Hajj Intizamat Saudi Hukumat Pe Tanqeed Kyun?
حج انتظامات سعودی حکومت پہ تنقید کیوں؟
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، یعنی فریضہ ہے، اسلام میں حج ایسا رکن ہے جو استطاعت و استعداد کے ساتھ مشروط عمل ہے، بدقسمتی ہے کہ ہم استطاعت کا عمل صرف مالی معنوں میں سمجھتے ہیں، حالانکہ استطاعت آپ کی جسمانی حالت بھی ہے، ہم برصغیری آج بھی مغلوں کے عہد میں جی رہے ہیں، جیسے مغل یا عثمانی سلاطین کی طرح بادشاہ اپنے بھائی یا باپ کو تخت سے دور رکھنے کے لئے جب خود جان سے نہیں مارتے تھے، تو حج پر روانہ کردیتے تھے کہ بڑھاپے میں حج پر بھیجنے کا مطلب ان کی موت کا یقینی ہونا تھا، مان لیا کہ آج کے دور میں حج کے دوران بے شمار سہولتیں میسر ہیں، اس کے باوجود بھی حج کا عمل ایک انتہائی سخت عمل ہے، پھر عرب کی گرمی اس درجے پر ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور حج کے مناسک میں اس قدر چلنا پڑتا ہے اور آپ کے پاس محدود وقت ہوتا ہے۔
پاکستان میں لوگوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ حج کا فریضہ بڑھاپے میں ہی کریں گے، اور اخرجات کی کمی کی صورت میں اکثر اپنے بوڑھے والدین کو اکیلا ہی روانہ کردیتے ہیں، چونکہ وہ لوگ پہلی بار آ رہے ہوتے ہیں، مناسک حج اور کئی معاملات کا بھی اتنا اندازہ نہیں ہوتا، ان کے لیے حج اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ ایسے بوڑھے افراد کے ساتھ یا تو گھر کے جوان لوگ آئیں، ورنہ انہیں کسی بھی صورت میں حج کے لیے نہ بھیجیں، کیونکہ وہ حج کی فرضیت سے باہر ہیں۔
حج سے چند دن پہلے میں نے مدینہ کے معروف یو ٹیوب زبیر ریاض کو فون کیا کہ میرا ارادہ عید کی چھٹیوں میں مدینہ آنے کا ہے، کیا ملاقات ہو سکتی ہے؟ تو زبیر ریاض نے مجھے کہا کہ میں اس وقت گاڑی ڈرائیو کر رہا ہوں اور میں خود حج کے لیے جا رہا ہوں، میں نے اسے کہا کہ یوم عرفہ کے بعد میں مکہ آ جاؤں گا، وہاں ملاقات کر لیں گے تو اس نے مجھے سختی سے کہا کہ احرام کے ساتھ یا ایسا اقامہ ہولڈر جو مکہ کا رہائشی نہیں ہوگا، 20 ذی الحجہ سے پہلے اگر وہ مکہ میں پکڑا گیا چاہے وہ ثابت بھی کردے کہ وہ یوم العرفہ کے بعد آیا ہے مگر وہ "تصریح" (حکومت کی جانب سے حج کا اجازت نامہ) کے بغیر آیا ہے، تو اسے جرمانہ اور جیل دونوں بھگتنی پڑ سکتی ہے اس کے علاوہ ڈی پورٹ وہ الگ ہوگا۔
آپ جب کسی ملک میں قیام پذیر ہوں تو اس ملک کے قوانین کا احترام ہر حالت میں آپ پر فرض ہوتا ہے، آپ چاہے قانونی طور پر سعودی عرب کے اقامہ ہولڈر مقیم ہوں تب بھی آپ کو حج کے لیے تصریح لینی ہوتی ہے، اور اس سال کم ازکم بھی بارہ ہزار ریال میں حج کا تصریح پیکج مل رہا تھا۔ بڑی آسان سی بات ہے کہ اگر آپ یہ افورڈ نہیں کر سکتے تو آپ پر حج کی فرضیت نہیں ہے۔ آپ غیر قانونی طور پر یا قرض لے کر یا بڑھاپے میں کسی جسمانی عذر میں کیوں حج کرنا چاہتے ہیں، سعودی عرب میں رہنے والے ہر غیر ملکی کو حکومتی ادارے کی جانب سے میسجز موصول ہوتے ہیں جو اس آگاہی پر ہوتے ہیں کہ بغیر اجازت حج ایک جرم ہے۔
اس برس معاملہ حج پر حجاج کی اموات کا تذکرہ (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) بہت زور و شور سے چل رہا ہے، یہ معاملہ کہاں پر خراب ہوا ہے، ایسے زیادہ تر لوگوں کی وجہ سے حکومت نے حج سے پہلے ہی مکہ و گرد و نواح میں سخت ترین چیکنگ کرکے لاکھوں وزٹ ویزہ والے اور اقامہ ہولڈر جو بغیر تصریح حج کے لئے آئے تھے انہیں گرفتار بھی کیا، اس کے باوجود اس برس کئی ایسے لوگ بغیر اجازت حج میں شامل ہوئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر مصری و ہمارے پاکستانی ہمیشہ کی طرح وزٹ ویزے پر یا بغیر تصریح کے حج کے کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
اس برس حج کا موسم ویسے بھی جون کے مہینے کی سخت گرمی میں آیا اور مکہ میں کعبہ کے علاقے میں حج کے دنوں میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ، عرفات میں 49 ڈگری سینٹی گریڈ اور منی میں 47 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس درجہ سخت ترین گرمی میں ایسے افراد جن کے پاس قانونی اجازت نامہ (تصریح) نہیں ہوگا تو ظاہر ہے وہ چھپ کر سڑکوں پر ہی سوئیں گے، اس درجہ حرارت میں انسانی جسم کا بغیر سائے میں سرواییو کرنا ناممکن سا ہوجاتا ہے۔ مزید قانونی طور پر آنے والے عازمین حجاج میں بوڑھے افراد بھی اس شدید گرمی کا سامنا نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی ایک جگہ پر اگر 1.8 ملین لوگوں کو بیس دن گزارنا پڑیں گے تو اتنے لوگوں میں طبی اموات ہوتی ہی ہیں۔
سعودی حکومت نے اس برس صحت اور ابتدائی طبی امداد میں مردوں کے علاوہ خواتین سمیت تقریباً 5,466 افراد متعین کئے تھے، جن میں 3,000 ہیلتھ ورکرز اور 2,466 سعودی ریڈ کریسنٹ اتھارٹی کے رضا کار شامل تھے، 150 سے زیادہ چینلز کے ذریعے حجاج کو صحت، ابتدائی طبی امداد اور آگاہی کی خدمات فراہم کی گئیں، مجموعی طور پر تمام طبی کارکن 72 ہزار گھنٹے سے زیادہ وقت خدمات انجام دیتے رہے ہیں، ائیر ایمبولینسز موجود رہیں۔ سولہ سے زائد مقامات پر کیمپس تھے، ہوائی اڈوں پر بھی طبی مراکز تھے۔ حرم میں فی گھنٹہ ایک لاکھ 80 ہزارعازمین خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔ موجودہ تعمیراتی اسٹرکچر میں اس وقت کعبہ میں مطاف کی تمام منزلوں میں 203,000 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔
کھلی جگہوں پر ہوا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کے زریعے پھوار دینے والے پنکھے تھے، سعودی حکومت کی جانب سے حجاج میں پانی اور چھتریاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں، اور ان مقامات پر المشاعر ٹرین سمیت ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں دستیاب تھیں۔ یقینا موسم کی سختی اور نامصائب حالات میں جن لوگوں کی اموات ہوئی، اس پر شدید افسوس ہے، مگر انتظامات کو ناقص کہنے کے بجائے یہ سمجھنا شائد زیادہ ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کے قوانین کا احترام کریں اور اپنے بوڑھے والدین کو اگر حج کروانا چاہتے ہیں تو اچھے موسم کا انتظار کرلیں اور حج میں ہمیشہ ان کے ساتھ خود آئیں۔