Khawateen Ka Ehteram
خواتین کا احترام
اس موجودہ منظر نامے میں خواتین کو ایک کھلونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے کوئی بھی اور ہر کوئی کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ عورت کی عصمت دری کیوں کی جاتی ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، تذلیل کی جاتی ہے اور چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے؟ کیا یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ عورت ہے؟
اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک، اس کے ساتھ جنسی شے کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ جب وہ بڑی ہو کر سکول یا کالج جاتی ہے تو لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں۔ 80 سے 90 فیصد کیسز میں ملزم متاثرہ کو جانتا ہے۔
مثال کے طور پر، 27 فیصد عصمت دری پڑوسیوں کی طرف سے کی جاتی ہے، 22 فیصد شادی کا وعدہ اور 9 فیصد خاندان کے قریبی افراد اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔
کئی بار متاثرین خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے آگے نہیں آتے، کیونکہ اس سے خاندان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لڑکیوں کے اسقاط حمل، بچوں کی شادیوں اور جہیز کے قتل سے لے کر عصمت دری اور گھریلو تشدد تک، ہندوستانی لڑکیوں اور خواتین کو متعدد خطرات کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجہ ان گہری جڑیں ہیں جو انہیں مردوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔
جب عورت شادی کرتی ہے تو اسے اس کے شوہر اور سسرال والے جہیز کی خاطر ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جمہوری حکومت کے تحت ہماری لڑکیوں /خواتین کے لیے کوئی تحفظ نہیں ہے۔ عصمت دری کے اتنے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں اور مجرم گرفتاری کے بعد رہا ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جنسی جرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس بھی تربیت یافتہ اور حساس نہیں ہے۔ جب بھی متاثرین شکایت درج کرانے کے لیے تھانے پہنچتے ہیں تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں ہے۔
اگر آپ سو عورتوں کی عصمت دری کر لیں یا ہزار قتل کر دیں تب بھی آپ کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈالا جاتا۔
آپ کو بس کچھ کرپٹ وکیل کی خدمات حاصل کرنی ہیں جو پولیس اور جج کو رشوت دیں گے اور وہ آپ کو آزاد کر دیں گے۔ یہاں تک کہ اسکولوں یا کالجوں میں داخلہ لینے یا اپنا راشن کارڈ یا ووٹر کی شناخت کروانے کے لیے بھی آپ کو افسران کو رشوت دینی پڑتی ہے۔
اگرچہ حکومت نے 12 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے لیے عصمت دری کرنے والوں کے لیے سزائے موت کو منظور کرنے کے لیے انسداد عصمت دری قوانین میں ترمیم کی تھی، ان کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پہلے ہی عدالتوں میں عصمت دری کے کیسز کا ایک بہت بڑا بیک لاگ ہے۔ سست رفتار انصاف کی فراہمی کے نظام کی وجہ سے خواتین کو انصاف کے حصول کے لیے طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
درست کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ قوانین میں ترامیم کی بجائے خواتین کے احترام کے حوالے سے معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک میں خواتین کی بہتری کے لیے سنجیدگی سے کام شروع کریں۔ حکومت کو ان کے قانونی حقوق کی فراہمی کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔