Happily Divorce
ہیپی ڈایورس
ہماری فیملی سے متعلقہ ایک عزیزہ خاتون کراچی میں ائیر پورٹ کے قریب رہتی ہیں۔ انہوں نے ایک عجیب واقعہ سنایا، ان کے پڑوس میں ایک بلڈنگ ہے جس میں ایک فیملی رہتی ہے وہ فیملی پوری بلڈنگ کی مالک ہے، یعنی ایک ادھیڑ عمر بیوہ خاتون ہے، ان کی ایک جوان العمر بیٹی ہے جس کی 10 برس پہلے شادی کی تھی اور شادی کے چار ماہ بعد ہی طلاق ہوگئی، اس کے بعد انہوں نے اس کی دوسری شادی ایک انتہائی پرہیزگار، مذہبی، نیک انسان سے کر دی۔
بیوہ خاتون کی پوری بلڈنگ مالکانہ حقوق پر اپنی ہے جس میں پانچ یا سات اپارٹمنٹ ہیں جو انہوں نے کرائے پر دیے ہوئے ہیں اس کے علاوہ تین یا چار نیچے دکانیں ہیں وہ بھی کرائے پر ہیں اور ایک دکان انہوں نے اپنے داماد کو دے دی ہے، جس سے انہوں نے اپنی بیٹی کی دوسری شادی کی ہے اور یہی بیٹی ان کی اکلوتی اولاد ہے، اس کے علاوہ بھی ان کے شاید ایک دو پلاٹس ہیں مختلف جگہوں سے ان کے کرائے اتے ہیں جو اچھی خاصی معقول رقم ماہانہ بنیاد پر ان کے اخراجات سے بھی زائد ہے۔
ان کی بیٹی کی جس انتہائی مذہبی پرہیزگار اور نیک شخص سے شادی ہوئی، اس سے تین بچے ہیں اور تینوں ہی بیٹیاں ہیں، خاتون نے اپنی پوتیوں کو گھر کے قریب Educator school کی برانچ میں داخل کروایا ہوا تھا۔
اب شاکنگ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچی ہماری عزیزہ خاتون کے گھر آتی رہتی ہیں، چند دن پہلے وہ بچیاں اپنی والدہ کے ساتھ آئیں اور ان کی والدہ نے رو رو کر ان کو کہا کہ آپ خدا کے واسطے میرے بچیوں کو تھوڑا انگلش و اردو اور میتھس کے مضامین بھی پڑھا دیا کریں۔ کیونکہ میرے شوہر نے تبلیغی بیان میں سنا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں جو بچیاں پڑتی ہیں وہ مذہب کے خلاف ہو جاتی ہیں اور انہوں نے ایجوکیٹر اسکول سے زبردستی بچیوں کو اٹھوا لیا ہے اور گھر کے قریب ایک مدرسے میں بھیج رہے ہیں۔
ہماری عزیزہ خاتون نے جب بچیوں کی حالت دیکھی تو عجیب و غریب تھی کیونکہ وہ بچیاں پہلے بالکل ایک نارمل ایکشن سے بات کرتی تھی اب وہ حلق سے عجیب و غریب قسم کے مخارج کے ساتھ اردو بولنے کی کوشش کرتی ہیں، ہماری عزیزہ خاتون نے جب ان بچیوں سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہماری مدرسے کی استانی ہمیں مارتی ہیں کہ تم لوگ صحیح طرح سے لفظوں کی ادائیگی نہیں کر رہے۔
میں نے یہ واقعہ سنا تو میرے لیے یہ معاملہ انتہائی تکلیف دہ ہوگیا لیکن ظاہر ہے کہ بظاہر ہم کچھ نہیں کر سکتے، بیوہ خاتون بھی مجبور ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی بیٹی کی یہ دوسری شادی کی ہے اب وہ اپنے داماد سے بالکل نہیں الجھتے اور ان کا داماد آس پاس پڑوسیوں، دکانداروں اور بلڈنگ میں گالی گلوچ بد تہذیبی اور چیخوں پکار میں خاصا معروف ہے۔ جو دکان اسے دی ہوئی ہے اس دکان کو چلانے کے لیے بھی وہ گاہے گاہے اپنی ساس سے کچھ رقم بھی لیتا رہتا ہے اس کے علاوہ بھی پان سگریٹ کے خرچے اور تبلیغی چلے کے لیے بھی رقم اپنی ساس سے ہی لیتا ہے۔
مزید گھر کے سارے اخراجات وہ بیوہ خاتون ہی کرتی ہیں۔ صرف انہوں نے ایک مذہبی پرہیزگار اور نیک داماد گھر میں پالا ہوا ہے تاکہ اپنی بیٹی کو ایک اور طلاق کی رسوائی سے بچا سکیں۔ جبکہ مجھے جتنی حقیقتا اس پورے واقعے کی معلومات ہوئی ہے وہ یہی ہے، اس میں کچھ بھی مبالغہ نہیں ہے، اور اس واقعے پہ میرا ذاتی رد عمل یہی ہے کہ ایک ایسے شخص کے مقابلے میں اگر بیوہ خاتون کی بیٹی کمپرومائز کرتی تو بھی مجھے کوئی ہرج نہیں محسوس ہوتا، مگر ان تین بیٹیوں کا مستقبل اب ضرور خطرے میں ہے، ایجوکیٹر جیسے سکول سے نکال کرکے مدرسے کی دریوں پر بٹھا دینا اور غیر انسانی رویے سے ان کو ڈیل کرنا، اور یہ تذلیل صرف اس بنیاد پر ان پر لاگو کر دی جا رہی ہے کہ وہ مستقبل میں مذہب کے خلاف ہوجاییں گی۔
ایسے جانور نما لوگوں سے نجات ہر حالت میں ضروری ہوتی ہے مجھے معلوم ہے کہ کئی لوگوں کو میری بات اس تناظر میں بری لگ سکتی ہے کہ شاید میں ایک مذہبی شخص کے خلاف بات کررہا ہوں، یا پھر انہیں لگے گا کہ میں کسی کو شادی کے بندھن سے آزادی کی ترغیب دے رہا ہوں مگر خود سوچیں کہ یہ تین بچیاں ذہنی اور نفسیاتی طور پر کل کیا بنیں گی اور جب کہ ان تین بچیوں کی ساری معاشی ضروریات بھی اس کی ماں اور نانی پوری کرتی ہیں اس کے بعد وہ ایک ایسے غلیظ ترین سوچ کے پروردہ شخص کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہیں، جو بخود معاشی طور پر بے غیرتوں کی طرح اپنی بیوی و ساس کے ٹکڑوں پر پلتا ہو۔
یہ المیے ہیں جن کی بنیاد پر میں happily divorce کی بات کرتا ہوں کہ ایسی طلاقوں کو چاہے بطور مرد و عورت دونوں طبقات کے لئے بخوشی قبول کرنا ہی بہتر ہے تاکہ آپ ان معصوم بچوں کو ذہنی و نفسیاتی ذلت سے بچا سکیں۔