Mehangai Mukao Ghareeb Nahi
مہنگائی مکاوٴ غریب نہیں
مہنگائی ایک عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے ایک دانشور انسان یہ تو سمجھتا ہے لیکن یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیار کرے گا تو غریب اس روح زمین پر نظر نہیں آئیں گے وہ پھر اپنی زندگی مریخ پر یا اس دنیا سے کسی اور دنیا جاکر آباد کریں گے۔ جب حکمرانوں میں ایک سے زیادہ نوچنے والے بیٹھے ہوں اُدھر غریب طبقہ ہی کیوں پستہ ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر مہنگائی ہو بھی تو سب یکجا ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں مہنگائی کا بوجھ سب سے زیادہ غریب طبقے پر پڑتا ہے جبکہ محنت و مشقت میں بھی یہ اولین ہوتے ہیں اور ٹیکسز کا سارا بوجھ ان پر لاڈ دیا جاتا ہے۔
آمراء طبقہ جس پر سب لاگو ہونا چاہیے ٹیکسز وغیرہ وہ اس سے آزاد نظر آتا ہے۔ جبکہ ایسے لوگ باآسانی ہر ٹیکس ادا بھی کرسکتے ہیں۔ پھر اوپر سے ایسے لوگوں کے پٹرول، بجلی و گیس وغیرہ اور میڈیکل بھی فری ہوتا ہے جبکہ ایک اچھے اسلامی معاشرے کا اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ آمراء طبقہ ٹیکسز دے اور غریب طبقہ اس سے آزاد ہوکر جیے۔
پہلی بات کہ حکمران ہی اسلامی نقطہ نظر سے چلنے والے نہیں جیسے خلفائے راشدین تھے۔ مثال کے تحت میں نے خلفائے راشدین کا نام حکومت کے ساتھ جوڑا جو توہین کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ واللہ!
جب چور زیادہ ہوں گے تو لوٹنے کا سسٹم بھی زیادہ تیز ہوجاتا ہے کیونکہ جتنے منہ اور ہاتھ کھانے والے ہوں گے اُتنا مال بھی درکار ہوگا۔ بقول سٹیٹ بینک ملکی خزانہ خالی ہونے کے قریب تر ہی ہے جبکہ ابھی اس حکومت کو آئے دو ماہ ہوئے ہیں سوال یہ ہے کہ جو پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی وہ خزانہ اتنی جلدی کدھر اڑ گیا۔ اب وہ بھرنے اور اپنے بینک بیلنس کے لیے بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ مزید مہنگائی اور ٹیکسز کی صورت میں۔
حکومت کی دو ماہ کی کارکردگی، مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں مریخ تک پہنچ گئی صرف عوام کاخون سستا باقی تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ ایک ماہ میں نئی حکومت کی کارکردگی ڈالر 174 سے 205، گھی 430 سے 540، پٹرول 150 سے 210، چینی 85 سے 100، آٹا 860 سے 1200 کاتھلیا، بجلی 12روپے فی یونٹ مہنگی، مرغی 200 سے 500 اور حج 6 لاکھ سے 10لاکھ روپے۔
کسی پاکستانی نے نہ کبھی چشم تصور میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ مرغی چار سو روپے، انڈے دو سو روپے فی درجن تک جا پہنچیں گے۔
پٹرول کی قیمت اس سے پہلے کسی حکومت میں نہیں بڑھی، دوسری اشیاء گھی، چکن، دالیں وغیرہ روزمرہ کی استعمال شدہ اشیاء جو ایک عام انسان کی بھی پہنچ سے دور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ کیا ائیر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر عوام کے ٹیکسز پر اپنا آپ پالنے اور عیاش پرست حکمرانوں نے اُس مزدور دار غریب طبقے کا کبھی سوچا جن کے روز کی آمدنی ہی دو ہزار ہے جس میں کرائے، بجلی و گیس کے بل ادا کرنا کیسے ممکن ہوتا ہوگا۔ مہنگائی ختم نہ ہوئی تو ایسے غریب لازم ختم ہوجائیں گے۔
ایسے مزدور طبقے کاخون نچوڑ کر ٹیکس لے کر عیاش پرست زندگی جینا چوروں اور بے حس لوگوں کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ عوام سے ٹیکس نچوڑنے کے بجائے تمام مقتدر حلقے اپنی فضول خرچیاں اور عیاشیاں بند کرکے سادگی اپنائیں۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے غیر ضروری اور ناجائز مراعات سے دستبردار ہوں اور عوام کے سامنے ایک مثال بنیں۔ عوام ٹیکس کیوں دیں جبکہ ان کو پتہ ہے کہ ان کا پیسہ صحیح جگہ پہ اور انکی فلاح و بہبود کیلئے خرچ نہیں ہوگا۔ غریب عوام کیلئے یہ سب ناقابلِ برداشت ہے۔ بے روزگاری کے علاؤہ سینکڑوں دیگر مسائل غریب کی زندگی اجیرن کر چکی ہے۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
پٹرولیم مصنوعات میں ظالمانہ اضافہ معاشی قتل کے مترادف ہے حکومت یہ اضافہ فوری طور پر واپس لے اور مہنگائی میں پسی ہوئی غریب عوام پر رحم کرے۔ دوہزار آپ ملازمت پیشہ افراد کو دے کر کیا ثابت کررہے کہ ہم خدا ترس ہیں یا عوام کو نیا چورن دے رہیں ہیں۔ ملازمت پیشہ کی تنخواہ بڑھا کر احسان کریں یہ دوہزار والا لالی پوپ اپنے لیے رکھ لیں شائد کسی جگہ لگ جائے کیونکہ ملازمت پیشہ کے لیے دو ہزار کوئی غنیمت یا احسان نہیں جو کیا جارہا ہے۔
اتنے سالوں میں مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن تنخواہوں میں کتنے فیصد اضافے ہوئے۔ غریب سرکاری ملازمین مہنگائی کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہیں دو وقت کی روٹی کھانا عوام کیلئے مشکل ہو چکی کھانے پینے و جملہ ضروریات کی اشیا دسترس سے باہر ہو چکی حکومت ملازمین کش پالیسیوں سے گریز کرے۔ سیاستدان بلا وجہ تو عوامی حقوق کی بات نہیں کررہے کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اگر منصب اقتدار پر فائز ہونا ہے تو عوام ہی وہ واحد سیڑھی ہیں جسے استعمال کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچا جاسکتا وگرنہ انہیں عوام کی کیا پڑی ہے اْن کی بلا سے وہ جیئں یا مریں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں اس کے برعکس اگر انہیں کسی چیز کی فکر ہے تو وہ صرف اور صرف حصول اقتدار کے سوا کچھ نہیں اور یہ حقیقت کسی حد تک قوم کے سامنے بھی عیاں ہوچکی ہے جس کے باعث انہیں عوامی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل رہی جس کی انہیں توقع اور ضرورت ہے۔
اقبال ساجد کا ایک شعر یاد آگیا:
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا