Mehnat Azmat Hai Aar Nahi
محنت عظمت ہے عار نہیں
اکنامکس کی ایک شاخ ترقیاتی اکنامکس (development Economics) ہے۔ ترقیاتی اکنامکس کی تھیوریز کے مطابق ترقی کے لیے طویل عرصہ اور تدریجی مراحل درکار ہوتے ہیں، یعنی کوئی بھی فرد، معاشرہ یا ملک فوراً سے ترقی حاصل نہیں کرسکتا، ترقی کا عمل مرحلہ وار طے ہوتا ہے، زمینی حقائق بروئے کار لائے جاتے ہیں اور ترقی میں معاشیت کے تمام شعبے یکساں طور شامل ہوتے ہیں جیسے زراعت، صنعت، خدمات وغیرہ۔ اور یہ اصول ہماری زندگیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ زمینی حقائق یعنی گراؤنڈ ریئیلیٹیز تمام تر انسانوں کو بلا تفریق مذہب و ملت میسر آتے ہیں۔
مسلمان ہو یا کافر، یہودی ہو یا عیسائی، الغرض کسی بھی نظریے کے حامل لوگ ہوں خدا نے زمینی حقائق اور طبیعی قوانین (دھوپ، پانی، ہوا، نباتات و معدنیات وغیرہ سے استفادہ) کو سب کے لیے یکساں قرار دیا ہے۔ جو کوئی بھی محنت کرے گا اپنی محنت کے ثمرات پا لے گا، اور جو بھی غلطی کوتاہی یا سستی کرے گا تو وہ بھی اس کے مضرات پا لے گا۔ انسان کی ترقی خواہ مادی ہو یا معنوی، کے لیے سالہا سال کی محنت درکار ہوتی ہے جس میں انسانی ذات سے متعلقہ تمام پہلو مثلاََ تعلیم و تربیت، ذہانت، ایمانداری، خلوص نیت، خوش اخلاقی، انتھک محنت اور مستقل مزاجی وغیرہ اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو تدریجی ترقی کی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی، اور ممکن ہے ان میں ایک مثال خود آپ کی ذات کی بھی ہو۔ ایف اے کرنے کے بعد میں نے بچوں کو ٹیوشنز پڑھانا شروع کر دیں (حالانکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے گھر کے حالات اچھے تھے) اور یہ سلسلہ عرصہ دس سال، حتیٰ کہ میرے ایم فل (اکنامکس) مکمل کرنے کے بعد بھی جاری رہا۔ مجھے اس محنت میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی بلکہ مجھے فخر ہے کے میرے سٹوڈنٹس میں سے کچھ اب میڈیکل کے آخری مراحل میں تو کچھ ایم فل کر رہے ہیں۔
میرے والد صاحب ایک گورنمنٹ محکمہ میں پانچویں سکیل میں بھرتی ہوئے تھے اور اس وقت وہ وہاں گریڈ 17 میں جاب کر رہے ہیں اور جلد ہی Suprintendentکے عہدے پر پروموٹ ہونے والے ہیں۔ میرے بہنوئی نے بی ایس سی کے بعد اپنے کیرئیر کا آغاز شوکت خانم لیبارٹریز میں ایک چھوٹی سی جاب سے کیا، وہ بتاتے ہیں جب ان کی جاب سٹارٹ ہوئی تو لاہور میں ان کا کوئی رشتے دار یا دوست ایسا نہیں تھا جس کی طرف وہ رہائش رکھ سکتے، اور جب تک ان کی ذاتی رہائش کا بندوبست نہ ہو سکا وہ رات میں لیبارٹری کی ہی ایک شیلف پر سو جایا کرتے تھے۔
والد بزرگوار کا سایہ بھی ان کے سر پر نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے کوئی وراثت پائی تھی پھر بھی دن رات کی ان تھک محنت، ایمانداری اور خلوص نیت کی بدولت آج وہ اپنی ذاتی میڈیسن کمپنی چلا رہے ہیں۔ میرے سکول کے پرنسپل بتاتے تھے فیصل آباد کچہری بازار میں ایک غریب گھڑی ساز جو اپنے اوزاروں کا صندوق لےکر ایک دوکان کے باہر بیٹھ کر کافی عرصہ تک گھڑیاں مرمت کرتا رہا اور بالآخر ایک دن اس نے مسلسل محنت سے وہ دوکان خرید لی۔ آج وہ دوکان فیصل آباد کی مشہور و معروف "رفیق واچ کمپنی" کے نام سے جانی جاتی ہے۔
کاروبار زندگی میں یہ اصول کار فرما رہا ہے کہ انسان کو قلیل سے ہی پھر کثیر بھی ملتا ہے۔ اگر آپ بےروزگار ہیں اور مناسب پڑھے لکھے بھی ہیں تو بیکار بیٹھنے کی بجائے کسی چھوٹی موٹی نوکری سے پریکٹیکل لائف کی شروعات کریں لیکن اگر آپ تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی کوئی ہنر جانتے ہیں اور آپ کو بزنس مین بننے کا بھی شوق ہے تو خدا کے بھروسے پر اپنے ذاتی پیسوں سے مناسب سا کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرلیں اور پھر اسی کو کامیاب بنانے کے لیے جت جائیں۔ لیکن اس کے لیے ایمانداری، انتھک محنت، خلوص نیت اور مستقل مزاجی شرط ہے۔
پھر یہی چھوٹا سا کام ایک دن بڑے کاروبار میں تبدیل ہو جائے گا۔ یاد رکھئے، رزق حلال کمانے کے لئے کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا، محنت کش تو خدا کا دوست ہوتا ہے۔ درحقیقت انسان کی انا اور جہالت ہے جو اس کام کو اس کی نظر میں چھوٹا بنا کر پیش کرتی ہے۔ اور اگر آپ نے متعدد کاروبار کرکے دیکھ لیے ہیں اور آپ کو ہمیشہ ہی ان میں نقصان اٹھانا پڑا ہو تو ایمانداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں، کہیں لالچ، بےایمانی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور اصول ہائے تجارت سے ناشناسی تو اس کے اسباب نہیں؟
بجائے یہ کہ آپ بوکھلاہٹ میں استخارے کرواتے پھریں، اپنی خرابئ قسمت کو کوستے رہیں اور توہمات کا شکار ہو جائیں کہ میرا تو وقت ہی خراب چل رہا ہے اور میری ساڑھ ستی چل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ مسلسل محنت اور ایمانداری کے بغیر محض shortcutsکے ذریعے انسان کو نہ تو ترقی ملتی ہے اور نہ ہی راتوں رات امارت و ثروت مندی۔