Aqal Kya Hai?
عقل کیا ہے؟
معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر مقرر کرنے کے بعد، حضور ﷺ نے ان سے پوچھا:کہ اگر آپ کو قرآن یا سنت میں واضح حکم نہیں ملے گا، تو وہ حکومت کیسے کریں گے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ کوشش کرے گا (یعنی مسائل کے حل کے لیے عقل کا استعمال کرے گا)۔ حضور ﷺ نے اِن کے استدلال کو منظور فرمایا۔ مندرجہ بالا واقعہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عقل اللہ تعالیٰ کا انسانوں کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے، جس کی وجہ سے وہ وقت کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے، ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور زندگی کے مشکل مسائل کو حل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
عقل کیا ہے؟ یہ دماغ کی صلاحیت ہے کہ وہ عمل کے صحیح راستے کو تلاش کرے جو حتمی سچائی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ غور و فکر، غور و فکر، تجزیہ اور اللہ کی نشانیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلامیں واضح ہے کہ عقل کہاں اور کیسے استعمال کی جائے۔ قرآن پاک کہتا ہے:"کہ اسے ایمان اور ساتھی انسانوں کی خدمت میں استعمال کرنا ہے"۔ دوسرے لفظوں میں اسے صحیح سے غلط کی چھانٹ کرنے، کائنات کے رازوں کو دریافت کرنے، اخلاقیات کو فروغ دینے، معاشرے میں برائیوں سے پرہیز کرنے، سماجی مسائل کے حل، چیلنجز سے نمٹنے اور معاشرے کی مستقبل کی سمت کو متعین کرنے کے لیے استعمال کیا جانا ہے۔
عقل کا استعمال ایمان کا تقاضا ہے۔ اسی وجہ سے انسان کو تخلیق کا تاج سمجھا جاتا ہے۔ وہ خدا کی تمام مخلوقات میں برتر ہے۔ انسانوں اور دوسری مخلوقات میں سب سے بڑا فرق عقل کا ہے۔ انسان عقل اور منطق سے چلتا ہے۔ وہ فکری سرگرمیوں میں مشغول ہو سکتے ہیں، جبکہ دیگر مخلوقات زیادہ تر اپنی جبلتوں سے چلتی ہیں۔ یہ بنیادی فرق ہے، جو انسان کو دوسری مخلوقات سے الگ کرتا ہے۔ تاریخی طور پر، تمام معاشروں اور تمام عہدوں میں انسانوں نے اُبھرتے ہوئے مسائل کو سمجھنے اور ان کو صحیح طریقے سے حل کرنے کے لیے اپنے فکری آلات بشمول مشاہدہ، منطق اور تجربہ کرنے کی صلاحیت، تخیل اور بصیرت کا استعمال کیا ہے۔
سینکڑوں سال پہلے ہم میں سے بہت سے لوگ کچے مکانوں میں رہتے تھے، اندھیرے میں راتیں گزارتے تھے، اور جانوروں کا گوبر یا لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے تھے۔ لیکن اب زندگی کا ہر پہلو بدل چکا ہے۔ یہ عقل کا کمال ہے جس نے ہمیں زندگی کو جدید بنانے کے قابل بنایا ہے۔ اپنی عقل کے منظم استعمال سے انسان اپنی زندگیوں کو بدلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ درحقیقت ان کی زندگیاں مسلسل بدل رہی ہیں۔ ہماری عقل ہم سے روزمرہ کے مسائل پر سنجیدگی، معروضی، قابلیت اور مقصدیت سے سوچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے، جو انسانیت کے عظیم مقصد میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ انسان بنیادی طور پر دانشور مخلوق ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کو اس حقیقت کا بمشکل ادراک ہوتا ہے۔ وہ اپنی عقل کو منظم طریقے سے استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان میں سے بہت سے ان کی جبلتوں اور جذبات پر قابو پاتے ہیں۔ وہ نادانی سے کام کرتے ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں۔ پاکستان کو معیشت، ماحولیات، صحت کی دیکھ بھال اور انسانی زندگی کے دیگر پہلوؤں میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کا حل عقل کو استعمال کرنے میں ہے، جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اسلام ایک فکری عقیدہ ہے۔ یہ عوام کو تعلیم فراہم کرکے عقل کے استعمال اور فروغ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ روٹ سیکھنے، دھوکہ دہی یا سرقہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے، بلکہ تحقیق کے ذریعے عقل کو تلاش کرتا ہے۔
جن قوموں نے عقل کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کو اپنی پالیسی بنالی ہے وہ قوموں کی جماعت میں بہت ترقی کر چکی ہیں۔ انہوں نے بہت سے تھنک ٹینکس بنائے ہیں، جہاں مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے دانشورانہ سوچ کی تلاش کی جاتی ہے۔ وہ سیاست، معاشیات، صحت کی دیکھ بھال، دفاع وغیرہ کے شعبوں میں پالیسی سازی میں اپنی قیادت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کچھ قومیں جو پیچھے رہ جاتی ہیں ان کی ناکامی اکثر ناقص سوچ میں پائی جاتی ہے جہاں عقل کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہتا ہے۔ یہ اس بات کی وجہ ہے کہ ہمیں ہر وقت نئے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نئے مسائل جنم لیتے ہیں، نئے مظاہر سامنے آتے ہیں اور نئے چیلنجز سامنے آتے ہیں -
یہ سب اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرے۔ اس لیے اسلام اپنے نزول کے وقت سے ہی زندگی کے تمام معاملات میں عقل کے استعمال پر بہت زور دیتا رہا ہے۔ اسلام اپنی عقل کو استعمال نہ کرنے والوں کو مویشیوں سے تشبیہ دیتا ہے۔ انہیں 'گونگا' اور 'اندھا' اور 'مردہ دل' قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ قرآنی آیت 25:44 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "یا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ وہ تو چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ وہ راستے سے اور بھی زیادہ بھٹک رہے ہیں " (معاشرے کی مستقبل کی سمت)
عقل پر مذہبی زور کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ریاست خصوصاً وزارت تعلیم کی ذمہ داری ہے، کہ وہ تعلیمی اداروں میں عقل کے منظم استعمال کو فروغ دے تاکہ آج کے طلباء زندگی کے اُبھرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر تربیت یافتہ اور لیس ہو سکیں۔ .