Hamari Pyari Amma
ہماری پیاری امّاں
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا اور شعور کی منازل طے کرنے لگے، مشاہداتی حِسیں بیدار ہونے لگیں تو کریم پروردگار کے عظیم اور سراپا مہربان تحفے یعنی اپنی مادر گرامی جنہیں ہم اماں کہہ کر پکارتے ہیں کو اپنے چہار سو دیکھا اور انہیں نہایت سادہ مزاج، تصنع و بناوٹ سے پاک ایک نیک نیت اور نہایت شفیق ہستی پایا۔
اماں کی سادگی کا یہ عالم کہ ہم نے انہیں زیور، ملبوسات اور بناؤ سنگھار جو کہ ہر عورت کا بنیادی حق ہوتا ہے اور شدید خواہش بھی، تک سے بے نیاز پایا۔ بس کانوں میں دو چھوٹے چھوٹے بُندے پہنے ہوتی ہیں۔۔ کبھی کہیں جانا آنا ہو خواہ وہ کوئی شادی کی تقریب ہو یا عام محفل، اماں نے بس منہ ہاتھ دھویا سادہ مگر نفیس و باحجاب لباس زیب تن کیا جوتا پہنا اور اماں کی تیاری مکمل ہو جاتی۔ حتی کہ سردیوں میں بھی اماں کو کولڈ کریم تک کا استعمال کرتے نہ دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اماں اپنی عمر سے بہت بڑی نظر آتی ہیں۔
ساری زندگی ایک فرمانبردار بیوی بن کر گزاری انہیں صبر و استقامت کی دیوی کہوں تو بےجا نہ ہوگا۔ میرے والد مزاج کے تھوڑے سخت اور اصول پسند انسان ہیں انہیں اپنا ہر کام وقت پر چاہیے ہوتا ہے اور میری والدہ نے اس معاملے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ شوہر کی خدمت کے ساتھ ساتھ سسرال میں بھی کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا کوئی زیادتی بھی کر جائے تو کبھی پلٹ کر جواب نہ دیا۔ رشتہ داروں کے علاوہ آس پڑوس میں بھی کبھی کسی کے کام آنے سے انکار نہ کیا، یہی وجہ تھی کہ رشتہ داروں اور محلے والوں کو اگر کوئی کام درپیش ہوتا تو اپنی امید کا مرکز ہماری اماں کو قرار دے کر ان کے پاس چلے آتے۔
امور خانہ داری بشمول سلائی کڑھائی میں بہت سگھڑ اور مستعد، کہ تمام کام بہت جلد اور خوش اسلوبی کیساتھ انجام دیتیں۔ اماں کے ہاتھ کے کھانے کا تو سواد ہی الگ ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ ہنر بھی ہم دونوں بہنوں میں منتقل ہوئے ہیں۔۔
ہم نے کبھی اپنی اماں کو بلاوجہ آرام کرتے نہیں دیکھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مشغول رہتی تھیں مگر سنہ 2016 میں اچانک ایک حادثاتی چوٹ لگنے سے انکے کولہے کہ ہڈی ٹوٹ گئی اور ہم نے زندگی میں پہلی بار اپنی اماں کو بستر پر بیچارگی کیساتھ بےبس و لاچار پڑا دیکھا۔ وہ ایک ہفتہ ہم سب بہن بھائیوں نے جس کرب و اضطراب میں گزارا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہڈی جڑوانے کے بعد بھی اماں اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتی تھیں بغرضِ احتیاط انکی ٹانگ چارپائی کے ساتھ بندھی ہوتی تھی اور یہ حالت دیکھ کر دکھ سے ہم سب بہن بھائیوں کے حلق سے ایک نوالہ نہیں اترتا تھا۔
عثمان بھائی(میرے بہنوئی) نے اماں کی ساری رپورٹس ڈاکٹر کو چیک کروائیں تو ڈاکٹر نے آپریشن کا بتایا مگر اماں آپریشن کے لیے تیار نہ تھیں کیونکہ ہمارے نانا ابو کی بھی اسی طرح ایکسیڈینٹ میں کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جو دو دفعہ آپریٹ کروانے کے بعد بھی صحیح طرح ٹھیک نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی باقی تمام زندگی بیساکھیوں کے سہارے گزاری۔
اماں کے معاملے میں بھی ہمیں یہی خوف تھا مگر ہم انہیں اس تکلیف دہ حالت میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم نے بمشکل آپریشن کا فیصلہ لیا اور بالآخر اماں کو بھی اس پر راضی کرلیا۔ ڈاکٹر نے آپریشن کے ذریعے پوری آرٹیفیشل ہڈی ڈالنے کا کہا تھا مگر جب اماں کا ہاسپٹل میں تفصیلی معائنہ کیا تو اس نے آپریشن کرکے پیچ ڈال کر اسی ہڈی کو جوڑ کر ایڈجسٹ کر دیا کہ انکی عمر آپریشن کی متحمل نہیں ہے تو ایسے بھی ہڈی جُڑ جائے گی مگر ہڈی جوڑنے کے بعد سپیشل خوراک لینا لازم ہوتا ہے اور ہماری اماں کی خوراک باوجود بہت اصرار کے حسبِ عادت بہت کم اور بالکل سادہ ہی رہی۔
خیر ہڈی جُڑ تو گئی مگر پوری طرح ٹھیک نہ ہوئی، جسکی وجہ سے اماں کی بائیں ٹانگ معمولی لنگڑاہٹ کا شکار ہوگئی۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ ہماری اماں صحیح سلامت ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی جنت ہیں اور یہ بات ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ مگر انتہائی افسوس کہ کم ظرف اور بےحس انسان ہماری اماں کو لنگڑی کہہ کر پکارتے رہے۔
ہماری اماں نے اولاد کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں اور خاص طور پر میرا ساتھ تو زندگی کے ہر موڑ پر دیا ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑی رہیں خواہ وہ میری تعلیم کے حوالے سے تھی یا زندگی کے دیگر معاملات میں۔
ماں نہ صرف اپنی اولاد سے بلکہ اپنی اولاد کی اولاد سے بھی ایسے ہی بےپناہ محبت کرتی ہے۔ ہماری اماں کے دل پر آج کل انکے نواسے اور میرے جگر کے ٹکڑے محمد حُسین نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔ حُسین نے سب سے پہلا لفظ ہی "اماں " کہنا شروع کیا۔ دوسری طرف میری بھانجی زینب کہتی ہے حُسین نے ہم سے اماں چھین لی ہے۔ حُسین اماں کے ساتھ بہت اٹیچ ہے، نا صرف یہ کہ انکے ساتھ کام کرواتا ہے جیسا کہ مرغیوں کو دانہ ڈالنا وغیرہ بلکہ انکے پاوں بھی دبانا ہے۔ اماں کہتی ہیں:
"میں مر گئی تے سب توں بوہتا میرے حُسین نے میرے لئی رونا ایں "اللہ مولا بحقِ سیدہؑ سلام اللہ علیہا میری اماں کو اچھی صحت کیساتھ طویل حیات عطا فرمائے اور انکا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے، آمین۔
ماں بننے کے بعد مجھے حقیقی معنوں میں اور پریکٹیکلی احساس ہوا کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لیے جو کچھ کرتی ہے جو تکلیفیں صعوبتیں برداشت کرتی ہے وہ کوئی اور کبھی بھی کر ہی نہیں سکتا اور نا ہی ماں کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے۔ ایک عورت ماں بننے تک عورت ہوتی ہے ماں بننے کے بعد وہ صرف ماں ہوتی ہے کیونکہ اب اسکی first priority اسکی اولاد ہے۔
ماں بننا آسان نہیں بہت مشکل ہے اسی لیے تو اللہ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی اور ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ بڑا رکھا ہے۔ اولاد اگر اپنی پوری زندگی بھی لُٹا دے تو بھی ماں کے ایک دن کی زحمت کا حق ادا نہیں کر سکتی۔
یوں تو ہر دن ماں کا دن ہوتا ہے اور ہماری زندگی کے ایک ایک دن اور ایک ایک لمحے میں ماں سے محبت اور شکر گزاری کا احساس ہونا چاہیے مگر میرا ماننا ہے کہ اس ایک دن پر جو کہ "مدرز ڈے" کے نام سے مخصوص ہو چکا ہے ہمیں اپنی عظیم ماؤں کو انکی کریم و مہربان ممتا کے حوالے سے سمتھنگ ویری سپیشل اور خوشیوں بھرا محترم احساس دلانا چاہیے جس میں ہماری محبتیں اور عقیدتیں ان پر نچھاور ہوکر سپاس گزار ہوں۔
میری طرف سے میری پیاری اماں کو اور مجھ سمیت دُنیا کی تمام ماؤں کو ویری ویری ہیپی اینڈ بلیسڈ مدرز ڈے۔