Khamyaza Ki Tafheem
خمیازہ کی تفہیم
ترقی پسند تحریک کے بعد آزاد نظم کی ترویج اور اس کو علامتییت کالباس پہنانا جدیدیت کی دین ہے۔ کیونکہ اس نئے رویے نے نہ صرف مروجہ ہیئت سے بغاوت کی بلکہ شعر کی نئی تفہیم و نئے شعور کا ادراک بھی دیا۔ نئی نظم اپنے عہد کی آواز کم اور شاعر کی ذات کی آواز زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ میراجی کی شاعری داخلی واردات پر مشتمل ہے۔ ان کی نظم خمیازہ ایک ایسے انسان کی المیاتی تصویرہے جس کو نہ محبت ملی، نہ اس نے اپنی خواہشات پوری کیں بلکہ یہ انسان جدید دور کا محروم اور ناکام انسان ہے۔
جس طرح جدیدیت میں انسان تنہائی، اجنبیت اور محرومی کا شکار تھا۔ یہ رویہ ہمیں میراجی کی نظموں میں بھی ملتا ہے۔ میراجی نے اس نئی صورت حال کو معنوی و فنی سطحوں پر محسوس کیا اور روایتی سانچوں کو توڑ کر نئی زیست کی عکاسی کی۔
لطیف الرحمن جدید فرد کی مجموعی کیفیت کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں"جدیدیت فرد کی داخلی جلاوطنی، موضوعی بے پناہی کی ترجمانی و تنقید ہے جس کے نتیجے میں فرد تنہائی الجھن، بے گانگی، اجنبیت، اکیلا پن، بوریت، یکسانیت، بے معنویت، مہملیت، جرم، بے خوفی، بے سمتی، بے یقینی، نا اُمیدی، بیتابی، اکتاہٹ، بیزاری اور مفلسی کی کیفیت سے دور چار ہے"۔ (پروفیسر لطف الرحمن "اردو کا افسانوی ادب")
نظم ملاحظہ کیجیے
تم نے تحریک مجھے دی تھی کہ جاؤ دیکھو
چاند تاروں سے پرے اور دنیائیں ہیں
تم نے ہی مجھ سے کہا تھا کہ خبر لے آؤ
میرے دل میں وہیں جانے کی تمنائیں ہیں
اور میں چل ہی دیا غور کیا کب اس پر
کتنا محدود ہے انسان کی قوت کا طلسم
بس یہی جی کو خیال آیا تمہیں خوش کردوں
یہ نہ سوچا تھا کہ یوں مٹ جائے گا راحت کا طلسم
اور اب ھمدمی و عشرتِ رفتہ کسے
آہ اب دوری ہے دوری ہے فقط دوری
تم کہیں اور میں کہیں اب نہیں پہلی حالت
لوٹ کے آبھی نہیں سکتا یہ ہے مجبوری
مری قسمت کہ جدائی تمہیں منظور ہوئی
مری قسمت کہ پسند آئیں نہ میری باتیں
اب نہیں جلوہ گہ خلوتِ شب، افسانے
اب تو بس تیرہ و تاریک ہیں اپنی راتیں
میراجی کی اس نظم میں ان کی فکرکے کئی رموز و اسرار پوشیدہ ہیں۔ میرا جی نے نظم کو خارجی Realiesm سے نکال کر انسان کے باطن میں اُتار دیا۔ نظم خمیازہ میراجی کی نمائیندہ نظموں میں سے ایک ہے۔ خمیازہ نظم کے کردار(انسان) میں وہ تمام رویے موجود ہیں جو جدیدیت کا خاصہ ہیں۔ اس نظم کا کردار جو شروع میں نامعلوم شخص(محبوب) (تم) سے مکالمہ کرتا ہے کہ تم نے مجھے خول سے باہر جانے کا کہا تھا۔ اور کہا تھا کہ نامعلوم دنیائیں جو بے سمت اور کہیں نہیں ہیں ان کی مخبری کرنی ہے اور وہاں تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو میراجی کی شاعری میں بہت کم ملتی ہے۔ کیوں کہ یہ امر ان کے انسان (جو بے عمل و جامد ہے) کے لیے غیر متوقع واقعہ تھا۔
دوسرے بند کا آغاز داخلی خود کلامی سے ہوتا ہے یہاں یہ انسان دنیا کی موجودات و کل چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے۔ غور و فکر (سماجی، معاشی، سیاسی،)کے بعد اس انسان (کردار)کو اپنی حیثیت و اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ میں کتنا محدود و بے بس ہو، ہر چیز میری گرفت سے ماؤراہے، میرا وجود بیگانگی و محرومیت کا شکار ہے۔ حالانکہ اس غور و فکر کا پس منظر اُس انسان کو خوش کرنا تھا جس نے ابتداء میں خواہش ظاہر کی تھی لیکن اِس کے پیش منظر میں انسان کی اپنی خوشی قربان ہوگئی اور وہ ازلی سچائی و حقیقت سے ہم کلام ہوگیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی یہ ناآسودگی اس کی ذات کا حصہ تھی یا اس کا اپنا انتخاب تھا۔
پہلے دو بندوں میں انسان کی اس سچائی (محروم، تنہا، بے بس، قنوطی، بے معنی ہستی) کو میراجی دونوں سطحوں (باطنی و ظاہری) پر یقین کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ باقی دو بند میراجی کے دکھ و سکھ کے فلسفے کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ "اور اب ھمدمی و عشرتِ رفتہ کیسے" یہ مصرع اعلانیہ ہے کہ داخلی و خارجی حقیقت جاننے کے بعد میراجی اپنے مرکزی بیانیہ کی طرف آتے ہیں۔ "آہ اب دوری ہے، دوری ہے فقط دوری ہے"۔ یہ بیانیہ دوری ہے میراجی نے ہر چیز کو دور سے دیکھا اور محسوس کیا۔ اس نظم میں بھی ہمیں دوری کاتصور ملتا ہےلیکن یہاں یہ دوری انفراد کی حیثیت رکھتی ہے۔ مکالماتی انداز میں دوری کی تفہیم کی سعی کی گئی ہے۔
آخری سطور میں میراجی کا سماجی وجود کی نفی، دنیا کی رنگا رنگی سے بیزاری اور چیزوں سے تخلیقی اکتاہٹ نظر آتی ہے میراجی نے ہر چیز کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا۔ ذاتی محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود انہوں نے ان میں ہی لذت کی تلاش کی۔ آخری بند ان تمام حالات کا آئینہ ہے کہ کس طرح میراجی اپنی تاریک راتوں پر اکتفاکرتے نظر آتے ہیں۔ اور نظموں کی طرح اس نظم میں بھی تنہائی و کرب کی اس کیفیت کا بیان ہے جو میراجی کی شاعری کا محسوساتی کلامیہ ہے۔