1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Sahil/
  4. Adab, Adeeb Aur Siasat

Adab, Adeeb Aur Siasat

ادب، ادیب اور سیاست

ادب اور سیاست دونوں انسانی سماجی زندگی کے اہم حصے ہیں ان دونوں کی بنیادیں انسانی معاشرتی زندگی میں پیوست ہیں۔ لفظ "سیاست کے لغوی معنی ملک کی حفاظت و نگرانی، حکومت و سلطنت، انتظام ملک، بندوبست اور نظم و نسق کے ہیں"۔

سیاست کا مفہوم آج کل منفی اصطلاحات میں رائج ہے اور سماج میں سیاست اور سیاسی محرکات کو لوگوں نے غلط رنگ دیا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سیاست کا آغاز بھی وہی سے ہوا جب سے انسان نے انتظامات اور سماجی نظم و ضبط کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اقتدار اور طاقت کا حصول انسانی فطرت میں شامل ہے جب کسی خطے میں ایک فرد یا گروہ برسراقتدار آتا ہے تو مجموعی طور پر طاقت کی بدولت پورا نظام اس کی گرفت میں آجاتا ہے۔ فرد کا یہ عمل اجتماعی فلاح و بہبود اور دوسرے انسانوں کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ طاقت کاحصول ہر فرد کی ذاتی خواہش ہوتی ہے اگر کسی فرد کو سماج میں طاقت نہیں ملتی تو وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طورپر سیاسی انتظامات اور سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اسی طرح معاشرے کا ہر فرد ریاست کے سیاسی نظام سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ بقول سٹیفن سپنڈر:

"سیاست کا مقصد سیاست نہیں بلکہ وہ تما م محرکات ہیں جن پر مملکت کے سیاسی ڈھانچے کے اندر عمل کیا جاسکتا ہے۔۔ ایک ایسا سماج جس میں سیاست کے باہر کوئی اقدار نہ ہوں ایک مشین کی طرح ہے جو انسانی مال اسباب ڈھوتی رہی ہے لیکن اس کے اداروں کا کوئی ایسا مقصد نہیں ہوتا جس میں انسانوں کی ذمہ داری، خارجی خواہشات، تنہائی اور محبت کی ضرورتوں کی عکاسی ہوسکے"۔

کسی بھی سماج کی تشکیل کے لیے انسانوں کے باہمی تعلقات کی اہمیت و حیثیت ناگزیر ہے۔ اُس وقت تک سماج نامکمل ہوتا ہے جب تک اُسے کوئی منّظم اور درست نظام میسر نہ ہو۔ سیاست ہی کے ذریعے انسان ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے نظریات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست کسی بھی معا شرے میں اجتماعی وحدت کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کے محرکات کے اثرات پورے سماج پر پڑتے ہیں۔ کسی بھی سماجی قدر یا پہلوؤں کو ہم سیاست سے الگ نہیں کرسکتے اور نہ سیاست کا الگ کوئی وجود ہے۔

"سیاست ایک ایسا عمل ہے، جس میں لوگ اجتماعی طور فیصلہ لیتے ہیں۔ یہ عام طور پر حکومت یا ریاستی اُمور کو چلانے کا ایک فن یا سائنس(علم) ہے۔ یہ حکومتی معاملات میں طور طریقوں یا رویوں کو بیان کرتا ہے تاہم سیاست دوسرے باہمی معاملات میں دیکھی جاسکتی ہے جیسے کہ تعلیمی یا مذہبی اداروں میں اس مین حکام بالا یا طاقت کے معاشرتی تعلقات شامل ہوتے ہیں اور یہ سیاسی اکائی میں معاشرتی تعلقات کو بھی شامل کرتا ہے"۔

سماج میں ادب اور سیاست کا کردار بظاہر الگ الگ ہے۔ ادب انسان کی باطنی دنیا کی سیر کرتا ہے اور فرد کی روحانی واردات کا سہارا بنتا ہے۔ جبکہ سیاست انسان کی خارجی اور مادی دنیا کی پرورش کرتی ہے اور باہمی نظم و ضبط کا حوالہ بنتی ہے۔ لیکن ایک موڑ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی ہیں۔ ادیب سماج کا فرد واحد ہوتا ہے اور سیاست اُس سماج کے نظم و انتظام کا نام ہے اس تعلق کی وجہ سے ادیب کا ادب پارہ سیاست اور سماج کے اثر سے متاثر ہوگا۔ کوئی بھی تخلیق سیاسی و سماجی صورتحال سے الگ نہیں ہوسکتی۔ سیاسی تبدیلیوں اور فیصلوں سے ادیب بھی متاثر ہوتاہے اور ادب بھی اپنا رُخ متعین کرتا ہے۔ اسی طرح ادب بھی سماج اور سیاست کی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے لیکن یہ عمل سُست روی کا شکار ہوتا ہے۔ ادب، سماج اور سیاست کے اثرات کے حوالے ڈاکٹر انور سدید یوں لکھتے ہیں:

"ادب ایک ایسا سماجی عمل ہے جو زبان اور تخلیق کے حوالے سے بالواسطہ طور پر زندگی، معاشرے اور عوام کو متاثر کرتا ہے۔۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ ادب قوموں، ملکوں اور لوگوں پر اپنا اثر ضرور مرتب کرتا ہےلیکن یہ اثر فوری یا براہ راست نہیں ہوتا۔۔ اس کا دائر ہ اثر اتنا وسیع اور طریقۂ عمل اتنا بالواسطہ ہے کہ ان اثرات کا اعداد و شمار کے حوالے سے جائزہ لینا ممکن ہی نہیں"۔

ادیب اپنے معاشرے کا سب سے حساس فرد ہوتا ہے اس کے ہاں ایک خاص قسم کا ادبی و تنقیدی شعور ملتا ہے۔ اس شعور کے پیچھے لکھاری کی پوری ذات، اس کا سماج اور بین الاقوامی منظر نامہ کام کررہا ہوتاہے اور لاشعوری طور پر سیاسی و سماجی اثرات ادیب کے فن پارے میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان اثرات کو ادیب اپنی اور عوام کی زندگی سے جوڑ کر اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بناتا ہے۔ سماج انسانوں کے باہمی تعلق کا نتیجہ ہے اور ادب و سیاست میں انسان کی اہمیت مسلم ہے۔ انسان کے بغیر سیاست و ادب دونوں نامکمل ہیں اسی طرح ادب اور سیاست کے باہمی تعلق میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ سیاست معاشرے کی اولین طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ادب سمیت پوری عوامی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ منفی سیاسی اقدار ادب اور زندگی کے لیے زہر کی مانند اور مثبت اقدار ادب و ریاست کو ترقی کی طرف گامزن کرتی ہیں۔ بقول سجاد باقر رضوی:

"سوال یہ ہے کہ زندگی کی وہ کونسی قوتیں ہیں جو ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔ اس ضمن میں مَیں یہ کہوں گا کہ یہ قوتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو ہماری زندگی کے مقداری رشتوں کا تعین کرتی ہیں اور دوسری وہ جو ہمیں اقدار کے رشتوں میں منسلک کرتی ہیں۔ پہلی قوت کا تعلق معاشی و سیاسی حالات سے ہے اور دوسری کا تعلق زندگی کے جذباتی و روحانی اظہار سے ہے۔

سیاست زندگی کے تمام متعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کوئی بھی ادبی فن پارہ اس وقت تک آفاقی قدروں کا حامل نہیں ہوسکتا جب تک اس فن پارے میں سیاسی رویوں کا ادراک نہ ہو ں کیونکہ اِس تخلیقی عمل کے پس منظر میں ادیب کا عصری شعور کارفرما ہوتا ہے۔ بڑا ادیب نہ صرف اپنے عہد کے سیاسی رویوں سے باخبر ہوتا ہے بلکہ وہ ماضی اور مستقبل کے امکانات کی خبر بھی دیتا ہے اس لیے وہ جو بھی ادب تخلیق کرتا ہے اس میں ماضی، حال اور مستقبل کی آمیزش ہوتی ہے۔

ادیب نہ صرف مقامی سیاست سے متاثر ہوتا ہے بلکہ وہ بین الاقوامی سیاسی منظر نامے سے بھی اثر قبول کرتا ہے۔ معاصر ادب میں سیاسی رویے اور سیاسی اقدار بددرجہ اتم موجود ہیں۔ موجودہ مقامی و بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ انتشار اور بدامنی کا شکار ہے اس صورتحال میں ادیب لاشعوری طور پر اپنے عصری سیاسی رویوں سے متاثر ہوکر اِن رویوں کو اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:

"اگر سیاست کو وسیع تر معنوں میں دیکھنا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا شاعر یا ادیب ہے جس کے یہاں اس کے دور کا سیاسی شعور نہیں ملتا۔۔ جس کی تحریر میں اس کا عہد موجود نہیں۔ سیدھی سادی بات تو یہ ہے کہ ایک زندہ ادیب اپنے عہد اور اس کے شعور سے اپنا رشتہ توڑ ہی نہیں سکتا۔۔ جس طرح ہم کسی تحریر کو صرف اس وجہ سے عظیم نہیں قرار دے سکتے کہ اس کا موضوع بڑا ہے۔ اسی طرح محض فنی تقاضوں کا عمدہ اظہار بھی بڑا ا دب نہیں بنتا۔ بڑا اور زندہ ادب تو ایک مرکب عمل ہے، اپنے دور کے شعور اور فنی تقاضوں کی ہم آہنگی کا، باقی تمام چیزیں اس مرکب عمل ہی کی جزئیات ہیں۔

مختصریہ کہ ہر عہد میں ادب پر اپنے ماحول و سماج کے اثرات اپنے نقوش چھوڑتے ہیں اور کوئی بھی تخلیق کار اپنے سماج اور سیاسی حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ ادیب کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سیاسیات کا طالب علم ہوں یا کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں تو اس کے ہاں سیاسی شعور ملے گا بلکہ وہ اپنے سماج کی ہر اچھی اور بری سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ اسی طرح امجد اسلام امجدؔ بھی اپنے سماج کے حساس انسان تھے اور انہوں نے بغور اپنے عہد کے سماجی و سیاسی حالات کا مطالعہ کیا تھا۔ ان کی نظریں اُ ن مظالم پر تھیں جن تک رسائی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ عطاء الحق قاسمی امجد اسلام امجد کی فرد و معاشرے پر گہری نظر کے بارے میں لکھتے ہیں:

"یہ وہ امجد ہے جو فرد اور معاشرے کے بحران سے آنکھیں چار کرتا ہے جو وطن اور اہلِ وطن کی زبوں حالی دیکھتا ہے جیسے تیسری دنیا کا ادراک ہے وہ پابہ زنجیر غلاموں کی بیڑیوں کی جھنکار سنتا ہے اور پھر شعری احساس کے ساتھ وہ سب کچھ قلم بند کرتا ہے"۔

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig