Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Master Faheem
  4. Tax Dena Parega

Tax Dena Parega

ٹیکس دینا پڑے گا

سال دو ہزار سترہ یا اٹھارہ میں یہ افواہ پھیلی تھی، ہمارے ادارے کے حوالے سے جہاں میں جاب کرتا ہوں کہ آنے والی عید پر دو یا تین بیسک سیلریز بطور بونس(عیدی) دی جائیں گیں۔ جو کہ اوپر سے نیچے تک کی رینکنگ کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی 50 سے 70 ہزار روپے پر پرسن کی ایوریج نکلتی تھی۔ یعنی سبھی کو ان کی بیسک سیلریز کا 2x یا 3x ایکسٹرا ملنا تھا۔ اس خبر سے ہر بندہ بہت خوش تھا میرے تمام کولیگز تمام سینئرز، جونیئرز سبھی پرجوش تھے کہ کاش سچی ہو بات یہ بونس لگ جائے مزہ آ جائے گا فلاں ڈھمکاں۔

سوائے ایک بندے کے!اور وہ بندہ تھا میں، میری اس مدعے پر میرے کئی کولیگز سے بحث بھی ہوئی اچھی خاصی تو ترار بلکہ چند ایک سے تو گرماگرمی بھی ہو گئی ایسے ہی جذباتیت میں۔ میں اس ممکنا بونس(جس سے مجھے بھی پچاس ہزار کے لگ بھگ رقم ملنا متوقع تھی) کے خلاف بلکہ انتہائی خلاف تھا۔ وجہ تھے وہ فگرز جنہیں میں دیکھ رہا تھا کہ صرف ہمارے ادارے میں تقریباً 80 ہزار سے زائد افراد تھے۔ اگر صرف ان اسی ہزار کو یہ بونس ملتا تو ہی یہ چار ارب کی رقم بنتی تھی۔

اور اگلی بات یہ کہ ہم سے ہی متعلقہ بلکہ ہم سے لیڈنگ رول پر موجود ادارے کے پرسنز کی تعداد چھ، سات لاکھ تھی۔ اور ان کی تنخواہ ہم سے قدرے کم ہونے کے باوجود بھی ان سب پر جب یہ بونس لگتا تو کم از کم چالیس ہزار فی کس کے حساب سے بھی یہ 24 ارب کی خطیر رقم بنتی تھی۔ چوبیس یہ اور چار چار، پانچ پانچ دوسرے دو کی، کل تیس سے پینتیس ارب روپے کی خطیر رقم۔

میرا مدعا یہ تھا کہ بھائی پیسے کِسے نہیں چاہیئے ہوتے؟ بونس اچھا ہوتا لیکن اس وقت میں جب ملک کا بال بال قرضے میں ہو، آپ قرضہ لے لے کر ملک چلا رہے ہوں، آدھی عوام روٹی کے لیے ماری ماری پھر رہی ہو، ادارے خسارے میں جا رہے ہوں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اربوں میں ہو اس وقت ایسے "بلاوجہ" کے بونس کی کوئی تُک نہیں بنتی جو نہ تو بجٹ، نہ کوئی الاؤنس یا انکریمنٹ ڈائریکٹ بونس، ایسا جو ملکی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ بن جائے۔

یہاں میرا نقطہء نظر صرف یہ تھا کہ ہم اپنے پاؤ گوشت کے لیے ملک کی پوری بھینس ذبح نہ کریں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نقطہء نظر شدید نقد کا نشانہ ہی رہا۔ کولیگز کے نزدیک میرا دماغ خراب تھا یا محب وطنی کا بھوت چڑا ہوا تھا یا چند ایک کا مشورہ تھا کہ تم تنخواہ بھی نہ لیا کرو وغیرہ وغیرہ۔ کل ملا کر یہی سوچ تھی کہ بس یہ مفت کا پچاس ساٹھ ہزار ہمیں ملنا چاہیے باقی جائے بھاڑ میں۔ (یہ سو فیصد حقیقت پر مبنی واقعہ ہے)

یہ واقعہ یہاں لکھنے کا مقصد، کل سے پھیلی ہوئیں وہ پوسٹیں اور وہ طعنے اور دانشوریاں ہیں جس میں پیٹا جا رہا کہ دیکھو دیکھو فری لانسرز کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے، ابھی ٹریپ کیا جا رہا ہےکل کو ٹیکس بھی لگے گااور ایسے پیٹا جا رہا ہےجیسے کوئی ظلم ِعظیم ہونے جا رہا ہو۔ یہاں مجھے وہ بڑے مشہور سوال کا جواب مل جاتا ہے جب بہت سے مواقعوں پر پوچھا جاتا ہے کہ آپ(فرد) نے ملک کو کیا دیا؟ ہم تو وہ ٹیکس دینے کے روادار بھی نہیں جو عدل کے تقاضوں میں پورا اترتا ہے کہ جہاں ایک مزدور اور ریڑی والا، ایک ٹھیلے والا، ایک چھوٹا دکاندار سب ٹیکس دیتے ہیں جہاں مہینے کا دس ہزار سے لے کر 50 ہزار کمانے والا بھی ایک شکل میں ٹیکس دے رہا اور 50 ہزار سے لاکھ کمانے والا بھی دوسری شکل میں۔

وہاں پر فری لانسرز کی یہ کمیونٹی جو ایوریج میں ان سبھی سے کہیں زیادہ کما رہی ہے جو مہینے کے لاکھوں کما لیتےہیں، وہ اپنے لاکھوں میں سے چند ہزار کے ٹیکس کے روادار نہیں۔ اور عجیب عجیب منطق اور اور عجیب و غریب طعنے شروع کیے ہوئےہیں۔ ہم سبھی محب وطن ہیں، بہت بڑے دانشور بھی ہیں ہم میں جو ہر ہر معاملے میں اپنی رائے کو حتمی رائے، اپنی عقل کو عقل ِکُل، اپنے علم کو علم کامل گردانتے نظر آتے ہیں، محبِ وطنی میں فلسفہ اور دانشوری جھاڑتے سانس نہیں تھمتا لیکن کب تک؟ اسی وقت تک جب تک اپنے پیٹ پر لات نہ پڑے، جہاں اپنی جیب سے کچھ جانے لگا، جہاں اپنا کوئی مالی یا ذاتی مفاد سٹیک پر ہوا۔

وہاں ہم محبِ وطن سے نکل کر "زیادہ سیانے" بن جاتے ہیں جنہیں سب سمجھ آ رہا ہوتا ہےکہ ہک ہا یہ تو ٹریپ ہو رہاہے یہ تو ٹیکس دینا پڑے گا، یہ تو فلاں یہ تو ڈھمکاں۔ میں پیٹ کو بالکل فوقیت دیتا ہوں کہ انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے، لیکن گلے کو بالکل بھی ویلیو نہیں دیتا کہ جن کے پیٹ بھوکے ہیں وہ تو بولیں لیکن جو ٹھونس ٹھونس کر گلے سے باہر آ رہے ہیں، ان کی چیخیں چہ معنی دار۔ خیر کہاں پہنچ را میں وی؟

جہاں کروڑوں لوگ استعمال کی گئی بجلی کا بل دھونس سے نہیں دیتے۔ وہاں اپنی خوشی سے ڈیو ٹیکسز پے کرنے کی امید، ہم چاہتے ہیں کہ کوئی جادو کی چھڑی گھومیں اور ملک خوشحال ہو جائے، دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں ملک اپنی عوام کو نوازنے لگے، لیکن ہم ٹس سے مس نہ ہوں، ہمیں امریکہ اور جاپان جیسی سہولیات میسر آ جائیں بیٹھے بیٹھے لیکن ٹیکس کا آنہ جیب سے نہ دینا پڑے۔

میں خود بطور سٹرگلنگ فری لانسر یہ کہتا ہوں جو حکومت نے کل لگانا وہ ٹیکس آج لگائے، اور بطورِ پاکستانی مجھے اپنی آمدنی کا معقول ٹیکس دینے میں کوئی کسی قسم کا رتی بھر بھی مسئلہ نہیں۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari