Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Bureaucrats Ki Shakal Mein Kali Bherein

Bureaucrats Ki Shakal Mein Kali Bherein

بیوروکریٹس کی شکل میں کالی بھیڑیں

سول سرونٹ جبکہ اردو میں اس کا مترادف لفظ عوام کا نوکر ہے۔ مگر کون عوام کی خدمت کرتا ہے یہ محض مضحکہ خیز بات ہے۔ عوام کے خدمت گزار نہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ پاکستانی بے شعور عوام کے خون پسینے کی آمدنی پر پلنے والے یہ عوامی خدمت گزار جب عہدے پر براجمان ہوتے ہیں تو یہ عوامی خدمت اور اپنے فرائض سے بےخبر ہو کر عوام سے اپنی خدمت کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ "کالی بھیڑیں" اور سفید بھیڑیں یہ کن کے لیے کہا جاتا ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ یہ موضوع پر لکھنے کے کچھ مقاصد تھے اور تحریر میں لانا ضروری بھی تھا تاکہ ان چہروں کے پیچھے کیسی فرعونیت پوشیدہ ہے اُس کو ظاہر کرنا میرا اہم مقصد تھا۔

عوام کا خون نچوڑ کر جو ٹیکسوں سے ان کے شاہی نخرے اٹھائے جاتے ہیں وہ شاہی افسر عوام کے لیے کونسے ایسے تیر مارتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بیچلر کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریٹس کی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ وہ فیلڈ جس میں کرپشن بہت سلجھے انداز میں ہوتی ہے۔ بہت سے دوسری فیلڈ کے افراد اپنی فیلڈ چھوڑ کر جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ شامل وہ بیوروکریسی کا رخ کرتے ہیں آخر وجہ بھی تو اہم ہے۔ چلیں اس پر کچھ نکات سے روشنی ڈالنے کی جسارت کرتی ہوں۔

آخر ہر انسان سی ایس پی بننے کے خواب کیوں دیکھتا ہے؟

اگر ایمانداری و ذمہ دارانہ طور پر دیکھا جاِئے تو یہ آسان ہے کیا؟

کیا اس فیلڈ میں آنے کے بعد تاعمر یہ اپنی تنخواہ تک محدود رہتے ہیں؟

کیا پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو یہ ایماندار نظر آتے ہیں؟

کیا یہ کرپشن سے پاک رہتے ہیں؟

انکو غرباء عوام یعنی متوسط طبقے کی خدمات و مسائل کے لیے تعینات کیا جاتا ہے کیا یہ متوسط طبقے سے سلجھے انداز میں بات کرتے یا سنتے ہیں؟

آج اگر بیوروکریسی شتر بے مہار ہے تو اس کا سہرا کس کے سر ہے؟

کیا انکے بچے پاکستان کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں؟

کیا انکے بچوں کی بیرون ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں فیسز انکی تنخواہ سے دوگنی نہیں ہوتیں؟

پاکستان میں بیوروکریسی ایک منہ زور گھوڑے کی مانند کیوں ہے؟

کیا انکے آمدنی کے اور ذرائع ہیں تو وہ کونسے ہیں؟

اب جس انسان نے ساری عمر میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہو اسے کامرس، زراعت، ریلوے یا پولیس کا کیا پتا؟

یہ اور اس کے علاوہ بہت سے سوالات ہیں جس کے جوابات ہر ایک کو علم ہوگا بتانے کی زحمت سے گریز ہی کروں تو بہتر ہے۔ لاعلم بندہ بھی ایسی فلاسفی کو سمجھ سکتا ہے۔ کیا بیوقوف اور شعور سے خالی عوام کی آنکھوں میں پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یہ وہ طبقہ جو سیاسی لوگوں کے بعد کرپشن کرنے میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی کسی سے مخفی نہیں۔ بڑے بڑے بیوروکریٹس جو تاحیات اسلامی جمہوریہ پاکستان سے مال یکجا کرتے ہیں اور آخر عمر اپنی اولادوں سمیت بیرون ملک رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ باقی عمر گولف کھیل کر گزار دی جاتی۔ بنیادی جڑ جو جرائم پیشہ عناصر اور کرپشن میں سرفہرست ہیں۔ یہ ہی کالی سفید بھیڑیں ہیں۔

ہر شعبہ میں چند ایک، اکا دکا لوگ غلط کام کرکے پورے شعبے کو بدنام کرتے تھے، لیکن اب معاملہ الٹ ہے۔ اب بہت سارے لوگ مل کر اکا دکا لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ وکیلوں کی ایک بڑی اکثریت نے باقیوں کو بدنام کر رکھا ہے، کم و بیش یہی حال دوسرے شعبوں کا بھی ہے۔ جس شعبے پر نظر دوڑائیں۔ کسی بھی اچھی حکومتی اسکیم کا فائدہ عوام تک منتقل نہ ہونے دینا بھی اسی بیوروکریسی کا خاصہ ہے۔

دوسری طرف اس نظام کی قباحتیں ملاحظہ ہوں جو بھرتی کا یہ طریقہ کار نہایت بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اس قسم کے کرپٹ اور بدعنوان سرکاری ملازمین، بیروکریٹ، پولیس آفیسرز، سیاست دانوں، ججز حضرات اور ملٹری آفیسرز کی کرپشن کی کہانیاں سُنتے اور سناتے ہیں مگر افسوس صد افسوس اس قسم کے بدعنوان افسران کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے اور دوسروں کو بھی دعوتِ عام ہے کہ تباہ حال بیوروکریسی کو مزید تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

Cicero نے کہا تھا۔ "The welfare of the people is the highest law۔ "William Pitt کی فہم و فراست کا نچوڑ صرف اتنا ہے۔ "Where law ends، tyranny begins۔ "ڈکشنری اٹھائیں"Tyranny" کے معنی دیکھیں اور پھر ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالیں۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے مل کر ایسا معاشرہ تخلیق کیا جس میں ان طاقتور طبقات نے عوام کو غلام بنایا ہے۔ طاقتوروں کے لیے ہمیشہ ذہن میں ایک ہی مصرعہ آتا ہے۔

اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے۔

ابھی چند دنوں قبل کی ہی بات ہے کہ شہر اقبال میں تعینات سی ایس پی کے ناجائز زمین پر قبضہ کے قصے سامنے آئے تو ان کو تفتیشی کٹہرے میں لانے کی بجائے ایک شہر سے دوسرے شہر تعینات کر دیا گیا۔ خیر ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا سر پاؤں ہو بھی تو انکو دبا دیا جاتا ہے۔ آخر میں وہی بات کہ آخر بیوروکریسی نے پاکستان کو کیا دیا۔ ہر شعبے کی طرح اس میں بھی جو ملاوٹی عناصر ہیں نہ جانے کب ان پر ردعمل ہوگا۔ انہی طبقوں کے لیے یہ شعر خوب لکھا گیا ہے۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi