Haqeeqat Ki Talash
حقیقت کی تلاش
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ معلوماتی مضامین یا عام فہم باتوں سے ہٹ کر شعور اور حقائق کی تلاش میں اپنے اندر کے تجسس سے اٹھنے والے سوالات کے لئے موجود بیانیوں سے پرے مفروضات و تخیلات کی سرزمین پر چلا جاؤں اور انہیں ادراک کے بیلچے سے کھودنا شروع کروں۔ یہ ایک مہم جوئی ہوگی، یقیناََ جس کا کچھ حاصل نہیں یا کوئی قیمت نہیں ماسوائے ذات کے اطمینان کے، مگر کیا واقعی پھر بھی مطمئن ہوسکتا ہوں؟
جیسے فریب کے پردوں میں پنہاں حقیقت پسندی کو کھوجوں، خیالوں کے ساتھ زندگی کی الم ناک حقیقتیں دیکھوں، یا یہ سب میرا حقیقت پسندی کے بارے میں وہم ہے؟ یا حقیقت میں یہ سب منافقت، دوغلا پن یا موقع پرستی کی دنیا سے فرار ہے یا یہ سب خود اس دنیا کی ظاہری شکل و صورت اور سماجی وقار کی ضرورتیں ہیں؟
آدمؑ و حوا سے شروع داستانوں میں ثواب و گناہ کے پلندوں کا ذخیرہ، جرم و قانون کا فلسفہ، معاشرے کے موروثی برائی کے تصورات، سیاسی تبدیلیاں و بھونچال کے گنجلک میں گھری انسانی سوچیں، بغاوت، انقلاب، جھوٹ اور مفادات سے جڑے جھوٹ اور تشدد کے ہمہ گیر واقعات اور ہمارے اس میں شامل عمل کے ارتکاب پر ہماری آمادگی۔
کبھی سوچتا ہوں کہ کیا معاشرے کی موجود بیماریوں، طبقاتی کشمکش اور بقائے باہمی کے ناممکنات تک پہنچنے کے لئے کئی دریچے ہماری وجہ سے تو نہیں کھلتے؟ کوئی ایسی تحریر کیوں نہ لکھیں، انسانوں کو کمزور کیوں لکھیں، کیوں پر تشدد ماحول میں بستے انسانوں کو، پرتشدد رویوں کے شکار لوگوں اور پرتشدد آراء سے پر اثر تنقید سے ہم قلم کی ان فتوحات سے خود کو مطمئن کرتے ہیں؟
میں خود کو خوش کرنے کے لئے یا شرمندہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں، جیسے تمام سماجی، سیاسی مقبول بیانئے اور علامتی تنوع میں ہم اصلا جرم کے موضوع کے گرد مرکوز ہیں۔ جو ظلم اور اس کے عنوانات کے نصوص سے ہی ہم آہنگ ہے۔ ہمارا تحریری مواد صرف مایوسی کے جذبات میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم بگاڑ کی ایک غیر معمولی اور غیر متعین سطح تک جا پہنچے ہیں۔
جہاں صرف تنقید ہی تنقید ہے یا شائد مثبت تنقید کی پیداواری صلاحیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ بس حقیقت کی تلاش ایسی کٹھن ہو گئی ہو جیسے کوئی اندھا گھنے تاریک جنگلوں میں راستہ تلاشتا ہو۔ تحریر تخلیقی و تنقیدی دونوں خطوط پر متوازی ہو جائے، یا صحیح کہوں تو جیسے وہ "وحی" ہوجائے۔