Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Meraj Rana
  4. Shayari Mein Takhleeqi Aur Ghair Takhleeqi Zehan Ki Kar Farmayi (1)

Shayari Mein Takhleeqi Aur Ghair Takhleeqi Zehan Ki Kar Farmayi (1)

شاعری میں تخلیقی اور غیر تخلیقی ذہن کی کارفرمائی (1)

یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ شاعری میں تخلیقی ذہن کی نشوونما انسانی جذبوں کی صداقت اور قوتِ تخیل کی ندرت سے ممکن العمل ہوتی ہے۔ اس لیے بڑا یا اہم شاعر عام انسانی تجربات کو غیر معمولی تاثرات میں منقلب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کی اس تخلیقی مساعی سے ایک نامعلوم اور پُراسراردنیا ہماری آگہی کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بڑا اور اہم تخلیقی ذہن مروجہ کلاسیکی شعریات میں کوئی بڑا رخنہ نہیں ڈالتا بلکہ اپنی تخلیقی کدو کاوش سے اُس میں کچھ ایسے اضافے کرتا ہے کہ شعریات کی دبازت مزید دبیز ہوجاتی ہے۔

شاعری میں تخلیقی ذہن کی ایک بنیادی شناخت یہ ہے کہ وہ آفاقی قدروں سے علامتیں خلق نہیں کرتا بلکہ مقامی قدروں کو اظہار کی سطح پر اتنی وسعت و رفعت بخشتا ہے کہ وہ قدریں خود آفاقی علامتوں کا مخرج بن جاتی ہیں۔ تخلیقی ذہن کی دوسری بڑی شناخت شاعری میں اشیا اور ذات کی دوئی میں یکجائی کی تلاش سے عبارت ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ بڑا تخلیقی ذہن اشیا اور اُس کے انسانی ارتباط کو اُس طرح قطعی نہیں دیکھتا جس طرح وہ نظر آتا ہے۔

ظاہر کہ جب اشیا کا ادراک عام ادراک سے یکسر مختلف ہوگا تو شاعری میں اُس کا اظہار قاری کو حالتِ عام سے عالمِ حیرت میں لے جائے گا۔ بڑے ذہن کی تیسری پہچان قاری کو خطِ مستقیم پر چلانے کے برخلاف خطِ مستقیم کے وجود کو معدوم کرنے کی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ بڑا یا اہم تخلیقی ذہن ہر نئی قرات کے دورانیے میں قاری کو گمراہ کرنے پر خود کو مامور و متعین سمجھتا ہے۔ اس کے علی الرغم شاعری میں اوسط ذہن اظہار کی سطح پر کسی چھوٹے یا بڑے جوکھم کو اُٹھانے سے بالکل قاصر ہوتا ہے۔

ایسے اذہان عام طور پر کسی نہ کسی اضافی سہارے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ لہذا اوسط درجے کے تخلیقی ذہن سے ظہور پذیر ہونے والی شاعری دامنِ دل می کشید کی صفت سے کبھی متصف نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اوسط ذہن کا شاعر نئے اور اجنبی استعاراتی اظہار سے خوف زدہ ہونا تو دور اُس کے ارد گرد بھی نہیں پھٹکتا۔ مرزا بیدل کا شعر ہے:

رنگِ شکستہ، آئینۂ بےخودی بس است
یارب! زبانِ ما، نشود ترجمانِ ما

"رنگِ شکستہ" بیدل کے شعر کا کلیدی استعارہ ہے اور اسی استعارے پر شعر کی بنیاد قائم ہے۔ یہاں رنگِ شکستہ سے مراد وہ رنگ ہے جو زردی مائل ہو۔ اور اسی رنگ سے شاعر کی بے خودی ظاہر ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حالِ دل بیان کرنے کا عام رویہ یا ذریعہ زبان کو سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ بیدل کے اس شعر کا لہجہ انکشاف اور حیرت کی ملی جلی صفت سے متصف ہے اس لیے یہاں شاعر اپنے معبود سے آرزو مند ہے کہ اس کی زبان عرضِ حال کا وسیلہ نہ بنے۔ مطلب یہ کہ یہاں ایک خارجی صفت یعنی رنگِ شکستہ سے اظہارِ ذات کا وہ کام لیا گیا ہے جو کام بنیادی طور پر زبان کا ہوتا ہے۔

شعر کی پہلی خوبی " فنِ گویائی" پر "فنِ رونمائی" کو فضیلت بخشنے کی ہے۔ یعنی یہ کہ بیدل نے یہاں زبان کے برعکس جسمانی تبدیلی کو اپنی بے خودی کا ذریعئہ اظہار یعنی آئینہ بنایا ہے۔ شعر کی دوسری خوبی زرد رنگ کے متعدد صفاتی پیکروں کے ظہور کی ہے۔ مطلب یہ کہ یہاں زرد رنگ سے چہرے اور چہرے کی مناسبت سے آئینہ اور آئینے کی رعایت سے عکس اور پھر عکس کا حوالہ جات چشمِ معدوم کا صوتی پیکر خلق کرتا ہے جو ہمارے قراتی تفاعل میں متواتر بنتا اور بگڑتا رہتا ہے۔ اس لیے یہاں ایک مخصوص خیال کی مرکزیت تقریبا ناپید معلوم ہوتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شعر میں ایک مخصوص خیال یا پیکر یا معنی کی لامرکزیت دیگر صفاتی پیکروں کے ظہور کے امکانات پیدا کرتی ہے۔ کم بیش یہی رویہ احمد مشتاق کے کے اس شعر میں بھی نمایاں ہے:

یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے

اردو میں ساٹھ کی دہائی کی شاعری پر لکھے گئے مضامین میں شاید ہی کوئی ایسا مضمون ہو جس میں مذکورہ شعر منقول نہ ہوا ہو۔ اُن مضامین کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گویا اس شعر کا حوالہ نہ دینا تنقید کی شریعت میں کوئی کفر ہے۔ اردو کے مکتبی نقاد تو اپنی ہر تقریر و تحریر میں اس شعر کو اس طمطراق کے ساتھ پڑھتے اور اُس کا حوالہ دیتے ہیں گویا یہ شعر اُن کی خود کی ملکیت ہو۔ مگر ساٹھ کی دہائی کی اردو شاعری پر لکھے گئے ایسے مضامین ہنوز معرضِ التوا میں معلوم ہوتے ہیں جن میں احمد مشتاق کے اس شعر کا تنقیدی احتساب پیش کیا گیا ہو۔ لیکن جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس یہ مراد ہرگز نہیں لی جانی چاہئیے کہ اس شعر پر ہماری تنقید میں کوئی بھی تنقیدی رائے مفقود ہے۔

دیکھا جائے تو اس شعر کے حوالے سے تاثراتی اور تحسین آمیز تحریروں کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں سوال صرف یہ ہے کہ کیا اُن تحریروں سے متن سازی اور متن شکنی کے تنقیدی شعور کی کوئی تصدیق ہوتی ہے؟ ظاہر کہ اس کا جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی دوسری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں لیکن سامنے کی وجہ اردو تنقید کے تقلیدی رویے کی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کسی بااثر اور نابغہ نقاد نے احمد مشتاق کے اس شعر کو جدید حسیت کا ترجمان کہہ دیا تو بعد کے کسی نقاد میں اتنی علمی جرات نہیں کہ وہ نابغہ نقاد کی رائے سے ہٹ کر کوئی نئی رائے قائم کر سکے۔ جس کا نتیجہ تقلیدی تحریروں کے ذخائر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

احمد مشتاق کے مذکورہ شعر میں بھی بیدل کے شعر کی طرح ہی انکشافِ ذات ایک خارجی منظر کے وسیلے سے ممکن العمل ہوتا نظر آتا ہے۔ پہلا مصرع محض ایک بیان ہے۔ لیکن یہی بیان دوسرے مصرعے سے ہم آہنگ ہوکر اُس کیفیت کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے جس کا براہِ راست تعلق شاعر کی پیچیدہ داخلی دنیا سے ہے۔ اس شعر کی سب سے بڑی خوبی معدوم کو موجود سے ہم آہنگ کرنے کی ہے۔ یہاں مکان سے دریا کا دکھائی دینا شاعر کی بے خوابی کا مظہر ہے۔ یعنی یہ کہ شاعر کی آنکھیں پوری طرح نیند سے عاری ہیں۔ یہاں یہی کیفیت معدوم کا تصور پیدا کرتی ہے۔

دوسری طرف ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں خوابیدہ لوگوں کا منظر موجود کے تصور کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی مکان میں جو نیند معدوم ہے وہ بوسیدہ کشتیوں میں خوابیدہ لوگوں کے درمیان موجودگی کا سبب ہے۔ شعر کی دوسری خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شاعر اپنی شب بیداری کو سوئے ہوئے لوگوں کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ سوئے ہوئے لوگوں کو وہی دیکھ سکتا ہے جو جاگ رہا ہو۔

احمد مشتاق کے اس شعر میں مکان اور کشتی کے درمیان ربط کی تلاش کا عمل بھی دوسرے پیکروں کے ظہور کا سبب ہے۔ "مکان" گھر کے برخلاف تنہائی کا استعارہ ہوتا ہے جہاں سکون مفقود ہوتا ہے۔ سکون کی عدم موجودگی میں شب بیداری کے کرب کا پیدا ہونا عین فطرت کے موافق ہے۔ جب کہ ٹوٹی ہوئی کشتیاں سکون کی آماجگاہ ثابت ہوتی ہیں۔ اور یہی سکون یہاں نیند کی وجہ ہے۔ اس شعر کی تلازماتی ترتیب بھی زبردست ہے۔

کشتی، ماہی گیر، سمندر، ساحل، رات، سکون، مکان، شب بیداری، اصطراب، وغیرہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کے اس شعر کے جتنے پیکر پیش منظر پر نمایاں ہیں اُس سے کہیں زیادہ شعر کے پس منظرمیں پوشیدہ ہیں۔ انگریزی شاعری میں رابرٹ فراسٹ کی نظم "دی روڈ ناٹ ٹیکن" ایک بڑے تخلیقی ذہن کی ترجمان ہے جہاں معروضی تلازمات سے قراتی گمراہی پیدا کی گئی اور اس طرح پیدا کی گئی ہے کہ صوتی پیکروں کا ایک تاب ناک جھنڈ ہماری ہماری چشمِ بینا کو خیرہ کر دیتا ہے۔ یہاں مثال کے لیے اس نظم کا ابتدائی بند ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

Two roads diverged in a yellow wood۔

And sorry I could not travel both

And be one traveler، long I stood

And looked down one as far as I could

To where it bent in the undergrowth;

نظم کا راوی ایک دشت کے چوراہے پر کھڑا یہ سوچتا ہے کہ کس راستے پر گامزن ہونے سے منزلِ مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں تذبذب کی کیفیت عام صورتِ حال کی مظہر نہیں بلکہ زندگی کے فیصلوں کا تہہ دار استعارہ ہے۔ لہذا اسی استعارے سے خوف، یقین، اعتماد، عدم اعتماد وغیرہ کے متعدد پیکر ہمارے قراتی دورانیے میں بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایملی ڈکنسن کی نظم "امید پنکھوں والی چیز ہے" میں اشیا اور ذات کے درمیان یکجائی پیدا کرنے کے لیے حیرت انگیز استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں حیرت انگیز پیکروں کا ظہور ممکن ہوتا ہے:

Hope is the thing with feathers

That perches in the soul۔

And sings the tune without the words۔

And never stops at all۔

اس نظم میں ایملی ڈکنسن کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ پہلے "امید" کو "پر" والی شئے میں مجسم کرکے اُس کا جائے سکون روح کو قرار دیتی ہیں اور پھر الفاظ یعنی نغمے کے بغیر اُس کے گنگنانے کی کیفیت سے یہ غیر معمولی تاثر مرتب کرتی ہیں کہ در اصل معدوم ہی موجود اور موجود ہی معدوم ہوتا ہے۔ یہاں قمر رضا شہزاد اور شاہین عباس کے شعری حوالے بھی ناگزیر معلوم ہوتے ہیں:

میں آئینے کی طرح اپنی دسترس میں ہوں
خود اپنے ہاتھوں مجھے ٹوٹنے کا ڈر بھی ہے

(قمر رضا شہزاد)

وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا

(شاہین عباس)

مذکورہ دونوں شعروں میں پہلے حیرت کی فضا خلق کی گئی پھر ایملی ڈکنسن کی نظم کی طرح ہی اس حیرت کو آدابِ آگہی کا پابند بنایا گیا ہے۔ جہاں قمر کے شعر میں احتیاط سے پیدا ہونے والے خوف کی صورتِ حال بیان کی گئی ہے وہیں شاہین عباس کے شعر میں موجود اور معدوم کے وسیلے سے "کم" اور " زیادہ" کے رائج تصور کو مسترد کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ معشوق جب عاشق کے قریب تھا تو اُس کا مکمل ظہور ممکن نہیں تھا یعنی یہ کہ وہ کم کم نظر آتا تھا۔ جس کی متعدد وجہیں ہوسکتی ہیں لیکن اُن میں شاید سب سے بڑی وجہ قربتِ کثیرہ سے پیدا ہونے والی عدم توجہی کی ہے۔ جس سے ایک معنی یہ نکلتے ہیں کہ معشوق کی قربت عاشق کے لیے کم اہمیت کی حامل تھی لیکن جب وہ چلا یا بچھڑ یا معدوم ہوجاتا ہے تو وہ عاشق کو متواتر نظر آنے لگتا ہے۔

عام رویہ تو یہی ہے کہ جو شئے قریب ہوگی اُس کی دیدنی کا عمل شدید ہوگا لیکن شاہین عباس نے اس عام رویے کو مسترد کرکے شعر میں یہ معنی پیدا کیے ہیں کہ کسی شئے کی قربتِ شدید کم توقیری اور اُس کی دوری اُس کی اہمیت کا ادراک پیدا کرتی ہے۔ لہذا شاہین عباس کا یہ شعر محض خوب ہی نہیں بلکہ حشر سامانی کا مظہر ہے جس میں معنی کی صدرنگ شعاعیں پوشیدہ ہیں۔ یہاں ضرورت صرف قرات کی ایک ہلکی سی ضرب لگانے کی ہے۔

جاری۔۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan