Satellite Train
سیٹلائیٹ ٹرین
آج کل شام کے وقت آسمان کی طرف دیکھوں تو پانچ سالہ عائشہ فوراً پوچھتی ہے کہ بابا کیا "سیٹلائٹ" آج نظر آنے ہیں؟ اگر میرا جواب ہاں ہو تو پھر وہ بھی میرے ساتھ چھت پر جاتی ہے اور ہم باپ بیٹی سیٹلائٹ ٹرین کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اور جب انہیں دیکھتی ہے تو ماشاءاللہ بہت خوش ہوتی ہے۔ کل ختم ہوتی ٹرین کو خدا حافظ کہتے ہوئے بولی کہ پھر آنا اور ہم کا انٹرنیٹ بند نہ کرنا۔ شاید اسے لگتا ہے کہ ہمارا انٹرنیٹ بھی انہیں سیٹلائٹس سے آتا ہے اور بند بھی یہی کرتے ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ سپیس ایکس دنیا کے کونے کونے میں انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لئے خلاء میں سیٹلائٹس کا جال بچھا رہی ہے اور اسے سٹار لنک کا نام دیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت ساری ٹرینز (سیٹلائیٹ گروپس) بھیج چکی ہے اور آئے روز مزید بھیجتی رہتی ہے۔ اب تک ان سیٹلائٹس کی تعداد تقریباً پونے پانچ ہزار ہو چکی ہے۔ جبکہ مستقبل قریب میں یہ بارہ ہزار ہو جائے گی۔ ویسے سپیس ایکس اس واسطے بیالیس ہزار سیٹلائیٹ خلاء میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یوں تو اب اس سیٹلائیٹ ٹرین کی معلومات عام ہو چکی ہیں مگر پھر بھی کچھ لوگوں کو علم نہیں۔ لاعلم ہونا کوئی عیب نہیں، لیکن عجب بات تو یہ ہے کہ کوئی اسے دجال، کوئی قیامت کی نشانی تو کوئی خلائی مخلوق سمجھے بیٹھا ہے۔ دوسری طرف کائنات کے صاحبِ علم کھوجیوں نے بھی ان سیٹلائیٹس پر اپنے کئی تحفظات کا اظہار کر رکھا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ یہ جو چمکتے ہوئے سیٹلائیٹ نظر آتے ہیں، یہ دراصل ان کے سولر پینل سے سورج کی روشنی منعکس ہو کر ہم تک پہنچتی ہے۔
کھوجیوں کا خیال ہے کہ جب بہت زیادہ سیٹلائٹس ہو جائیں گے تو ان کی چمک سے خلاء پر غور کرنے کے عمل میں خلل آئے گا۔ اس اعتراض کو درست مانتے ہوئے سپیس ایکس نے سیٹلائیٹ کے سولر پینل پر یوں سائبان لگانے شروع کر دیئے کہ ان کی چمک زمین پر نہ پڑے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب اپنی لانچ کے چند ہفتوں بعد تک تو سٹار لنک ٹرین سٹیلائیٹ چمک مارتے ہیں، لیکن پھر نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔
پہلے بھی اس کی تصویر بنائی تھی۔ مگر چاہتا تھا کہ خلائی ٹرین کے ساتھ آسمان پر کچھ ماحول بھی بنے۔ اتفاق سے اس دفعہ ٹرین کے راستے کے قریب بادل بھی تھے اور دوسری طرف چاند بھی۔ تصویر میں دائیں ہاتھ والی روشنی کوئی نبیولہ یا گلیکسی وغیرہ نہیں، بلکہ ہمسائیوں کے چھت پر لگے بلب کا کرشمہ ہے۔ باقی بادل ہیں جو کہ چاندنی کے بل پر روشن ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی ٹرین کا نام سٹار لنک 95 ہے اور اس میں 22 بوگیاں (سیٹلائٹس) ہیں۔ ویسے تصویر میں یہ ٹرین اتنی چھوٹی لگ رہی ہے، ورنہ کافی زبردست نظارہ ہوتا ہے۔
میرے مشاہدے میں آنے والی سب سے مزے کی ٹرین سٹار لنک 92 تھی۔ اس کی خیر سے 54 بوگیاں تھیں اور وہ کیا ہی شاندار ماحول تھا۔ ایک حصہ سر پر پہنچا ہوا تھا اور دوسرا افق سے طلوع ہو رہا تھا۔ گویا آدھے آسمان کو گھیر رکھا تھا۔ اگر آپ بھی خلائی ٹرین دیکھنا چاہتے ہیں تو Find Starlink کی ویب سائیٹ یا ایپ سے ساری معلومات مل جائے گی۔ وہاں اپنے ملک اور شہر کا نام درج کریں اور جانیں کہ آپ کے علاقے میں کب، کس سمت میں، کونسی ٹرین اور کتنی روشن ہوگی اور نظر آنے کا کتنا امکان ہے۔
اگر ممکن ہو تو دیکھیے گا اور بچوں کی پہنچ سے بالکل بھی دور نہ رکھیے گا۔ ٹھیک ہے کہ اس بات پر کڑھتے رہیں کہ ہمارے ملک میں ہونہار طلباء اور سائنسدان پیدا کیوں نہیں ہوتے، اور بے شک اپنے بچوں کے لیے بڑی بڑی سرگرمیوں، لمبی چوڑی سیاحتوں اور مہنگے ہوٹلوں میں کھانوں کا بھی سوچتے رہیں، مگر ساتھ ساتھ بچوں کو وقت دیں اور انہیں چھوٹے چھوٹے سائنسی مشاہدات کروائیں، انہیں بنیادی سائنسی تصورات سمجھائیں۔ ورنہ کل کو وہ بھی معمولی معمولی سائنسی ایجادات کو قیامت کی نشانیاں سمجھیں گے یا پھر آہو۔
بہرحال لازمی نہیں کہ سپیس شپ میں بیٹھ کر ہی دیگر سیاروں کی سیر ہو۔ دھرتی پر رہتے ہوئے بھی خلاؤں کی سیاحت ممکن ہے۔ ویسے کون کون کسی دوسرے گولے مثلاً مریخ پر جانے یا پھر خلاء کے سفر کا ارادہ رکھتا ہے؟