Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehak Rabnawaz
  4. Azadi Riyasat Ka Qayam Aur Mojuda Surat e Haal

Azadi Riyasat Ka Qayam Aur Mojuda Surat e Haal

آزاد ریاست کا قیام اور موجودہ صورتحال

بے شک ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے، تو جب فارغ ہوا کرو تو (عبادت میں) محنت کیا کرو رب کیطرف متوجہ ہو جایا کرو (سورہ الشرح) آنحضرت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے۔ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے۔ اس قوم میں کوئی خیر نہیں رہتی، جس میں کوئی نصیحت کرنے والا نہ رہے اور اس قوم میں بھی کوئی خیر نہیں رہتی۔

جو اپنے نصیحت کرنے والوں سے محبت نہ کرے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو قدرت کے معجزات و انکشافات سے عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ دنیا کا ایک اصول ہے۔ جب تک ہم اپنی قیمتی چیز کی قربانی نہیں دیتے تب تک منزل مقصود کو نہیں پہنچ پاتے، کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ چونکہ محرم الحرام کا مہینہ ہے یہ تاریخ اسلام کا اہم یادگار دل دہلا دینے والا واقعہ اور ایثار و قربانی کی عمدہ مثال ہے۔

حضرت امام حسینؑ اپنی آل اولاد کیساتھ کربلا کے مقام پر عظیم قربانی نہ دیتے تو دین محمدی پروان نہ چڑھتا دین اسلام کی بقا کی خاطر 72 تن کربلا میں شہید ہونا یہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔

یونہی نہیں جہاں میں چرچا حسنؑ کا

کچھ دیکھ کہ ہوا ہے زمانہ حسینؑ کا

سر دے کے دو جہاں کی حکومت خریدی

مہنگا پڑا یزید کو سودا حسینؑ کا

ہر دور میں مختلف قومیں اپنے مقاصد کی غرض سے میدان میں اتریں اور کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر فتح و کامران، آزاد و خود مختار قوم ہونے کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھریں، دوسری جانب اگر 14 اگست جشن آزادی پاکستان کے قیام پر تبصرہ کریں تو تاریخ گواہ ہے۔ مادر ملت کی بنیاد رکھنے کیلیۓ اندازاً تیس لاکھ مسلمانوں کا خون بہا، اگر اس وقت لاکھوں مسلمان مرد عورتیں بچے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر۔

اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش نہ کرتے تو اس آزاد ریاست کا وجود فقط ایک خواب کے سوا کچھ نہ تھا۔

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہۓ

کہ دانہ خاک میں ملکر گل و گلزار بنتا ہے

آزادی بہت بڑی نعمت ہے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اس آزاد ریاست کی تعمیر کے لیے اینٹوں کی جگہ آزادی کا دم بھرنے والے معصوم بے گناہوں کی ہڈیاں مدفن ہیں اور مٹی کو پانی کی جگہ خون سے سیراب کیا گیا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج ملکی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے وہ خواب جو پاکستان کے بنیاد رکھتے وقت سجائے گئے ہم اس سے روگرداں ہو چکے ہیں، ملک میں تعمیر و ترقی کے دعویداروں کی کمی نہیں اگر کمی ہے، تو محض عملی اقدامات اٹھانے والوں کی۔

سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا کیا حال ہے آپ کے ملک کا؟ کہنے لگے، بالکل ویسے ہی جیسے جیل میں ہونے والی نماز جمعہ کا ہوتا ہے، اذان فراڈیا دیتا ہے امامت قاتل کراتا ہے اور نمازی سب کے سب چور ہوتے ہیں۔ سیاسی لغزشوں باہمی تقاضوں اور عداوتوں کے سبب ملکی نظام چلانے کی ناپائیدار کوششوں سے بہتری کے امکانات تو متوقع نہیں البتہ ملک میدان جنگ ضرور بنا ہوا ہے۔

جس کے باعث کچھ تو بھوک مفلسی سے مر رہے ہیں، کچھ غربت و بیروزگاری اور مہنگائی سے دم توڑ رہے ہیں۔ کئی سالوں سے پاکستان میں جو مسائل گردش کر رہے ہیں۔ جیسے کہ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، معاشی بحران، علم کا فقدان، صفائی انتظامیہ کی نا اہلی، ایکسپینسو ایجوکیشن سسٹم، جنگلات کی کمی، پانی کی صفائی اور کمی کا مسئلہ، کرپشن، ہومن رائٹس، دہشت گردی وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ملک میں ابتدا ہی سے چند دن چند گھنٹوں کی گفتگو کے بعد ان ایشوز کو ٹھپ کر دیا جاتا ہے۔ جو کہ آج ہمارے پرمانینٹ ایشوز بن چکے ہیں۔ ایک ادارے نے یہ جائزہ لینے کی غرض سے کہ کس چینل نے کس موضوع پر کتنی گفتگو کی تو تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے سب سے اہم ایشوز تعلیم غربت بے روزگاری صحت کرپشن یہ وہ اہم مسائل تھے، جن پر سب سے کم گفتگو کی گئی۔

اور جن کو سب سے زیادہ موضوع گفتگو بنایا گیا وہ سیاست اور اس سے متعلقہ سکینڈلز تھے۔ جبکہ ہمارے حکمران اور سیاستدان نصف صدی سے اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان کے وفود پر کام کیا مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لائے ہیں۔ بہرحال خودکشی اور جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد بدحال پاکستان میں اضافہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اے صاحب نظر! اپنے دور پر کر نظر

بدن میں اپنے کر پیدا پھر سے روح عمرؓ

مسئلہ خواہ جو بھی ہو سنگین نوعیت کا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اسے قوم کا مشترکہ مسئلہ سمجھ کر اس کے سولیوشن کی جانب نہیں بڑھتے بلکہ امیر غریب مخصوص طبقے یا فرقے کے لوگوں کیساتھ منسلک کرتے ہوۓ غیر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ دکھاتے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ اختیار و اقتدار کے ہوس زدہ معاشرے میں جھوٹ دھوکا فراڈ کا شکار ہر فرد ہو رہا ہے۔

پنجرے میں پیدا ہوتے پرندوں کو یہی لگتا ہے کہ اڑنا ایک جرم ہے۔ ہم پاکستانی عوام مریم نواز، بلاول بھٹو، آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، عمران خان کی آواز پر تو نکلتے ہیں۔ مگر اپنے حقوق کے لئے یکجا نہی ہوتے حق کو حق نہیں کہتے ہر حال میں اپنے سیاسی خدا کا دفاع کرتے ہیں۔ آخر ہم نے اپنے حکمرانوں کو پروٹوکول بھی تو دینا ہوتا ہے۔ مگر یہ بات نہ ہم سمجھتے ہیں نہ ہمارے حکمران۔

مہنگی گاڑیاں مہنگے لباس عزت و وقار میں اضافے کا باعث نہیں بنتے، اگر سادہ زندگی گزارنے سادہ پرانے کپڑے پہنے سے عزت میں کمی آتی تو سترہ پیوند لگی قمیض پہننے والے حضرت عمر فاروقؓ 22 لاکھ مربع میل کے حکمران نہ ہوتے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ پھر تبدیلی فقط سیاستدانوں جلسے جلوسوں میں نعرے لگانے پارٹیاں بدلنے سے تو ممکن نہیں۔

جس ملک میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہو وہاں انتخابات کی نہی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔

چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے

غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے

ہوتی نہیں جو قوم۔ حق بات پہ یکجا

اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہے۔

اس میں کوئی دوراۓ نہی کہ وطن عزیز کا موجودہ حالات میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور مہنگائی ہی کی بدولت غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور وسائل کم مسائل زیادہ ہیں، پاکستان میں پاپولیشن ریٹ 1۔ 9 پرسنٹ ہائی اسٹریٹ ہے۔ ملک اس لیے غریب ہے کہ رہاست غریب ہے۔ ملکوں کی ترقی فی کس آمدنی اور لوگوں کی قوت سے جڑی ہوتی ہے اور ہر فرد کو برابر مواقع دیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کو ترقیاتی منصوبوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب علمائے کرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوا مسلمانوں کے مستقبل کے لیے پاکستان بننا زیادہ بہتر ہے یا نہ بننا بہتر ہے یا ہندوستان کا مشترک رہنا ہی بہتر ہے۔ اس مسئلہ میں ہمارے اہل علم آرا کی مختلف رائے آئیں۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو حضرت شیخ الاسلام علامہ حسین صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی شروع میں راۓ نہ تھی۔

مگر ان کے الفاظ ریکارڈڈ ہیں کہ مسجد بننے سے پہلے کسی چیز پر اختلاف ہو سکتا ہے کہ یہاں مسجد بنائی جائے یا نہیں، لیکن جب ایک مرتبہ مسجد بن گئی تو اس کا تحفظ ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ پاکستانی باشندے ہونے کے ناطے ہم سب پر لازم ہے کہ وطن کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں نا کہ ملک کے نظام میں بگاڑ کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرائیں۔

ممکنہ حل تجویز کرنے کیساتھ ساتھ بہتر کارکردگی کریٹو مائنڈ اور مثبت خیالی کو عملی جامہ پہنائیں وہ سکلز، جو ہم جانتے ہیں دوسروں کو بھی سکھائیں۔ ایک خاص حد تک فری آف کاسٹ ایجوکیشن پروائڈ کریں، پاکستان کو بٍلو پاورٹی لائن سے باہر نکالنے کے لیے جدو جہد کریں، سوچ کو بدلنا پڑے گا سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا فی الحال تبدیلی باہر نہیں اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے۔

کل میں ہوشیار تھا، اس لیے دنیا بدلنا چاہتا تھا، آج میں عقلمند ہوں میں خود کو بدل رہا ہوں (بقول رومی)

واللہ کہ یہ ملک خداداد رہے گا

آزاد تھا آزاد ہے آزاد رہے گا

"بابائے قوم محمد علی جناح نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوے فرمایا۔ آپ نے مجھے ایک پیغام دینے کے لیے کہا ہے" میں آپکو کیا پیغام دے سکتا ہوں، جبکہ قرآن کریم میں ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے عظیم ترین پیغام موجود ہے۔ فرماتے ہیں مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے۔ کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔

۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا، الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔ امید ہمت اور خود اعتمادی میرے ہم وطنوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے۔ تو کیوں نہ ہم اس پیغام کو سمجھیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez