Mitti Se Mitti Tak Ka Safar
مٹی سے مٹی تک کا سفر
یہ دنیا تعصبات سے بھری پڑی ہے یہاں زندگی گزارنے کے اپنے ہی طریقے ہے، یہاں رنگ، نسل مال و دولت، عہدہ، شہریت، سرمایہ سب کچھ دیکھا جاتا ہے اگر آپ کو یقین نہیں تو اپنے آپ کو کچھ سال پہلے لے جا کر دیکھیں جو ممالک آج اپنے آپ کو انسانیت کے علمبردار سمجھتے ہیں وہاں کیا حال تھا، نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تحریکیں اس بات کی دلیل ہے، بہرحال یہاں کی زندگی جیسی بھی ہو ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے روز قیامت اللہ ہر چیز کا حساب ضرور لیں گا۔
ہمارے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا کے پہلے انسان تھے، اور ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے خلق کیا، اور ہم سب لوگوں کو بھی اپنے حصہ کی مٹی اس زمین کو واپسی لوٹانی ہیں، یہی حقیقت ہے ہم کبھی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے البتہ یہ ممکن ہے کہ ہے ہم کچھ لمحوں کے لے اس حقیقت کو بھولا سکتے ہیں لکین جوں ہی بڑھاپا آجائے گا ہم دوبارا اس حقیقت کی طرف لوٹ آئیں گے اور آخرت کی تیاری شروع کر دئے گئے۔
میں نے اپنی اس کم عمر زندگی میں ہر قسم کے لوگوں کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا، کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے کبھی ہوائی جہاز اور ایئر کنڈیشنرز گاڑیوں کے بغیر سفر نہیں کیے، کبھی بھی لاکھوں اور ہزاروں سے کم کے کپڑے نہیں پہننے، کبھی ٹھنڈا کھانا نہیں کھایا، کبھی ہزاروں سے کم کے جوتے نہیں پہننے، بہتر سے بہتر ہسپتالوں میں علاج کراتے رہے ان لوگوں میں کچھ بڑے عہدے کے مالک تھے، کچھ شہریت کے اعلیٰ بلندیوں کو چھو رہے تھے کچھ لوگ دنیا کے سرمایہ کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔
اور دوسرے ایسے لوگوں کو اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا جنہوں نے ہوائی جہاز میں سفر تو دور کی بات کبھی ایئر کنڈیشن گاڑی تک نہیں دیکھ سکیں، لاکھوں کے کپڑے پہننا تو دور کی بات کبھی لاکھ روپے اکٹھے نہیں دیکھ سکیں، پھٹے کپڑے اور جوتے پہنے پر مجبور تھے، کبھی کسی اچھے ہسپتال میں علاج نہیں کرا سکے یہ سب کے سب غریب لوگ تھے۔
ایسے لوگوں کو بھی اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا جو نہ تو غریب تھے اور نہ ہی امیر یہ متوسط طبقے کے لوگ تھے، ان لوگوں نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی اور زندگی میں بہت کچھ حاصل بھی کیا لیکن کچھ چیزوں کو محنت کے باوجود بھی حاصل نہ کر سکے ایسے لوگ دراصل اپنی اولاد کے لے اپنی زندگی واقف کر دیتے ہیں اور ان کی اولاد بھی اکثر اوقات کرپٹ نظام کے ہاتھوں اپنے اور والدین کے خوابوں کا قتل ہوتے دیکھ سکتے لیکن کچھ کر نہیں سکتے ہیں۔
میں نے ایسے لوگوں کو بھی اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا جو انسان تو تھے لیکن کبھی انسانوں نے انہیں انسان نہیں سمجھا، کبھی اپنوں نے انہیں اپنے ہونے کا احساس نہیں دلایا، ان لوگوں کو بھیک مانگنے اور ناج گانوں کے ذریعے ہی کھانے پر مجبور کیا اور کبھی معاشرہ کا حصہ نہیں سمجھا یہ لوگ ہیجڑے تھے۔ یہ سارے لوگ امیر، غریب، متوسط طبقے یا پھر ہیجڑے سب کے سب خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے بس سارے لوگوں سفید کفن میں لپیٹے من و مٹی میں دفن ہو گئے۔
ہماری یہ زندگی دراصل مٹی سے لے کر مٹی بننے تک کے سفر کا نام ہے بلکہ اس سے بھی کم مٹی بننے میں تو کافی وقت لگتا بس سانس روک نے تک کے سفر کا نام ہے۔ یہ جو زندگی جس کے چند سالوں کے آرام کے لے ہم کیا سے کیا نہیں کرتے ہیں یہ عارضی ہے اصل زندگی کو کہ ان گنت ہے جو عارضی زندگی کے بعد شروع ہوگئی۔ بس ہم انسان اس دنیا میں اپنے ساتھ خواہشوں کا سمندر لیے آتے ہیں جس میں تیرتے تیرتے ڈوب جاتے ہے۔