Watan Ka Chehra Khoon Se Dho Rahe Ho
وطن کا چہرہ خون سے دھورہے ہو
پاکستان کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس ملک کا ہر بچہ بچہ اس کے حالات سے واقف ہے۔ کیا آج سے ستر سال پہلے اس ملک کے حالات بہتر تھے، یا اب، اس سوال کا جواب شاید سب دینے سے قاصر ہیں۔ ہر کوئی ملک کی غمگین صورت حال پر بحث تو کررہا ہے۔ وہ چاہے سیاسی پارٹیز ہوں یا ٹاک شوز لیکن اس کا حل اس پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا، حالات مزید کتنے بدترین ہوں گے، اس سے کوئی واقف نہیں ہے۔
مہنگائی ایک سال کے اندر آسمان کو چھورہی ہے۔ متوسط طبقہ جو پہلے ہی فاقوں کی زندگی بسر کررہا تھا۔ وہ اب مزید فاقوں کی صورت میں خودکشی میں اس کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ سفید پوش گھرانوں پر ایک پردہ ہے۔ جو قدرت نے ڈال رکھا ہے، اگر انکی حقیقی صورت حال ملک کو چلانے والے دیکھ لیں تو شاید ظالم دل بھی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہیں۔ تکلیف کا اندازہ ہمیشہ وہی کرسکتا ہے۔
جو ویسے حالات سے گزرا ہو ورنہ کسی کی تکلیف ناک صورت حال کا اندازہ لگانا اور احساس کرنا ناممکن ہے۔ اس ملک کو چلانے والے حکمرانوں کو شرم سے ڈوب مرجانا چاہیے، جنہیں زلزلہ سے متاثرین کو بھی کھلے آسمان کے نیچے بے سہارا چھوڑ دیا لیکن ایک موسیقار خاتون نے وہ کام کیا، جو اُن کو کرنا چاہیے تھا، جو رعایا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اس ملک کے بدترین حالات میں مہنگائی اول نمبر پر ہے، جس کی شرح ۴8 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
ملک سے اگرعوام کی تعداد کم کرنی ہے تو مہنگائی کر دیں جو غربا کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آئے روز اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، عوام کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوگیا۔ غریب کے پاس واحد روٹی جو اُس سے چھین لی جائے تو سوائے موت کے اُس کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ بہت سے واقعات جو حالات حاضر میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ مہنگاِئی ہے، جو خودکشی کا باعث بن رہی ہے۔
تیسرا جرائم پیشہ عناصر ہیں۔ جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چاہے وہ قتل وغارت یا کسی کی آبرو ریزہ ریزہ کرنے کے واقعات ہوں۔ آپ کو پاکستان میں سب عام ملے گا، ملکی حالات کی وجہ سے ہی ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نا آپ کو کوئی قانون کا ادارہ شفاف ملے گا، جہاں اس کی روک تھام کے لیے حکمت وعملی کی جائے۔ پچھلے دنوں چند افراد ڈنکی کے باعث اپنی جان سے گئے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ قانونی طریقے سے اگر ان افراد کے پاس کچھ ہوتا تو وہ اپنی جان سے نہ کھیلتے۔
ملک کی صورت حال سے تنگ غربا غیر قانونی طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ بہترین مستقبل کے درشن انکے مقدر کا بھی حصہ بن سکیں۔ ملک میں غربت کس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دوسرے ممالک ترقی یافتہ اس لیے ہیں کہ وہ اپنی رعایا کا خیال کرتے ہیں ناکہ اپنے خزانے بھرنے کی جستجو میں مگن رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوکر بھی ترقی کر گیا، جب کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ مزید حالات بدترین ہوگئے ہیں۔
صرف عوام سے ہی کیوں قربانی مانگی جاتی ہے؟ اس ملک کے امرا اور اشرافیہ کیوں قربانی نہیں دیتے۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل وزرا اپنی عیاشیاں کیوں ختم نہیں کرتے؟ ایوان و عدلیہ میں بیٹھے افراد کا پروٹوکول ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخر کب تک عوام ہی بوجھ اٹھاتے رہیں گے، قربانیاں دیتے رہیں گے؟ آخر میں سوال یہ ہے کیا پاکستان کے حالات کبھی سدھر سکیں گے یا نہیں؟ حبیب جالب نے کیا خوب کہا چند مصرعے، جو اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے