Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khurram Masood
  4. Ghaflat Azab, Shaoor Bari Nemat

Ghaflat Azab, Shaoor Bari Nemat

غفلت عذاب، شعور بڑی نعمت

قرآن پاک میں سورہ ملک کی دوسری آیت میں"اللہ فرماتے ہم نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے کام اچھے ہیں۔ " زندگی کامقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ جو دین نے بتایا ہے وہ اللہ کی مخلوق کے کام آنا ہے اور اس کی مخلوق کیلیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ یہ اللہ کا کسی شخص پر بڑا فضل ہے کہ وہ مخلوق کے کام آ رہا ہے اور اللہ کی مخلوق سے نرمی کا معاملہ کرتا ہے اور بے شک اللہ نرمی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اللہ نے قرآن، حدیث اور سنت رسول کے ذریعے زندگی گزارنے کے تمام احکام قیامت تک آنے والے انسانوں کو بتا دیئے۔ اب اچھے اور برے رستے کا انتخاب ہر شخص نے اللہ کا فضل مانگتے ہوۓ خود کرنا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک گھڑی کا سوچنا ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ غور و فکر، تدبر و سوچ، عقل و شعور کی کس قدر اہمیت اور کتنا اعلیٰ درجہ ہے۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ ساری زندگی گزر جانے کہ بعد بھی کبھی دل و دماغ میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کے اللہ کے حکم اور ہمارے عمل میں کتنا تضاد ہے۔ اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ہم بالکل مخالف سمت کو جا رہے ہیں۔ جب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہو تو غفلت میں پڑے انسان کیلئے یہ دنیا میں ہی ایک عذاب کی شکل ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ انفرادی طور پر معاشرے کو بہتر بنانے کیلیے عقل و شعور کا استعمال کر کے اپنا مثبت قردار ادا کرے اور بہترین معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں اور ایک اچھی امت اور بہترین معاشرے کی بنیاد رکھیں اور یہ عمل اپنے گھر سے شروع کریں۔

معاشرے میں عدم برداشت تیزی سے بڑھ رہا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، برائیوں کی جڑ جھوٹ بولنے کی کثرت معاشرے میں ہو اور جھوٹ بولنے والے کو جب یہ کہا جائے کہ وہ بولنے کا فن جانتا ہے، جب چرب زبان لوگوں کی معاشرے میں تعریف ہونے لگے تو اس معاشرے کی گراوٹ کا کیا عالم ہو گا؟ شب و روز غفلت میں گزرنے کیوجہ سے انسانی صفات غائب اور حیوانی صفات انسانوں پر غالب آتی جا رہی ہیں۔

اور شخصیات کو اس بات کا غفلت کی وجہ سے ادراک ہی نہیں ہو پا رہا کہ ان کی شخصیت دوسروں کیلیے کس قدر اذیت ناک بن چکی ہے، دوسروں کو تکلیف دینا اپنی زبان اور عمل سے انکی شخصیت کا حصہ بن چکا ہو۔ جب وہ بولتے ہیں تو انکی بات دوسرے انسان کو اندر سے اس قدر زخمی کر دیتی ہے ایسے لوگ زندہ تو ہوتے ہیں پر زندہ لاش کی مانند ہوتے، اپنی غلطی کا احساس تک نہ ہونا بلکہ اپنی غلطی کی غلاظت دوسروں پر مسلط کرنا انکی شخصیت کا حصہ بن چکا ہو۔

دوسروں کی زندگی کو اذیت سے دوچار کر کے وہ اصل میں اپنی ہی زندگی کا سکون تباہ کر رہے ہوتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ انکا دل و دماغ نہ حق بات سننا پسند کرتا نہ سچ بات تسلیم کرتا ہے۔ غفلت کی دیوار پھر اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ پھر اس سے باہر نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ شخصیت اس قدر بدبو دار ہو چکی ہوتی ہے جیسے بدبو دار کوڑی کہ نہ ہی معاشرے میں کوئی ان کے پاس سے گزرنا چاہتا ہے نہ ہی کوئی ان کی طرف دیکھنا چاہتا ہے۔

وہ ایسی شخصیت بن چکے ہیں کہ وہ ایک جگہ ٹھہریں بھی تو ان کی کردار کی اذیت نا ک بدبو سب کیلئے تکلیف کا باعث ہے نہ حق بات کہتے ہیں نہ انکا دماغ سچ بات قبول کرتا ہے، ان کا اپنی اس شخصیت سے غافل رہنا دنیا میں ہی خود ان کیلئے بھی عذاب ہے۔ اس بات کے احساس کا ہی مر جانا کہ وہ کیسی شخصیت کے مالک بن چکے ہیں؟ کچھ لوگ معاشرے میں زندہ لاش کی مانند ہیں معاشرے میں پتھر کی مانند انکا کردار ہے۔

بے حسی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، اپنی نفس کی خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک پہنچ سکتے ہیں چاہے کسی دوسرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، پتھر کی طرح ان پر کسی واقعہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اپنا احتساب کیجیے اپنے اندر جھانکئیے، اپنی غلطیوں کو پہچانیں اور ان سے سبق سیکھیں۔ جب آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہو جائیگا تو آپ سمجھ جایئں راستہ کھلنا شروع ہو گیا ہے۔

زندگی چند روزہ آزمائش ہے صبر، تحمل اور برداشت کریں۔ ہماری خواہشات اور حقیقت کے درمیان بس نفس حائل ہے نفس نکل جائے تو حقیقت کھل جاتی ہے اور میں مر جاتی ہے۔ قدم اٹھائیں بس قدم اٹھانے کی دیر ہے منزل آپکا انتظار کر رہی ہے۔ اپنے اندر شعور پیدا کریں شعور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی دی گئی ہے تو اس کے قریب ہوا کرو۔ کیوں کہ وہ حکمت کی باتیں کرتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق دنیا میں بےجا انہماک سے اجتناب اور بلاوَجہ لمبی گفتگو سے گریز انسان میں حکمت و شعور کا وصف پیدا کر دیتا ہے۔ حضوؐر نے اس نعمت کے حصول کی دو شرائط بیان فرمائیں، ایک زُہد اور دوسری گفتگو میں غیر ضروری طوالت سے پرہیز۔ دنیا سے اس حد تک تعلق کہ دین فراموش نہ ہو، زہد ہے۔ گویا زُہد کا معنی دنیا کی حرص اور لالچ سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

کم بولیں پر جب بولیں سوچ کر بولیں، نیک سیرت لوگوں کو تلاش کریں ان کے تجربات سے سیکھیں ان کی صحبت اپنائیں یہی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ اگر کتابوں کے پڑھنے سے ہی سب سیکھ لیا جاتا تو ہر شخص جہاز بنانا سیکھ لیتا، زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے نیک لوگوں کی صحبت ضروری ہے تاکہ بہترین معاشرے کا قیام ہو سکے اور بہترین معاشرے کی تشکیل صرف اسلامی اصولوں کو اپنانے سے اور اس پر عمل کر کے اپنے کردار کو صندل کی مانند کر دینا ہے کہ جس کو چھوے بھی تو اسے سونا کر دے اور کسی جگہ ٹہرے بھی تو اسکی خوشبو سے فضا معطر رہے۔

ایسا کردار اپنائیں کہ لوگوں کی زندگیاں سنوارنے والا ہو۔ کچھ لوگ انتہائی حساس طبعیت کے مالک ہوتے ہیں باتوں میں چھپے الفاظ کا مطلب بھی جان لیتے ہیں نہ کہ دن رات اللہ کی نافرمانی اور غفلت میں گزار دے اور اسکو خبر ہی نہ ہو کہ زندگی برف کی مانند پگل رہی ہے، وقت ریت کی مانند ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور اسے اپنی سمت اور منزل کا تعین بھی نہیں کیا۔ غفلت حقیقت میں برائیوں کی طرف لیجاتی ہے۔ ایک شخص کو گناہ اور ثواب کے فرق کا ہی نہیں پتہ تو وہ گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کے عمل کو کیسے پہچان سکے گا؟

غفلت کی وجہ سے انسان بہت سے اجر و ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، انسان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، لہٰذا غفلت سے نجات میں سعادت ہے، بندگی کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے۔ اگر اللہ نے آپ کو سجدوں کی توفیق دی ہے تو اللہ کے حضور مانگتے رہیے کہ کہیں میرا شمار غافل لوگوں میں شمار نہ ہو جائے اللہ سے عقل و شعور اور اسکا فضل مانگتے رہیے یہ اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari