1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mazahir Baig Suto/
  4. Siasat, Sahafat Aur Adalat

Siasat, Sahafat Aur Adalat

سیاست، صحافت اور عدالت

سیاست، صحافت اور عدالت یہ تین ایسے بڑے عناصر ہیں جو اگر اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے تو ملک کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتا ہے چونکہ میں صحافت اور وکالت سے وابستہ ہوں اس لیے سیاستدانوں سے وابستگی بھی رہتی ہے مجھے ایسا لگتا ہے ملک کی ترقی میں ان تینوں عناصر کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

75 سالہ سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے سیاستدانوں نے کبھی سیاست عوام کے لیے نہیں کی ہے۔ سیاست کا واحد مقصد اقتدار حاصل کرنا رہا ہے اور یہ اقتدار عوام کے مقاصد کے تحفظ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے جبکہ دوسری طرف اپنے سیاسی مقاصد کے تحفظ میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا ہے تو ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب کی ہی مثال لیں۔

جیسے ہی پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی پہلا کام نیب قانون تبدیل کر دیا جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے ملزمان کے نیب مقدمات ختم ہو گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس واپس ہو گیا، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے 6 کرپشن ریفرنس واپس ہو گئے، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈز کرپشن ریفرنس واپس ہو گیا۔

اس طرح سلیم مانڈی والا، مریم نواز، سینیٹر روبینہ خالد اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے 50 کے قریب کرپشن ریفرنسز واپس ہو گئے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں جبکہ عوام کے مسائل ہر آنے والے دنوں میں بڑھ رہے ہیں۔ مختصراً یہ کہ تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کے ساتھ ہماری سیاسی تاریخ ناکام رہی ہے کیونکہ بظاہر اقتدار سیاستدانوں کے پاس رہا ہے لیکن اصل طاقت کا سر چشمہ کوئی اور ہی رہا ہے۔

جس طرح ہماری سیاست عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اس طرح دور حاضر میں ہماری صحافت بھی عوام میں آگاہی پھیلانے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔ اس کے کئی پہلو ہیں سب سے اہم پہلو ہماری صحافت بری طرح تقسیم ہو گئی ہے یہ تقسیم عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اب تو میڈیا ہاؤسز باقاعدہ سیاسی ونگ بن چکے ہیں اور اوپر سے ان میڈیا ہاؤسز کا کنٹرول بھی ایک غیر جمہوری قوت کے پاس ہے۔

اس طرح میڈیا کبھی سیاسی شخصیات کے دباؤ اور کبھی غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ میں رہا ہے جس کی وجہ سے خبر کی اصل روح عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بات ماننے والی ہے کہ تجزیہ کاروں کے ایک معاملے میں مختلف رائے ہو سکتی ہیں لیکن ایک ہی معاملے پر مختلف خبر نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں ہم میڈیا پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں وہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کا شمار صحافت کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں سحچ بولنے والے کو ڈرایا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو مار بھی دیا جاتا ہے۔

جیسے ہماری سیاست اور صحافت ناکام نظر آ رہی ہے اس سے کہیں زیادہ ہماری عدلیہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے جس معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہ ہو وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ معاشرہ بہت سے طبقات پر مشتمل ہوتا ہے البتہ اشرافیہ اس معاشرے کا سب سے بااثر طبقہ ہوتا ہے چونکہ یہ بااثر لوگ ہوتے ہیں اس لیے ان لوگوں کو پاکستان جیسے ملک میں آئین و قانون کے تابع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جب کوئی عام آدمی ان لوگوں کے خلاف تھانہ میں جاتا ہے تو اول تو تھانہ کا تھانیدار اس عام آدمی کی ایف آئی آر درج نہیں کرتا اور اگر کر بھی لیں تو گھنٹے دو گھنٹے کے اندر یہ کہہ کر ایف آئی آر ختم کرتا ہے کہ اوپر سے دباؤ ہے اس لیے اکثر تھانیدار علاقے کے بااثر طبقہ سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی مسئلہ میڈیا میں ایشو بن جاتا ہے تو تب جا کر بااثر طبقہ کے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

جیسے کہ شاہ زیب قتل کیس اور عدالتوں میں بھی یہ لوگ اکثر باعزت بری ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارا سسٹم ہی ایسے ہے جو اشرافیہ کو ہمیشہ تحفظ فراہم کرتا ہے اور اگر کسی قانون کی وجہ سے اس طبقہ کو مشکل پیش آئیں تو یہ لوگ اس قانون کو ہی بدل دیتے ہیں۔ مختصراً اتنا کہ پاکستانی عدالتیں غریب کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے اور اگر کسی غریب کو انصاف مل بھی جائے تو کبھی مرنے کا بعد ملتا ہے اور کبھی اس وقت ملتا ہے جب یہ غریب اپنے زندگی کا بیشتر حصہ جیل میں گزار چکا ہوتا ہے۔

اس لیے کہا جاتا ہے انصاف اگر دہر سے مل جائے تو وہ انصاف نہیں ہوتا۔ ہماری نظام اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہو گئی ہے یقین کریں جس دن سیاست، صحافت اور عدالت کا محور عوام ہونگے اس دن اس قوم کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

About Mazahir Baig Suto

Mazahir baig suto is student of LLB in international Islamic university islamabad. He is writing columns since 2020.

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin