Social Media Wabal e Jan
سوشل میڈیا وبالِ جان
سوشل میڈیا ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، اور اسنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے عروج کے ساتھ، ہم جس طرح سے بات چیت کرتے ہیں، معلومات کا اشتراک کرتے ہیں، اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، بہت زیادہ بدل گیا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا بے شمارفوائد پیش کرتا ہے، وہیں یہ نوجوانوں پر بہت سے اثرات بھی پیش کرتا ہے جو کہ احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تحریرکا مقصد نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کو تلاش کرنا ہے، اور منفی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہے۔ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے سب سے زیادہ تشویشناک اثرات میں سے ایک آن لائن ہراساں کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے فراہم کردہ گمنامی افراد کو نقصان دہ رویے میں ملوث ہونے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے، جس سے نفسیاتی پریشانی اور متاثرین کے لیے طویل مدتی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
جسمانی سوشل میڈیا پر احتیاط سے تیار کردہ تصاویر اور طرز زندگی کی مسلسل نمائش نوجوانوں میں ناکافی اور کم خود اعتمادی کے جذبات میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ اپنے آپ کو غیر حقیقی معیارات سے موازنہ کرنے سے جسمانی عدم اطمینان اور دماغی صحت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی لت کی نوعیت ضرورت سے زیادہ استعمال کا باعث بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں وقت کا ناقص انتظام اور دیگر اہم سرگرمیوں جیسے مطالعہ، جسمانی ورزش، اور آمنے سامنے سماجی تعاملات کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اس سے تعلیمی کارکردگی پرنقصان دہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔
گم ہونے کا خوف سوشل میڈیا اکثر سماجی واقعات، تجربات، یا رجحانات سے محروم ہونے کا خوف پیدا کرتا ہے۔ دوسروں کی بظاہر پُرجوش زندگیوں کے ساتھ مسلسل نمائش اضطراب، تنہائی اور حقیقت کے بارے میں ایک مسخ شدہ تصور کا باعث بن سکتی ہے۔ سوشل میڈیا بلاشبہ آج کے نوجوانوں پر منفی اثرڈالتا ہے۔ اگرچہ یہ کنیکٹیویٹی، معلومات کا اشتراک، اور تخلیقی اظہار پیش کرتا ہے، جیسے خطرات بھی لاحق ہے۔
نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا کے ساتھ صحت مند رشتہ استوار کرناہے، اس کے ممکنہ نقصانات کو سمجھنا اور اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنا بہت ضروری ہے۔ مزید برآں، والدین، ماہرین تعلیم، اور پالیسی سازوں کو نوجوانوں میں ڈیجیٹل خواندگی، آن لائن حفاظت، اور ذہنی تندرستی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں میں ایک نشہ بن گیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ممکنہ خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے قومی سطح پر عوامی آگاہی مہم کو فروغ دیا جائے، انٹرنیٹ کا مسلسل استعمال دماغی الجھن اور ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کررہا ہے، نوجوان نسل میں رات گئے تک سوشل میڈیا پر وقت گزارنے سے نیند کی خرابی اور ذہنی صحت بھی متاثرہورہی ہے۔ سوشل میڈیا کے مسلسل استعمال سے بچوں میں بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ مسلسل سوشل میڈیا کے استعمال سے ذہنی صحت کے خدشات میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا۔
اس وقت سوشل میڈیا نوجوان نسل کے لیے ایک نشہ بن گیا ہے، لڑکے اور لڑکیاں اس نشے کی عادی ہوتی جارہی ہیں۔ بچے بھی گیمز میں اس قدر مشغول ہو جاتے ہیں کہ انہیں کھانے اور تعلیم کو وقت نہیں دے پا تے۔ تعلیم میں بھی پیچھےرہ جاتے ہیں۔ ریسریچ کے مطابق سوشل میڈیا کا بجااستعمال اعصابی اور نروس بیماروں کا سبب بنتا ہے۔ گھر کا ہر فرد علیحدہ علیحدہ اپنے موبائل سے سوشل میڈیا سے منسلک رہتا ہے اور والدین بھی اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ بچے پڑھ رہے ہیں یا منفی طور پر انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں۔ اس بگاڑ کی وجہ سے معاشرے میں بیشتر منفی اثرات اور برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں، نوجوان بچے صحت مند سرگرمیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، سوشل میڈیا سے مستقل منسلک رہنے کی وجہ سے نوجوان ہماری اقدار اور خاندانی رسوم اور روایات سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں، اس وقت سوشل میڈیا کا نشہ نوجوانوں کی زندگی میں سرائیت کرچکا۔
سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز جن میں انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ، فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں پر نوجوان نسل تصاویر اور وڈیوز پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، انٹرنیٹ پہ وائرل ہونےچکروں میں حدود سے بھی تجاوز کر جاتےہیں۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کم کیا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ دنیا بھر میں 93 ملین سیلفیاں لی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا وبالِ جان بن چکا ہے۔ ٹک ٹوک پروڈیوز بناتے ہوئے نا جانے کتنے افراد آپنی جان کی بازی ہار گئے۔
آنلائن قرضہ ایپ لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ متعد د افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے، جس نے بچوں سے لے کر بوڑھوں کوآپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جارہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان برقی صفحات کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے، جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس ذریعہ کو استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ لت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیتی ہے۔