Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Tumhari Awaz Falasteeni Hai

Tumhari Awaz Falasteeni Hai

تمہاری آواز فلسطینی ہے

مذہب تاریخ میں سب سے زیادہ غیر انسانی جنگوں اور قتل و غارت کا سبب رہا ہے۔ حقائق واضح طور پر ایک الٹی صورت حال کی وضاحت کرتے ہیں، اس حد تک کہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس اکثر دہرائے جانے والے افسانے سے کون یا کیا فائدہ اٹھاتا ہے۔

مزید برآں، جہاں روشن خیالی کے نظریات یا کمیونزم جیسے منصوبوں سے چلنے والی سیکولر سیاست نے انسانی زندگی کو شماریاتی حقیقت کے طور پر ایک عظیم بھلائی کے ماتحت سمجھا ہے، وہیں یہ مذہب ہے جس نے روح کے خیال سے اپنی وفاداری کو برقرار رکھا ہے، جو ہر ایک کو منفرد طور پر آباد کرتا ہے۔ ہر جسم، روح، اپنی بعد کی زندگی میں، اجتماعی بھلائی سے بالاتر فرد کے لیے ایک جگہ متعین کرتی ہے، جیسا کہ شہادت جیسے تصورات میں دیکھا گیا ہے۔

ایک الہیات جس کے لیے سیکولر نظریات کا کوئی قابل عمل متبادل نہیں ہے اور پرتشدد تنازعات کی وجہ سے ہونے والے درد کو تعداد میں نہیں ماپا جا سکتا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر اپنے پیاروں کی موت کے درد کو محسوس کرنے کی ہماری صلاحیت دور جنگوں کے علم سے محسوس ہونے والے درد کے مقابلے میں معمولی ہوگی۔ دنیا میں کوئی بھی یکجہتی ہمیں ہمدردی کی اس حد تک نہیں لے جا سکتی۔

میں ان خیالات کو اب دنیا میں عظیم مصائب کے وقت پیش کرتی ہوں - فلسطین - جہاں سیکولر اور مذہبی نظریات پیچیدہ اور اکثر متضاد طریقوں سے ملتے ہیں۔

اس میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ ایک نوآبادیاتی تنازعہ ہے، یعنی یہ ایک سیکولر تنازعہ ہے جس میں نوآبادیات انسانی وقار اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر استعمار کی طرف سے وضع کردہ شرائط سے انکار کرتے ہیں، لیکن یہ بنیادی ڈھانچہ بھی اہم مذہبی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اسرائیل کا ایجنڈا ہے کہ وہ فلسطین پر اپنی گندی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ فلسطین امت مسلمہ کا پہلا قبلہ اول ہے۔ مسجد اقصی جو امت مسلمہ کی عزیز ترین جگہ ہے۔ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ شامل ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے اور فلسطینی عوام کو ابھی تک اپنے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کا ادراک نہیں ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں فراہم کیا گیا ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے لیے ہماری حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کرنے کا بھی موقع ہے جو غیر قانونی اور وحشیانہ قبضے کے خلاف منصفانہ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس دن، پاکستان فلسطینی عوام اور فلسطینی کاز کے لیے اپنی مسلسل اور بلا روک ٹوک حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جو ہمیشہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک متعین اصول رہا ہے۔

عالمی برادری کو فلسطینی عوام کی جانوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے، اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے بین الاقوامی جواز کے مطابق پائیدار امن و استحکام کے مفاد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنا چاہیے۔ مشرق وسطی، عالمی برادری کو مقبوضہ علاقوں میں بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قانون کی وسیع پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزیوں کا احتساب بھی یقینی بنانا چاہیے۔ ہم اس دن ایک قابل عمل، خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کے لیے اپنے مطالبے کی تجدید کرتے ہیں، جس کی 1967 سے پہلے کی سرحدیں ہیں، اور القدس الشریف کو اس کا دارالحکومت بنایا جائے گا، جو مسئلہ فلسطین کا واحد، جامع اور دیرپا حل ہے۔

بہت سی ادبی وعلمی شخصیات نے اپنے کلام میں فلسطین کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے جن میں اقبال، فیض اور ایڈورڈ سعید کے نام بھی اہم ہیں۔

ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟

اقبال لکھتے ہیں فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بہت پریشان کر رہا ہے۔۔ بقول اقبال:

"فلسطین میں مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں"۔ دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے زور زبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو اسے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔ آج جو فلسطین کی صورت حال ہے یہ ہمیں اقبال کے کلام میں بھی ملتی ہے۔

ضرب کلیم میں فلسطینی عرب کے عنوان سے ایک نظم میں وہ کہتے ہیں کہ

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

فلسطین کی ایک آواز فیض صاحب تھے۔ فیض احمد فیض نے بھی فلسطین کے حوالے سے کلام لکھا۔ غزہ کی درد ناک صورت حال کو انہوں نے اپنے کلام میں اس انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ نظم "فلسطینی بچّے کے لیے لوری" میں فیض نے مظلوم فلسطینی بچّوں کے نالہ و فریاد کی ترجمانی اور ہم دردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ؎

مت رو بچّے۔۔ رو رو کے ابھی۔۔ تیری امّی کی آنکھ لگی ہے۔۔ مت رو بچّے۔۔ کچھ ہی پہلے۔۔ تیرے ابّا نے۔۔ اپنے غم سے رخصت لی ہے۔۔ مت رو بچّے۔۔ تیرا بھائی۔۔ اپنے خواب کی تتلی پیچھے۔۔ دُور کہیں پردیس گیا ہے۔۔ مت رو بچّے۔۔ تیری باجی کا۔۔ ڈولا پرائے دیس گیا ہے۔۔ مت رو بچّے۔۔ تیرے آنگن میں۔۔ مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں۔۔ چندرما دفنا کے گئے ہیں۔۔ مت رو بچّے۔۔ امّی، ابّا، باجی، بھائی۔۔ چاند اور سورج۔۔ تُو گر روئے گا تو یہ سب۔۔ اور بھی تجھ کو رلوائیں گے۔۔ تو مُسکائے گا تو شاید۔۔ سارے ایک دن بھیس بدل کر۔۔ تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے۔

ایڈورڈ سعید ایک بلند اور توانا آواز رکھنے والا فلسطینی باشندہ تھا جس نے فلسطین کے حق میں اپنی آواز بلند کی اور فلسطین سے بے دخل کردیا گیا لیکن ایڈورڈ نے فلسطین کے لیے اپنا قلم رکنے نہیں دیا۔ ایڈورڈ اپنی آپ بیتی میں رقمطراز ہے:

"مجھے اب رہ رہ کر جو چیز کچوکے لگاتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا خاندان کتنی بری طرح اجڑا اور کتنا در بہ در ہوا"۔

ایڈورڈ نے اپنی کتاب "مسئلہ فلسطین" اور "orientalism" میں فلسطین کے حوالے سے نوآبادتی قوتوں پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی جہدوجہد اور قابض اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کے خلاف قلم کے سہارے لڑنے والے ایڈورڈ سعید کو دنیا ایک دانش وَر کے طور پر جانتی ہے جو فلسطینی عربوں کی مؤثر آواز تھے۔

حرف آخر بہت سی شخصیات آج بھی فلسطین کی آواز ہیں جو اپنے کلام سے فلسطین کے حق میں اپنی توانا آواز بلند کررہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر جو ظلم و بربریت قائم کر رکھی ہے لیکن امت مسلمہ کی طویل خاموشی پر ہر دل رنجیدہ ہے اور غزہ کے مسلمانوں پر فخر ہے کہ وہ شہادت کے جذبے سے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی غیبی مدد فرمائے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed