Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Madiha Ahmad/
  4. Zulam Ki Tasheer

Zulam Ki Tasheer

ظلم کی تشہیر

خون کو خدا کی طرف سے حکم ہوا، "آج کے بعد تم زمین میں جذب نہیں ہوگے۔ "شیخ الصدوق رح نے علل الشرائع میں اس روایت کا کو نقل کیا ہے: جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کو اطلاع دی کہ آپکے بڑے بیٹے قابیل نے آپ کے چھوٹے بیٹے ہابیل کو قتل کر دیا ہے تو آپ اور آپکی زوجہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے اور گھر پہنچ کر قابیل سے جب اس سے اسکے سنگین جرم کی بابت دریافت کیا تو وہ اپنے جرم سے مکر گیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ کی یہ بات سچ ہے تو زمین پر مجھے ہابیل کا خون دکھائیں۔

زمین اتنے عرصے میں ہابیل کا خون جذب کرچکی تھی، تب خدا نے زمین کو حکم دیا کہ آج کے بعد تم خون کو اپنے اندر جذب نہیں کرو گی۔ اس دن سے لے کر آج تک خون کبھی بھی زمین میں جذب نہیں ہوا اور نہ ہی تاقیامت ایسا ہوگا۔ کیونکہ مشیت خداوندی یہ ہے کہ ظلم، خواہ اسکی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو کبھی بھی چھپ نہ سکے اور ظالم ہمیشہ بےنقاب ہوتا رہے۔ ظالم قابیل کو اپنے جرم کے ارتکاب پر کوئی رنج یا پچھتاوا نہ تھا وہ تو اپنا ظلم بےنقاب ہوجانے کے خوف سے مقتول کی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائے جنگل میں سرگرداں پھرتا رہا اور اسی خوف سے اپنے باپ نبی اللہ کے سامنے جھوٹ بولا۔

دوسری مثال پسران یعقوب نبی علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کو حسد و لالچ کی بنا پر قتل کی غرض سے اندھے کنویں میں پھینک دیا اور اپنا ظلم بے نقاب ہو جانے کے خوف سے باپ کے سامنے جھوٹ بولا کہ ان کے بھائی کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ جو چالاک مجرم لوگوں میں اپنی اچھی شہرت قائم کر چکا ہوتا ہے۔

پہلے تو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جرم کرتا ہے، پھر اپنے ظلم کو چھپانے کے لئے اپنی نشرکردہ اچھی باتوں میں بڑی مہارت کے ساتھ جھوٹ اور فریب کی آمیزش کر دیتا ہے، یوں سادہ لوح لوگ جو محض اس کی اچھی باتوں سے دھوکا کھائے ہوئے ہوتے ہیں، جنہوں نے اسے صرف اچھی تحاریر اور گفتگو کے آئینے میں ہی دیکھا ہوتا ہے، جن کا اس کے ساتھ حقیقی زندگی میں پالا نہیں پڑا ہوتا تو وہ اسکے جھوٹ، سچ اور فریب کے آمیزہ کو ہی سچ سمجھ لیتے ہیں۔ بقول شاعر۔

جمال یار میں رنگوں کا امتزاج تو دیکھ

سفید جھوٹ ہیں ظالم کے سرخ ہونٹوں پر

تاریخ انسانیت ظلم کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے اور محض جسموں کو لہولہان کرکے ہی ظلم کی داستان رقم نہیں کی جاتی بلکہ جذبات، ارمانوں اور اعتماد کا بھی خون کیا جاتا ہے روحوں کے ساتھ ساتھ عزتوں کو بھی چھلنی کیا جاتا ہے خوبصورت، محترم اور مقدس رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ ظالم یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ سرزمین انسانیت میں بھی ان چیزوں کا خون جذب نہیں ہوا کرتا۔

اس مقدس سرزمین کا حاکم، ضمیر ہے جو عادل خدا کا عادل نمائندہ ہے وہ ارتکاب جرم پر مجرم کو ایک بار اور کبھی بار بار ضرور ٹوکتا ہے اسے تنبیہ تو کرتا ہے مگر جبر نہیں کرتا کیونکہ دین خدا میں جبر نہیں ہے۔ پھر عاقل، ضمیر کی آواز کو اپنا لیتا ہے اور جاھل اسے دبا دیتا ہے۔ کوئی ظالم ظلم نہیں کرتا مگر ہوائے نفس کی پیروی اور دنیاوی مفادات کے حصول کیلئے۔ اسے خدا کا خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خدا کو پانا چاہتا ہے۔

بس وہ سدا اپنے ظلم کی تشہیر سے ڈرتا ہے کیوں کہ یہ تشہیر لوگوں میں اس کا اصل چہرہ عیاں کر دیتی ہے جو اس نے ان کے سامنے ظاہری زیبائش کے دلفریب پردوں میں چھپایا ہوتا ہے، جس سے نہ صرف اس کے مفادات پر کاری ضرب پڑتی ہے بلکہ احتساب اور گرفت کا خوف بھی اسے ہمہ وقت دامن گیر رہتا ہے۔ مگر منشائے الہی یہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں مظلوم کو حق دیا کہ وہ ظالم کا ظلم لوگوں میں بیان کر سکتا ہے، اور بعض موارد میں تو ظالم کا ظلم سہتے جانا اور احتجاج نہ کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے کہ یہ ظالم کے ظلم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔

ان سب امور کے باوجود قدرت اس ظالم کو مہلت دیتی ہے استغفار کا موقع عنایت کرتی ہے تاکہ وہ اپنے کردہ مظالم کا ازالہ کر سکے مگر ظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بہت سے عوامل ایسے ہوتے ہیں جو مجرم کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ لوگ اسکی دلفریب باتوں کے ہنر سے اور وہ لوگوں کی طرف سے ملنے والی پذیرائی پر بری طرح سے دھوکا کھائے ہوئے ہوتے ہیں۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کلمات قصار 116) میں ارشاد فرماتے ہیں، "کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔ "قبل اس کے یہ مہلت ختم ہو جائے مشق ستم ختم کر دو، دکھے ہوئے دلوں کو مزید نہ دکھاؤ، لوگوں کے واجبات ادا کرکے سرخرو ہوجاؤ۔

Check Also

Water Futures Are On Sale

By Zafar Iqbal Wattoo