Desi Inqilabion Ka Gol Chakkar
دیسی انقلابوں کا گول چکر
برصغیر کے لوگوں کی دانش صرف اس حد تک محدود ہے کہ جس چیز کو وہ ناپسند کرتے ہوں اسے تلپٹ کر دینے کو ہی حقیقی کامیابی سمجھنے لگتے ہیں جبکہ لانگ رن میں ایسی حرکات گہرے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔
موب مینٹیلیٹی کا کسی نظام کو تلپٹ کر دینا کسی اچھے دور کے آغاز کا ضامن ہرگز نہیں ہوسکتا جب تک اس کے پیچھے ایک سوچا سمجھا ایجنڈا اور بالغ نظر، سنجیدہ اور قابل احترام قیادت موجود نہ ہو جو بوقت ضرورت سٹریٹ پاور کو کنٹرول کر سکے اور پاور اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد اس متفقہ ایجنڈے پر فلاحی نظام بنا سکے جس کیلئے وہ اٹھے ہیں۔
انقلاب فرانس، یورپ، روس، ایران یہ سب پبلک موبیلیشن سے ہی شروع ہوئے تھے لیکن بالغ نظر اور عوامی اثر و رسوخ کی حامل انقلابی کونسلز نے فوراً ہی ان کا انتظام سنبھال لیا تھا اور اپنے ایجنڈے کے مطابق ان کو ڈرائیو کرتی رہی تھیں۔
برصغیر کے پورے ریجن میں یہ فارمولا کسی طور بھی ایکسرسائز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں کی ذات، برادری، قوم، علاقے، مذہب اور سیاسی تعصب میں بٹی ہوئی سو فیصدی عوام کسی قیادت کو بھی قبول نہیں کر سکتی خواہ وہ سیاسی سمجھ بوجھ اور کردار کے حساب سے بہت ہی قدآور شخصیات ہوں۔
اپنے طور پر تو بیشک ساری عوام کسی ایک نقطے پر یکجان ہو جائے اور بے مہار رہ کے تو وہ جو چاہے کر سکتی ہے لیکن جیسے ہی اس عوامی قوت کو کوئی منظم ایجنڈا اور ماہر لیڈر شپ مہیا کرنے کی کوشش کریں گے تو مخصوص لیڈرز کو ناپسند کرنے والے فی الفور اپنے گروہی تعصبات کی بنیاد پر الگ ہونا شروع ہو جائیں گے اور وہ عوامی تحریک کی بجائے ایک فیل شدہ گروہی تحریک بن جائے گی جس کے اندر سے ہی اس کے کئی دشمن پیدا ہو جائیں گے۔
اس چیز کا مظاہرہ پڑوسی ملک میں دوبار برپا ہونے والے کسانی احتجاج میں صاف دیکھا جا سکتا ہے، دونوں بار حکومت کی سانسیں بند ہونا شروع ہوگئی تھیں لیکن جیسے ہی وہ مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور یہاں سے کسان اپنے نمائندے چننا شروع کرتے ہیں تو ساری قوت دھڑام سے کھوہ کھاتے میں جا گرتی ہے، کسی گروپ کو یہ لیڈر پسند نہیں آتا کسی کو وہ لیڈر پسند نہیں آتا جس کا نتیجہ باہمی چپقلش اور پھوٹ کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
جب تک اپنے اندر آپ وہ وسعت نظر پیدا نہیں کرسکتے جو حصول مقاصد تک یکجا رہنے کیلئے ضروری ہے تب تک ایسے ایونٹ کسی نظام کو صرف تلپٹ تو کرسکتے ہیں لیکن نتیجۃً اپنی امنگوں کے مطابق کوئی دیرپا نظام وضع نہیں کرا سکتے۔
بنگلہ دیش میں جاری خلفشار کے دوران ایک مرکزی قیادت کے اسی گیپ کو پورا کرنے کیلئے فوج نے انٹروین کیا ہے، بیگم خالدہ ضیاء کو بغیر کسی قانونی وجہ کے آزاد کیا جا رہا ہے تاکہ سمجھا بجھا کے ایک کولیشن گورنمنٹ نما نظام اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے جو فی الفور عوامی امنگوں کے مطابق چند ایک ریلیف کا اعلان کرے گا اور ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔
اس سیٹ آپ میں پاور ایکسرسائز کا بنیادی ڈھانچہ چونکہ وہی رہے گا جو حسینہ کے پاس تھا تو کچھ ہی عرصے میں یہ پھر وہیں کھڑے ہوں گے جہاں اب ہیں کیونکہ ہر آنے والا آس امید کے سبزباغ دکھا کے اور دکھاوے کے کچھ مثالی کام کرکے عوام کو دو تین سال تک خوش بھی رکھ سکتا ہے اور ان سے داد بھی وصول کر سکتا ہے۔
لیکن یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جہاں رول آف لاء کی بجائے سیاسی یا خاندانی لیگیسیز کی حکمرانی ہوگی وہاں پاور پیکٹس کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں، موہ، لوبھ اور کرودھ کبھی بھی اپنا راستہ نہیں بدلتا لہذا بے انصافی اور سماجی گھٹن دوبارہ سے زیرزمین پلنا شروع ہو جاتی ہے جو ایک مخصوص مقدار تک پہنچنے کے بعد پریشر ککر کی طرح دوبارہ سے سیٹی بجانا شروع کر دیتی ہے۔
برصغیر کے ہر ریجن میں جب تک آپ یورپ جیسا رول۔ آف۔ لاء جو میرٹ اور شخصی آزادی کا ضامن ہو وہ نہیں لاسکتے تب تک آپ کا ہر انقلاب ایک گول چکر کاٹنے کے سوا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔