کا شرف حاصل ہوجاۓگا مگر

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

یاور مہدی جیسی شخصیات اہل زمانہ کی قسمت ہوا کرتی ہیں۔ خوش قسمت تھے وہ لوگ جنھوں نے ان سے سیکھا اور ان کی صحبت میں وقت گذارا۔ میں نے تو فقط خوشبو پر گذارا کیا۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed