Sunday, 16 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. MRP

MRP

ایم آر پی

میں پچھلے برس انہی دنوں کراچی میں تھا تو ایک سنگین ترین تجربہ یہ ہوا کہ وہاں کی عام دکانداری کا کوئی اصول نہیں تھا، خصوصا ایک کمیونٹی کی دکانداری بہت خطرناک حد تک منافع کے معاملہ میں تجاوز کی حد تک خطرناک دیکھی، جیسے مثلا Aquafina یہ پیپسی برانڈ کا پانی میں نے جب بھی کسی اسٹور سے خریدا 330 ملی لیٹر والی بوتل یا پانچ سو ملی لیٹر والی بوتل تو ہر جگہ ہر دکاندار اس کی الگ قیمت وصول کررہا تھا، میں نے فوڈ پانڈہ سے کسی اسٹور سے آفر میں یوم ڈلیوری منگوائی تو اس کی قیمت شائد 36 روپے تھی، اور عام اسٹور پر پورے ڈھائی ماہ میں صرف ایک دکاندار نے جو گلشن اقبال میں تھا اس نے مجھے یہ بوتل 40 روپے میں دی۔ ورنہ ایک ہی گلی کے چار دکانداروں کے پاس یہ الگ الگ قیمت کہیں یہ 50 روپے، کہیں 60 روپے کہیں 80 روپے حتی کہ 100 روپے تک میں خریدی۔ یہ عالم پورے شہر کا تھا، عام سا جنرل اسٹور ہو یا کوئی کھانے کا ریستوران یا گلی محلے کے کویٹہ چائے والے ہوٹل، ہر شخص اپنی مرضی کی قیمت وصول کررہا تھا، اور شائد آج بھی یہ حال ہوگا۔

مزے کی بات ہے کہ آپ وہاں کسی سے بحث نہیں کرسکتے، آپ کسی مجاز ادارے کو شکایت نہیں کرسکتے، شائد عوام کو معلوم بھی نہ ہو اگر معلوم بھی ہو تو ایسے ادارے کسی بھی طرح کوئئی کاروائی نہیں کرتے۔ ہر دکاندار کے پاس فوری جواب یہ ہوتا تھا کہ آج ہی ریٹ بڑھ گئے ہیں۔ یا پچھلے سال ایک اور مضحکہ خیر جواب جو اکثر ٹھیلے والے رکشے والے اپنی زیادہ قیمت پر باز پرس کے جواب میں دیتے تھے کہ بھائی دیکھو ڈالر کا ریٹ کتنا بڑھ گیا ہے۔ میں تو ان کے اس جواب سے ہی پریشان ہوجاتا تھا کہ ان کی دکانداری کا ڈالر سے کیا واسطہ ہے۔

مجھے طارق روڈ پر ہم نے بچپن کا وہ زمانہ یاد ہے جب رمضان کا مہینے شروع ہوتا یا کبھی کبھی عام دنوں میں طارق روڈ کی کمرشل مارکیٹ میں ایک رضائی کی دکان کے سامنے پرائز کنٹرول والے جو حکومتی ادارے کی طرف سے ایک ٹیبل لگا کر بیٹھتے تھے اور غذائی اجناس کی قیمتوں کے چارٹ ان کے پاس رکھے ہوتے تھے، اسی کے ساتھ ایک سبزی والا ان کے چارٹ سے دگنی قیمت میں سبزی بیچ رہا ہوتا تھا اور وہ دونوں ادھیڑ عمر افراد اسی سبزی والے کی کرسیاں لے کر اسی سے سارا دن مفت چائے پیتے رہتے تھے۔ جو ان کی ٹیبل کے برابر میں ٹیبل پر رکھے چاٹ پر دیے گئے غذائی اجناس کی قیمت سے دگنی قیمت میں سبزی بیچ رہا ہوتا تھا۔

مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ یہ چیزیں کبھی پاکستان میں درست بھی ہو سکیں گی کہ نہیں، حالانکہ پاکستان میں کچھ کمپنیاں جو شاید بین الاقوامی سہی ان کے فکسڈ ریٹ ہوتے ہیں، جو پروڈکٹ کے اوپر لکھے ہوتے ہیں، مگر ایسا بہت کم ہے، ایسی کمپنیاں زیادہ تر وہی ہیں جن کا آج کل بائیکاٹ چل رہا ہے، ورنہ پاکستانی ساری دیسی کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی کوئی طے شدہ قیمت نہیں رکھتی، جو شدید افسوسناک ہے، حالانکہ ماسوائے پاکستان ایشین منڈی کی پروڈکشن اور کاروبار کی دنیا میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے، خصوصا ہندوستان اور بنگلہ دیش میں یہ لفظ MRP یا MSRP استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے Maximum Retail Price زیادہ سے زیادہ قیمت فروخت، یعنی کوئی بھی خوردہ فروش یا دکاندار اس طے شدہ رقم کی اس حد سے زیادہ قیمت نہیں لے سکتا، بدقسمتی سے شائد پاکستان میں کوئی ریٹیلر، ہول سیلر، دکاندار یا کاروباری اس لفظ سے واقف نہیں ہوگا۔ جبکہ یہ قیمت مینوفیکچرر طے کرتا ہے، اس کے بعد اس کی لوجسٹک مارکیٹنگ اور دوسرے سارے اخراجات کے بعد دکاندار کے منافع کی شرح وہی طے کرتا ہے، امریکا کچھ ریاستوں میں بھی یہ طریقہ کار اپنایا گیا تھا مگر وہاں پر مزید کچھ قوانین بنیں کہ دکاندار کو ایک مخصوص شرح کا منافع ضرور ملنا چاہیے۔

اس کاروباری ٹرم کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ صارف کسی بھی جگہ پر ایک مخصوص قیمت ہی اپنی مطلوبہ اشیاء کی ادا کرے گا۔ جن ممالک میں خصوصا انڈیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش و سری لنکا وغیرہ میں جہاں MRP رائج ہے، وہاں پروڈکٹ کے اوپر درج قیمت سے زائد کسی بھی صورت میں دکاندار آپ سے موصول نہیں کر سکتا، ہاں دکاندار اپنی دکانداری بہتر بنانے کے لیے اس قیمت سے کم میں بیچ سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا عام صارف کی مطلوبہ اشیاء کے لئے قیمت کے حوالے سے پاکستان میں ایسے کوئی نظام یا اس سے کوئی بہتر نظام نافذ نہیں ہوسکتا؟ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟

نوٹ: حالانکہ آزاد منڈیوں میں MRP کے تصور کو کئی معیشت دان تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں کیونکہ MRP کا تصور آزاد منڈی کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتا، اس میں مینوفیکچررز یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دکاندار کس شرح سے منافع کمائے گا، اور دکاندار کسی بھی صورت اپنا منافع نہیں بڑھا سکتا، کیونکہ مارکیٹنگ میں اس کی قیمت کی اشتہار بازی ہوتی ہے اور پروڈکٹ پر بھی قیمت موجود ہوتی ہے، مگر یہ نظام بھی ایک بڑے سرمایہ دار کی گرفت میں ہی قابل عمل ہوسکتا ہے۔

جیسے مثال کے طور پر بین الاقوامی کولڈ ڈرنکس کمپنیاں بہت محدود منافع دکاندار کو دیتے ہیں، لیکن وہ ایک بہت بڑا بجٹ اپنی کوالٹی اور مارکیٹنگ پر خرچ کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر ان کا صارف ان کے برانڈ کو ہی خریدنا پسند کرتا ہے، دکاندار کو کبھی کبھی تو بیچنے کی قیمت میں ہی اشیاء مہیا کرتے ہیں، اور سیل ٹارگٹ دینے کے بعد اس پر خوش پروڈکٹ کی کوانٹٹی مفت مہیا کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی ریفریجریٹر اور ایسی کچھ اور پرموشن یا سہولیات، جیسے دکان کا بل بورڈ یا کاؤنٹر، یا اسٹوریج اور ڈسپلے ریکس وغیرہ اپنی مارکیٹنگ کی پروڈکٹ کے طور پر دیتے ہیں۔

Check Also

Judge Caprio

By Rao Manzar Hayat