Saturday, 27 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Maryam Booti Aur Hamare Aqaid

Maryam Booti Aur Hamare Aqaid

مریم بوٹی اور ہمارے عقائد

پنجۂ مریم یا مریم کی بوٹی، یہ ایک گھاس ہے جو پھولدار پودوں کی 23 انواع میں سے ایک جنس ہے۔ اس کی زیادہ تر انواع یورپ اور ایران کے مشرقی سمت میں واقع بحیرہ روم طاس میں پائی جاتی ہیں جبکہ ایک نوع صومالیہ ميں بھی ملتی ہے۔ اسکے علاوہ سعودی عرب میں میدان بدر کے آس پاس بھی یہ گھاس پیدا ہوتی ہے۔

قدیم عرب میں عرب جن جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے تھے، اس میں مریم بوٹی کا استعمال بھی ملتا ہے، اس پودے کی ایک خوبی یہ ہے کہ جب یہ سوکھ جاتا ہے تو تمام شاخیں اندر کی طرف مڑ کر پودے کو ایک گیند نما شکل دے دیتی ہیں۔ بارش برسنے پر یہ دوبارہ سیدھی ہو جاتی ہیں۔ اگر اس کو خشک حالت میں پانی میں ڈبویا جائے تو یہ سیدھی ہو جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم عرب میں خواتین کے حمل کے دوران اس کا پانی خواتین کو درد زہ کی برداشت اور حمل کی پیچیدگی میں معاون ثابت ہوتا تھا۔

لیکن برصغیر میں یہ کہانیاں اتنی تبدیل ہوئیں کہ جب آپ سعودی عرب میں حج یا عمرے کے لئے جائیں گے، تو وہاں مکہ اور مدینہ کی یمنی اور شامی پنساری کی دکانوں میں یہ جڑی بوٹی خشک حالت میں مل جائے گی۔ سنہء 2015 میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری اہلیہ نے یہ وہاں دکاندار سے پوچھیں تھی، یمنی دکاندار نے مجھے پوچھا کہ آپ کو کس لئے چاہیے، میں نے جواباََ اس سے سوال کیا کہ یہ کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے؟

اس نے اتنے کثیر المقاصد فوائد بتائے کہ ہم حیران رہ گئے۔ اس کے مطابق جن کے ہاں اولاد نہ ہو رہی ہو وہ یہ جڑی بوٹی استعمال کر سکتے ہیں، حاملہ خواتین کی حمل کی پیچیدگیوں میں یہ جڑی بوٹی بہترین ہے، ماں کے لئے نوزائیدہ بچوں کی پیدائش کے بعد فیڈنگ کے لئے یہ جڑی بوٹی معاون ہے۔

سب سے مزیدار بات یہ تھی کہ وہاں کے ہر دکاندار کو معلوم تھا کہ پاکستانی اور انڈین یہ جڑی بوٹی لازمی خریدیں گے۔ میں نے خصوصاََ دکانداروں سے یہ بات پوچھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اصل گاہک ہی انڈیا اور پاکستان کے لوگ ہیں۔ ورنہ عرب خود ان جڑی بوٹیوں کو ان مقاصد کے لیے بالکل نہیں خریدتے، سوائے اس بات کے کہ زمانہ قدیم میں یہ عرب قبائل کے ٹوٹکوں میں استعمال ہوتی تھی، اور اس وقت لوگ اس کو دوا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

بالکل اسی طرح بدر کے مقام سے کچھ فاصلے پر ایک کنواں موجود ہے، جسے تاریخ میں بیر شفا کے نام سے جانا جاتا ہے، جنگ بدر کے موقع پر رسولؑ کے لشکر میں کچھ جانور بیمار ہو گئے تھے، اس موقعے پر پانی کی قلت بھی تھی، اس کنویں کا پانی مسلمانوں نے بھی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا گیا۔ کچھ وقت کے بعد ان جانوروں کی حالت بہتر ہو گئی، اس نسبت سے اس کنوئں کا نام بیر شفا رکھ دیا گیا۔

ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ مدینہ، مکہ میں جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں فلاں کنوئیں کا پانی میٹھا تھا، اس سے مراد وہ پانی پینے کے لائق ہوتا تھا، ورنہ اس کے مقابلے میں عموماََ کنوؤں کا پانی کھارا ہوتا تھا۔ مکہ کے اکثر کنوؤں کا پانی پینے کے لائق ہوتا تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، تو مدینہ میں بہت کم کنویں ایسے تھے جس میں پانی میٹھا ہوتا تھا، اور مکہ سے آنے والے تمام لوگ بشمول رسول اللہ ﷺ کے میٹھا پانی پینے کے عادی تھے، اس لئے مدینہ کے ہر اس کنویں کو اللہ کے رسول ﷺ نے پسند فرمایا جہاں کا پانی میٹھا تھا۔

لیکن ایک عجیب مسئلہ یہ ہے، ہمارے پاکستان کے کچھ لوگ کسی بھی قسم کی بیماری کا حل بئر شفا کے "میاہ الشفا" (شفا والا پانی) کو سمجھتے ہیں، اکثر میں پاکستانیوں کو میاہ الشفا اور مریم بوٹی کی کھوج میں دیکھتا ہوں۔ میں نے کبھی کسی عرب کو ان چیزوں کی طرف ایسے مائل نہیں دیکھا۔ کئی پاکستانی خصوصاََ اس پانی کو لے جا کر پاکستان میں اچھی قیمت پر بیچتے بھی ہیں، اس طرح اس پانی کی اچھی خاصی مارکیٹنگ ہو جاتی ہے، ہمارے ہاں تو اکثر مخصوص مردانہ دوائیاں یا معجون کے نام بھی "السعودی" برانڈ بنا کر بیچے جاتے ہیں۔

کورونا وباء کے دنوں میں ماہ جون میں سعودی پولیس نے کئی پاکستانیوں کو گرفتار کیا تھا جو خود کو ڈاکٹر ظاہر کر کے اپنے ہم وطنوں کو کورونا کی جعلی ویکسین فروخت کر رہے تھے۔ سعودی پولیس نے ان جعلی پاکستانی ڈاکٹرز کو مختلف مقامات سے گرفتار کیا تھا جو الگ الگ علاقوں میں اپنا جعلی کاروبار چلا کر سادہ لوح پاکستانیوں سے ہزاروں ریال ہتھیا چکے تھے۔

ریاض پولیس نے مخبری کے بعد ان جھوٹے معالجین کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے تفتیش کے دوران لوگوں کو جعلی ویکسین یا مختلف ٹوٹکوں سے کورونا کے علاج کے بہانے لُوٹنے کا اعتراف کیا تھا۔ ان جعلی ڈاکٹروں کے قبضے سے کئی اقسام کی ادویہ اور جڑی بوٹیاں بھی برآمد ہوئیں تھیں۔ یہ نوسرباز پاکستانی اپنے ہم وطنوں کو ایک دوا یہ کہہ کر بیچ رہے تھے کہ اس کے پینے سے کورونا لاحق نہیں ہو گا اور جو کورونا کے مریض ہیں وہ بھی صحت یاب ہو جائیں گے۔

سینکڑوں پاکستانی ان ڈاکٹروں پر اعتبار کر کے دوا خرید چکے تھے۔ تاہم کسی نے پولیس کو ان کے بارے میں اطلاع کر دی۔ پولیس نے ان ڈاکٹروں کے ٹھکانے پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ ملزمان جس دوائی کو کورونا کا بہترین علاج قرار دے رہے تھے، وہ جانوروں کے علاج کی دوا تھی، جس میں دیگر انسانی استعمال کی دوا بھی شامل کی گئی تھی۔ بہرحال پولیس نے ان ملزمان کو استغاثہ کے حوالے کر کے ان کے خلاف دھوکے بازی اور جعل سازی کا مقدمہ چلایا۔

جدہ میں ایک قدیم سائیکل چوک ہے۔ یہ آج سے پچیس تیس سال پرانی بات ہے، جب سائیکلیں بہت زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔ جہاں اس وقت کسی مقامی سائیکل کمپنی نے ایک بہت بڑی سی سائیکل چوک میں لگا دی تھی۔ کیونکہ اس ایریا میں اس زمانے میں سائیکل کی بہت ساری دکانیں تھیں۔ بعد میں آنے والے وقتوں میں سائیکل وہیں لگی رہی تو ہمارے ایشین لوگوں نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ حضرت آدمؑ کی سائیکل تھی، اس چوک کے پاس چھوٹا سا باغ بنا ہوا تھا لوگ وہاں پر دو نفل نماز پڑھ کر باقاعدہ دعائیں اور منتیں مانگا کرتے تھے۔

سعودی عرب میں ہی کچھ لوگ ہیں جو فیس بک پر بھی ایک مخصوص شہد بیچتے ہیں، جسے مدینہ یا میدان بدر میں انتہائی کم مقدار میں پائے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسے بہت نایاب شہد اور اس کی نسبت مذہب سے جوڑتے ہیں، اور ایک کلو کی قیمت ایک سے لے کر دو لاکھ روپے تک لیتے ہیں، حالانکہ خود سعودی عرب میں ایسا کوئی شہد کا برانڈ موجود نہیں ہے جو ایک لاکھ روپے سے زائد قیمت کا ہو ماسوائے ان پاکستانیوں کے جو یہ شہد بیچ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ شہد کے ایسے خواص اور فوائد بیان کرتے ہیں کہ کئی لوگ ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

خیر آخری بات یہ ہے کہ سعودی فوڈ اینڈ ڈرگس اتھارٹی نے 16 ستمبر سنہء 2020 سعودی عرب میں 70 سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی ہے، جن میں یہ مریم بوٹی اور اس قبیلے کی ایسی ادویات جو ہمارے پاکستانی اور برصغیر کے لوگ بہت عقیدتوں سے خریدتے ہیں بلکہ سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے ان ممنوعہ جڑی بوٹیوں کی فہرست اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کی ہے۔ ان جڑی بوٹیوں کے نام، عوام میں رائج نام، سائنٹفک نام اور انسانی صحت کے لیے اس کے نقصانات بھی بتائے ہیں۔

مزید یہ بھی کہا ہے کہ ایسی جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والی دکانوں پر چھاپے مارے جائیں گے۔ چھاپہ مار ٹیم میں وزارت بلدیات و دیہی امور کے نمائندے شامل ہوں گے۔ دکانداروں کو آگاہ کیا ہے کہ جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والے جڑی بوٹی کے ساتھ اس کا تعارف، اس کے استعمال کی آخری تاریخ چسپاں کریں۔ دکان میں نمایاں جگہ پر جڑی بوٹیوں کا چارٹ جاری کریں۔ اسی کے ساتھ ایس ایف ڈی اے اور وزارت بلدیات و دیہی امور کے مونو گرام کے ساتھ یہ تنبیہ بھی نمایاں کریں کہ جڑی بوٹیوں سے علاج سائنٹفک بنیادوں پر ثابت نہیں ہے۔

جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والے دکانداروں پر یہ پابندی بھی لگائی گئی ہے کہ وہ کسی بھی جڑی بوٹی یا مرکب جڑی بوٹیوں پر ایسی کوئی تحریر چسپاں نہ کریں جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہو کہ اس جڑی بوٹی یا دیسی دواؤں سے فلاں مرض کا علاج ہو گا۔ جڑی بوٹیاں کسی دعوے کے بغیر ضرور فروخت کی جا سکتی ہیں۔ ایس ایف ڈی اے کی طرف سے اس کی اجازت ہے۔

Check Also

Muqabla O Mawazna

By Dr. Nawaz Amin