Akhir Kab Tak?
آخر کب تک؟
1973 آئیں پاکستان کے مطابق پاکستان ایک اسلامی اور جمہوری ملک ہے، جب ہم تاریخ پر نظرِ دوڑائیں تو ہمیں کچھ اور ہی نظر آ رہا ہوتا ہے کیا عملی طور ہر بھی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس پر بحث کی اور دن سہی مگر آج پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظرِ دوڑاتے ہیں۔
1947 کو پاکستان آزاد ہوا جس کے بعد ان 75 سالوں میں پاکستان میں 29 وزیراعظم آئے لیکن بد قسمتی سے ایک بھی اپنی 5 سالہ مدت مکمل نہ کر سکا۔ جن میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی کو قتل کیا گیا، باقیوں کو کرپشن کے الزامات جن کی تعداد تقریباً 18بنتی ہے، براہ راست فوجی بغاوت اور حکمران گروپوں میں آپس کے اختلافات کی وجہ سے گھر بھیجا گیا۔
پاکستان کی اب تک کی تاریخ میں سوائے عمران خان کے کسی کو بھی عدم اعتماد کے ذریعے فارغ نہیں کیا گیا البتہ بینظر بھٹو کو عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے باوجود بھی ناکام ہو گئی تھی۔
جس طرح عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا گیا اس سے پاکستان کے لوگ کبھی نہیں بھولیں گے کیونکہ عجیب مناظر تھے راتوں رات لوگوں کے ضمیروں کو جگایا جا رہا تھا، جو لوگ چار دن پہلے اہلیہ سمیت عمران خان کو ملا کرتے تھے اور ساتھ کھڑا ہونے دعویٰ کر رہے تھے ان لوگوں کو اچانک عمران خان دنیا کا نالائق شخص نظر آ رہا تھا، پھر سندھ ہاؤس اور اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کیا ہؤا یہ سب عوام دیکھ رہی تھی۔
یہ تو ان لوگوں کی کہانی تھی جو کل تک عمران خان کو ارطغرل غازی سمجھتے ہیں، اب آتے ہیں ان لوگوں کی جانب جن کی پوری زندگی ایک دوسروں کے خلاف سیاست کرنے میں گزری تھی ایک دوسروں کو چور ڈاکووں سمجھتے تھے ادھر نواز شریف یہ نعرے لگا رہا تھا کہ زرداری عمران بھائی بھائی وہاں بلاول بھٹو نواز شریف کو ضیاء الحق کا اصلی بیٹا کہہ رہا تھا۔
PDM کے سب سے بڑا رہنما استعفیٰ دینے کی بات کر رہا تھا وہاں پی پی پی PDM کا حصہ نہیں تھی مختصراً یہ کہ جن لوگوں کے نظریات، خیالات اور سیاست ایک دوسرں سے دور دور تک نہیں ملتی تھیں آخر کیسے اکھٹے ہو گئے تھے یہ بات عوام کی سمجھ سے باہر تھی۔
اس پوری صورتحال کو عمران خان نے امریکی سازش کا نام دیا جس کے ثبوت کے طور پر المعروف جلسے میں ایک مراسلہ لہرایا۔
حالات ایسے پیدا ہوگے تھے کہ عوام اس مراسلہ کی حقیقت کو جاننے چاہتے تھے بعد ازاں نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے مراسلہ کی حقیقت کو تسلیم کیا اور مداخلت کا اعتراف بھی کیا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی نئے وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ایک مرتبہ پھر نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا ایک مرتبہ پھر کہا کہ مداخلت ہوئی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ سازش نہیں ہوئی بعد ازاں نئے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں امریکی دھمکی کا بھی اعتراف کیا۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے امریکی سازش والا موقف کو تسلیم کرچکی ہے جس کا ثبوت ان کے پشاور، کراچی لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں لاکھوں کا جم غفیر ہیں۔
سازش ہوئی یا نہیں یہ تو واضح ہے اب آتے ہیں اس بات کی جانب اس ساری صورتحال میں کس کا نقصان ہوا۔ یہ بھی واضح ہے کہ سیاسی طور پر مودہ متحدہ حکومت کو نقصان ہوا اس سے بھی زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا پاکستان معیشت کا ہوا جس مہنگائی کا نعرہ لگا کر عدم اعتماد لایا گیا تھا کیا اب وہ مہنگاہی کم ہوئی کیا پاکستان کی معیشت پہلے سے زیادہ بہتر ہے اس کا جواب نہیں میں ہے۔
اس متحدہ حکومت کے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عمران کے آخری سال میں GDP 5.96 رہی جس سے آپ تقریباً 6 کہہ سکتے ہیں، مشرف دور کے بعد پاکستان کے تاریخ میں صرف عمران خان کے دور میں ایسا ہوا ہے کہ مسلسل دو سال GDP 5 فیصد سے اوپر رہی ہے وہ بھی کورنا اور دوسرے عالمی مسائل کے باوجود اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت اتنی خراب بھی نہیں تھی جتنی پاکستانی میڈیا میں بتایا جاتا تھا یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی تھی لکین یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں تھی خود امریکہ میں40 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔
اب یہاں کچھ سوالات ہے جو عوام پوچھنا چاہتے ہیں اگر آپ کی معشیت بھی خراب نہیں جتنی میڈیا پر بتایا گیا، متحدہ حکومت بھی مہنگائی کو نہیں سنبھال سکتی ہے تو پھر ایک وزیراعظم کو فارغ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ملک میں موجود اس سیاسی عدم استحکام اور ایک مہینے میں ہونے والی معاشی اور سیاسی تباہی کا آخر زمیداری کون ہے؟
آخر کب تک یہی تماشہ لگے گا جیسے بھی جب چاہیں نکل کر باہر پھینک دیں اور مدت پوری نہیں کرنے دیا جائے۔29 وزیراعظم آئے کیا ان میں سے ایک بھی اس لائق نہیں تھا کہ اپنی مدت پوری کر سکے؟ ایک بار اس پر ضرور سوچیں۔